جب اچھی خبریں کم ہوتی ہیں


وطن عزیز میں مقتدر زعماء کو خوش خبری سنانے کا بہت شوق ہے۔ کوئی کہیں سے سونے چاندی کے ذخائر نکلنے کی خوش خبری سنا چکا تو کوئی تیل کی بوتل دکھا کے لوگوں کا دل بہلا چکا تو کوئی اب خوش خبری سنانے کی خبر دے کر لوگوں کو اچنبھے میں ڈال چکا۔ منتظر لوگوں میں کوئی وزیراعظم کے ہاں منے منی کی ولادت کی نوید سننے پر تلا بیٹھا ہے تو کوئی تیل کے بے تحاشا ذخائر دریافت ہونے کے بارے میں پر یقین ہے۔

ویسے تو نہ آج تک تانبا نکلا نہ تیل، نہ سونا نکلا البتہ خوش خبری سنانے والوں کو ہوئی تو جیل ہوئی بعد میں کسی کو پھانسی ملی تو کسی کو حبس دوام کا خوف ہلکان کیے رہا۔ اللہ نہ کرے اس بار خوش خبری سنانے والے کے ساتھ بھی بعد میں کچھ ایسا ہو۔

چلو سعودی عرب یا وینزویلا کی طرح بہت زیادہ تیل نکل بھی آئے تو پہلے پچیس برس کا منافع تو بھول جائیں کیونکہ تیل تلاش کرنا اور رگز لگانا پھر تیل کی نکاسی، صفائی اور ترسیل کرنا بھک منگوں کا کام تو ہوتا نہیں۔ نکالنے والے کچھ مقامی طفیلی سرمایہ داروں کو البتہ تھوڑا بہت حصہ ضرور دیتے رہیں گے۔ ایسے امراء تو پہلے ہی بہت زیادہ خوشحال ہیں چلو کچھ اور زیادہ ہو جائیں گے۔

پاکستان سعودی عرب تو ہے نہیں کہ یہاں خانوادہ سعود کی حکومت ہو نہ یہاں مکہ مدینہ جیسے مقدس شہر ہیں کہ سب تقدس، تحفظ، تحکم اور تنظیم سے چلتا رہے۔ اگر زیادہ نہیں تو بہت حد تک وینزویلا سے ملتا ہے اور بڑی حد تک نائجیریا سے۔ ان دونوں ملکوں میں بہت زیادہ تیل نکالا جاتا ہے مگر ان دونوں ملکوں کے حالات کے بارے میں سب کو علم ہے کہ دگرگوں اور ناگفتہ بہ ہیں۔

عام آدمیوں کے حالات ان کے ملکوں میں تیل یا کسی قیمتی دھات کے بے تحاشا ذخائر دریافت ہونے، ان کو نکالے جانے سے ٹھیک نہیں ہوا کرتے بلکہ ایک متناسب، مناسب اور منظم نظام مرتب کرکے اسے رواج دیے جانے سے بہتر ہوا کرتے ہیں۔ جب نظام ہی لوٹ کھسوٹ پر مبنی ہو تو دولت کے دریا میں نہانے والے دوسروں کے لیے اپنے بال تک نہیں نچوڑا کرتے۔

 آپ نے بڑے بڑے صنعتکاروں اور بڑے زمینداروں کو دیکھا ہوگا کہ ان کا مزارع یا ان کا ورکر اگر چند سو یا چند ہزار مانگے تو وہ ماتھے پر تیوری ڈال کے پہلے پوچھتے ہیں تو “اتنے پیسوں” کا کیا کرے گا اور جب وہ احتیاج بتاتا ہے تب اول تو اسے صاف جواب دے دیتے ہیں اور اگر مہربان ہوں تو اس کی احتیاج کے اخراجات کا خود تعین کر کے کچھ کم رقم دے کر اس پر احسان جتاتے ہیں۔

وطن عزیز میں ابھی باقاعدہ صنعتی ملکوں کے لوگوں کے سے رویے نہیں بن پائے ہیں کیونکہ صنعت ہے ہی نہیں۔ تقریباً ہم سب کے رویے، چاہے صنعتکار ہوں، تاجر ہوں، افسر ہوں یا اختیار رکھنے والے کوئی بھی کیوں نہ ہوں ، رویے زمیندارانہ یعنی فیوڈل ہیں۔ اس میں زیردست افراد کی تحقیر کرنا لوگوں کو ان کے مقام پہ رکھنا، انہیں ضرورت مند رکھنا کھیل کا حصہ ہوتے ہیں۔

 اگر وزیر اعظم عمران احمد خان نیازی کوئی خوشخبری سنائیں تو ان کی مہربانی ہوگی کہ ساتھ ہی اپنے بادشاہ بن جانے کی خوش خبری بھی دیں۔ بادشاہوں میں یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ جہاں ایک طرف وہ سخت گیر ہوتے ہیں وہاں دوسری طرف وہ نوازتے بھی بہت ہیں۔ بادشاہ چاہے سعودی عرب کا ہو چاہے تھائی لینڈ کا کوئی نہ کوئی بامراعت سہولت اپنے لوگوں کے لیے فراہم کرتا ہی کرتا ہے جیسے سعودی عرب کے بادشاہ نے کفیل ہو کر کام کیے بغیر کمانے کی سہولت دی اور تھائی لینڈ کے بادشاہ نے جنس کو صنعت بنا کر کمانے کی۔

جہاں خبریں کم ہوتی ہیں یعنی نہ قانون سازی کے بارے میں خبر، نہ صنعتیں لگائے جانے کے بارے میں خبر، نہ صحت اور تعلیم کی سہولتیں عام کیے جانے سے متعلق خبر، نہ زراعت کو مشینی کیے جانے سے متعلق خبر، نہ تحقیق و ایجادات کے بارے میں خبر بلکہ یا تو بری خبریں ہوتی ہیں یا بے خبری کو فروغ دیا جاتا ہے وہاں سال دو سال بعد خوش خبری سنانے کا سہارا لیا جاتا ہے، چاہے اس خبر کے بعد کبھی خوشی نصیب نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).