امن عالم کی شاعرہ : نزہت صدیقی


برسوں پہلے امرتا پریتم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا: ”نزہت صدیقی نے جو نظریہ پیش کیا ہے وہ شاعری کو ایک نئی سمت دے رہا ہے“
ڈیلی ہند سماچار۔ جالندھر۔ سنڈے ایڈیشن 7 مئی 1987

قابل صد احترام امرتا پریتم کا کالم پڑہنے کے بعد عہد نامہ قدیم کی ایک آیت یاد آئی:
”حکمت سے گھر تعمیر کیا جاتا ہے
اور فہم سے اُس کو قیام ہو تا ہے ”

میرا خیال ہے بڑی شاعری، ادب اور فن، کلچر کے اندر وہ فہم ہے جس کی موجودگی یا غیر موجودگی انسانوں اور قوموں کے ارتقاء یا زوال کا باعث بنتی ہے۔ شاعری اور ادب معاشرتی طنابیں سنبھالنے میں وہی کام کرتا ہے جس کی طرف با ئبل کے انبیا نے اوپر والی آیات میں اشارہ ہے۔ اس کا مقصدِ اولیں ایک پر امن انسانی معاشرہ ہے اور نزہت کی شاعری کا محور بھی امن ہے۔ امن، اپنے وسیع تر معنوں میں یعنی امنِ عالم جو دور حاضر میں انسانی معاشرہ کے ساتھ ساتھ کرہِ ارض پر ہستی کی تمام صورتوں کی اشد ضرورت بن چکا ہے۔

نزہت کا تعلق خانوادہِ رسول سے ہے شا ئد اسی لئے ان کے تیقن کا افق روحانیت کے نور سے روشن ہے جب کہ اس خاکسار کی کل کائنات آب و گِل کا کھیل ہے۔ اسی لئے مٹی پر ماتھا ٹیکے ایک زمانہ بیت گیا ہے۔ لیکن کبھی کبھی میرے ذہن میں یہ خیال گزرتا ہے کہ آب وگل کی رمز آشنائی میں انسان نے صدیاں بلکہ ہزاروں برس بتا دیے ہیں مگر مادے کی بجھارت ابھی سلجھی نہیں۔

مادہ پرستی کی نظریاتی اساس کے ساتھ انسان کا رویہ حقیقت ِ عظمی اور نیچر کی جانب تقدیس اور تیقن سے تشکیک میں بدلے ہوئے کم سے کم پانچ سو سال گزر چکے ہیں۔ ان پانچ سو سالوں میں انسان نے کیا کھویا اور کیا سیکھا، اس کی داستان تو بہت طویل ہے مگر ایک بات جو روزِ روشن کی طرح واضح ہے وہ یہ کہ انسان نے نیچر کو کموڈیٹی میں بدلنے کا لا متناہی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں پرانے انسان کو ان کا مکمل وجدان تھا۔ میرے ذہن میں اس وقت نیٹو امیریکن چیف سیاٹل کی وہ تقریر آرہی ہے جو انہوں نے اپنی زمین امریکی حکومت کے حوالے کر تے ہو ئے کی تھی۔ فرماتے ہیں :

” ہمارے لئے زمین کو بیچ دینے کا خیال بہت عجیب ہے۔ بھلا زمین کو کیسے بیچا جاسکتا ہے۔ زمین، روشنی، ہوا، چرند پرند اور انسان سب نامیاتی تانے بانے کا حصہ ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ زمین انسان کی ملکیت نہیں بلکہ انسان زمین کی ملکیت ہے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ تمام چیزوں کا تعلق ایک دوسرے سے ایسے ہی ہے جیسے ایک خاندان کا خون کا رشتہ۔ تمام چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہو ئی ہیں۔ “

{Hughes, J. Donald, American Indian Ecology, Texas Western Press, 1983}

زندگی کو دیکھنے کا یہ زاویہ مادے کا روحانی نظریہ ہے۔ ماڈرن انسان نے عقلِ سلیم کا استعمال اس نامیاتی کل کے توازن کو برقرار رکھنے کی بجائے اس کے بخیے ادھیڑنے تک محدود کر رکھا ہے۔ اس محدود وژن نے جو مسائِل پیدا کیے ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ ماحو لیات کا ہے جس کی وجہ سے زمین پر زندگی کا وجود نہا یت خطرے میں ہے۔

گفتگو کے آغاز میں ہی یہ بات اس لئے ضروری ہو گئی کہ نزہت کی شاعری میں ماحولیات اور زمین سے انسان کے روحانی رشتے کی بات ایک اہم موضوع ہے۔ ان کی یہ آواز ظلم کے خلاف اٹھی ہے۔ وہ ظلم جو انسان نہ صرف انسان پر کر رہا ہے بلکہ دولت اور طاقت کے لالچ میں اس نے کرہَ ارض اور اس کے وسائل کو بھی روند کر رکھ دیا ہے۔ انسان اس نامیاتی کُل میں رخنہ اندازی کر رہا ہے جس پر اس کی اپنی ہستی کا دارومدار ہے۔ مجھے اس وقت پرانی کہاوت کا وہ نادان لکڑ ہارا یاد آ رہا ہے جو اسی شاخ کو کاٹ رہا تھا جس پر وہ خود بیٹھا ہوا تھا۔

کرہ ِ ارض کی بندر بانٹ، رنگ، نسل، مذہب اور وطنیت میں بٹا ہوا انسان اور ماحولیات کی تباہی کا دکھ نزہت کی نظموں میں جگہ جگہ روپ بدل کر دکھائی دیتا ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ شعر و ادب کو امنِ عالم کا شعور پیدا کر نے کا وسیلہ سمجھتی ہیں۔

وہ نسلِ انسانی کو اس کی یکتائی کا احساس دلانا چاہتی ہیں۔ ان کی نظم ”اہلِ زمیں کے نام“ جو بقول ان کے کرہ ارض کا پہلا ترانہ ہے، وہ نسلِ انسانی کو اس کی وحدت کی بھولی ہو ئی حقیقت کی یاد دہانی بھی ہے۔ یہ ایک لمبی نظم ہے یہاں صرف دو بند دیکھئے۔ اہلِ زمین کے نام:

اگر ہمارے رنگ اور ہمارے نام ایک سے نہیں تو کیا؟

اگر ہماری سرزمیں بانٹ دی گئی تو کیا؟

اگر ہمارے سر پہ آسماں کے سائِباں کی دھجیاں اڑیں تو کیا ہوا؟

سنو ہم ایک ہیں

ہم ایک ہیں ہم ایک تھے مگر نہ جانے کیسے کب ہمارے چار سو حصارِ درد کون چن گیا؟

ابھی ہمارے جسم سانس لے رہے ہیں، ان پہ تارِعنکبوتِ مرگ کون بن گیا

ہمارے دل کے آئینے پہ گرد کس نے ڈال دی؟

ضو چراغِ عقل کی کیوں دھواں دھواں ہو ئی؟

یہ سب سوال، ساری الجھنیں اور ان کے سب جواب ایک ہیں

ستم کی سب کہانیوں کے، جبر کی حکائِتوں کے سارے باب ایک ہیں

مشقتوں کے بوجھ سے دبے ہو ئے، عقوبتوں کے خو ف سے ڈرے ہو ئے

تمام خستہ تن سب خراب ایک ہیں

۔ مگر محبتوں کے، امن کے صداقتوں کے خواب ایک ہیں۔

اب جبکہ نزہت شعور کے محدود دائروں سے باہر نکل کر کھلی فضا میں سانس لے رہی ہیں تو انہیں پوری دنیا اور اس کے اندر ہر چیز ایک نامیاتی وحدت میں پروئی ہو ئی نظر آتی ہے۔ اب ان کی پہچان کے حوالے میں نہ روائیتی مذہب شامل ہے، نہ قومیت یا رنگ و نسل۔ ان کی پہچان کا حوالہ اب صرف اور صرف گلوبل انسان ہے۔

ان کی نظم شناخت کی چند لائینیں دیکھئے
یہ نسلِ آدم مرا گھرانہ، یہ کرہِ ارض گھر ہے میرا، مرا وطن کائینات ہے
کائینات کے صد ہزار جلووں میں ایک میں بھی
بنانے والے کی جنبشِ مو قلم کا ادنِی سا معجزہ ہوں
مرا حوالہ اس ایک فنکار کا حوالہ
جو سب میں ظاہر، جو سب میں پنہاں

نبود و بود ہست و نیست جس کے
بنانے والا، مٹانے والا
مرا حوالہ اس ایک فنکار کا حوالہ۔
میں اپنے خود ساختہ خداوں کو کیسے اس کا شریک کر لوں
جو سب کا مالک، جو سب کا خالق، جو سب سے اعلی۔

نزہت کی شاعری میں ماحو لیات کی تباہ کاری کے خلا ف ایک مسلسل آواز سنائی دیتی ہے۔ اس سلسے میں انہوں نے ’نیو کلیر ونٹر‘ ، ’عذاب آرہا ہے ”، اب بچنے کا وقت کہاں ہے“، ”یہ گھڑی محشر کی ہے“، ”دہر آشوب“، شعور کے سفر میں ”جیسی با کمال اور پر معنی نظمیں لکھیں۔ میں یہاں ان کی نظم“ نیو کلیر ونٹر ”کی ابتدائی سطروں کے بعد کچھ حصے پیش کر نا چاہتا ہو ں۔ نیو کلیر ونٹر:

مگر اس مقامِ عذابِ المناک پر
نطقِ گویا کو لازم ہے اظہارِ حق کے لئے
صوتِ جادو اثر لا مکاں کے الوہی ترنم سے مانگے

بیاضِ ازل سے کو ئی حرفِ کن ڈھونڈ لائے
جو ممکن ہو تو شاخِ زیتوں سے کلکِ ایمن تراشے
کہ لوحِ بقا پر زمیں کے مقدر کی تحریر پھر سے نہ اتری
تو ہم ”نائب اللہ فی الارض ’
اپنے ہا تھوں سے تعمیر کردہ جہنم میں جلتے، پگھلتے رہیں گے۔

آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ نزہت کے یہاں شاعری میں نفسِ مضمون کے ساتھ ساتھ زبان کا استعمال انتہائی نفیس اور بامعنی ہے وہ کم سے کم لفظوں میں وسیع اور عمیق مضامین کا اظہا ر کر نے پر قادر ہیں اور ان کی آزاد نظم بھی مادر پدر آزاد نہیں بلکہ اپنے اندر ردھم اور شعرئیت کو مکمل طور پر برقرا ر رکھتی ہیں۔

میں نے ابھی جس نظم کا حوالہ دیا ہے یعنی ’نیو کلیر ونٹر۔ اس نظم میں‘ بیاضِ ازل ’، ”حرفِ کن“، ‘ لوحِ محفوظ ”اور“ نائب اللہ فی الارض ”کے حوالے ہماری توجہ متھ کی طرف دلاتے ہیں جنہیں نزہت نے دورِ حاضر کے مسائل کا احساس دلانے کے لئے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ اسطورا یا متھ اور مذہب کی بات ایک علیحدہ تفصیلی گفتگو کی متقاضی ہے مگر یاد رہے نارتھرو پ فرائی کہتے ہیں کہ بڑی شاعری مذہبی حوالوں سے جا ملتی ہے۔

یوں تو اردو ادب میں نعت، منقبت اور مرثیہ مذہبی موضوعات کی شاعری ہے۔ اس شاعری نے اردو زبان کو لسانی اعتبار سے تو بہت کچھ دیا ہے لیکن اپنی ساخت اور بیان کے اعتبار سے یہ بڑے سیدھے سبھاوَ کی شاعری ہے۔ اس میں شاعر متھ کے استعمال کی بجائے مذہب اور اس کے حوالے سے ہو نے والے واقعات کا بیان کرتا ہے۔ لیکن نزہت نے نیو کلیر ونٹر میں تخیلِ پرواز کے لئے متھ کا استعمال کر کے زمان و مکان جس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ بات ذرا مختلف ہے۔ اس کے لئے کوئی مناسب لفظ اردو میں تو مجھے معلوم نہیں لیکن انگریزی میں اسے Discursive کہتے ہیں جو لٹریچر کی اہم اور بنیادی خصوصیت ہے۔

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہمارے بہت سے دوست متھ کو غیر حقیقی سمجھ غیر اہم گردانتے ہیں حالانکہ اس کا تعلق انسان کے لاشعور میں بسنے والی حسیات سے ہے اور انگریزی رومانوی شاعری میں اس کو روحانی سچائی تک پہنچنے کا ایک بنیادی وسیلہ قرار دیا گیا ہے۔ اور مجھے تو یہ کہنے میں کو ئی عار نہیں کہ متھ زندگی کے غیر معمولی حقائق کو گرفت کرنے کی ایک عقلی کوشش ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2