دلوں کا فاتح ۔ شیر شاہ سید


(ڈاکٹر شیر شاہ سید کی سالگرہ ( 26 مارچ) کے موقع پر لکھی ایک تحریر)

شیر شاہ سے میری دوستی کی مسافت طویل ہے۔ جس کو برسوں میں شمار کیا جائے تو عدد لگ بھگ اتنا کہ جہاں بالعموم عورتیں اپنی عمر بتانے سے گریز کرنے لگتی ہیں۔ یعنی ساڑھے تین دھائی سے بھی کچھ اوپر۔ عمر بڑھ جائے تو ظاہری رنگ و روپ کچھ گہنا سا جاتا ہے لیکن پرخلوص دوستی اپنے جوبن پہ ہوتی ہے۔ اعتماد کا بیج تناور درخت بن جاتا ہے۔ جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں آپ کو اپنی کہی بات کی صفائی میں تاویلات کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ چندجملوں میں بات سمجھ لی جاتی ہے۔

شیر شاہ سے میری ابتدائی ملاقاتیں اس وقت ہوئیں کہ جب میں جامعہ کراچی میں بی ایس سی آنرز کی طالبہ تھی اور وہ ڈاؤ میڈیکل کالج کے آخری سالوں کے طالب علم۔ بائیں بازو کی طلبا جماعت این ایس ایف کے حوالے سے ہمارا تعلق نظریاتی سطح پہ تھا۔ اس زمانے میں این ایس ایف میں اندرونی خلفشار اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جامعہ میں اس پارٹی کا یونٹ کمزور تھا مگر ڈاؤ میڈیکل کالج میں الیکشن کے زمانے میں جلسوں کی گہما گہمی میں این ایس ایف کی کامیابی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔

وہاں انقلابی نعرے لگانے والوں میں سانولی رنگت، خشخشی داڑھی اور موٹے شیشوں کی عینک لگائے ایک جوشیلے نوجوان نمایاں تھے۔ نام شیر شاہ تھا مگر ان کے ساتھی انہیں ان پیار سے ڈیڈی پکارتے تھے۔ گویا رہنمائی اور مسیحائی ان کی سرشت میں شامل رہی ہے۔ پتہ چلا کہ لکھنے کا بھی شغف رکھتے ہیں۔ ادبی رسالوں میں کچھ افسانے چھپ چکے تھے اور ایک ناولٹ ”اور چمنیاں جل اٹھیں“ اپنی ”خام حالت“ یعنی سائیکلو اسٹائیل کی شکل میں طلبا میں گردش کر چکا ہے۔

اس زمانے میں شیر شاہ سے رسمی گفتگو ہی رہی۔ اسٹڈی سرکل، پارٹی کے انتظامی امور اور میٹنگز کے ایجنڈے کے حوالے سے اور بس۔ پھر وہ میڈیکل کی اعلی تعلیم کے لئے انگلینڈ سدھارے اور میں نے تعلیم، ملازمت، شادی اور بچوں کے بعد اپنے متحرک سیاسی ماضی کو غیر دانستہ طور پر بھُلا سا دیا۔ نوے کی دھائی میں شادی کے سات آٹھ سال بعد امریکہ نقل مکانی کی۔ جس کی اہم وجہ شوہر کی اوپن ہارٹ سرجری تو تھی ہی مگر گرین کارڈ کا حصول بھی تھا۔ یہ موقع غنیمت تصور کیا گیا کہ قانونی شہری کے طور پر رہتے ہوئے اوپن ہارٹ سرجری امریکہ ہی میں ہو جس کی کامیابی کے امکانات وہاں بہتر تھے اور ایسا ہی ہوا۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ ایک دن مجھے شیر شاہ کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”دل کی وہی تنہائی“ موصول ہوا۔ جسے شیر شاہ نے اپنے سفاک قلم سے خونِ دل میں ڈبو کر لکھا اور کیا خوب لکھا۔ سماجی نا انصافی، طبقاتی تفریق، انسانی حقوق کی مسماری کی سچی کہانیاں جو دلوں پہ وہ نشتر لگاتی ہیں کہ درد سے بلبلا کر لامحالہ آپ کو ان کے احتجاج میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ مجھے لگا کہ انقلاب کا سودا ان کے دل میں اسی طرح سمایا ہوا ہے جو زمانہِ طالب علمی میں تھا۔

ان کی کہانیوں نے میرے دل میں بھی دبی انقلاب کی چنگاری کو بھڑکا دیا۔ شیر شاہ کا مطالعہ دنیا میں برپا ہونے والے انقلابوں کے حوالے سے گہرا ہے۔ مگر انہوں نے زمینی حقائق سے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔ وہ اپنی دھرتی سے جڑے بصیر دانشور ہیں اور ان کا ناتا یہاں کے مسائل سے جھونجھتے افراد سے اٹوٹ ہے۔ جن کے درد کو انہوں نے اپنی تحریروں میں سمو دیا ہے۔

ایک دن میں نے پوچھا ”شیر شاہ اتنی مُحرَّمی (دکھی اور رلانے والی ) کہانیاں ہی کیوں لکھتے ہیں؟ “

” یہی دیکھتا ہوں اور جو دیکھتا ہوں لکھ دیتا ہوں۔ “ انہوں نے بے ساختہ کہا۔ ”دوسروں کو رلاتے ہیں۔ کیا کبھی خود روئے ہیں۔ “ انہوں نے سادگی سے اقرار کیا۔ ”ہاں اکثر ان کہانیوں کو لکھتے ہوئے رو پڑتا ہوں۔ “ اپنے ایک انٹرویو میں ان سے میں نے سوال کیا کہ ناقدینِ ادب کا اعتراض ہے کہ آپ کے افسانے ادب نہیں۔ آپ کا کیا کہنا ہے؟ ”انہوں نے برجستہ کہا۔ “ میں نے کبھی افسانہ نگار ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ یہ تو سیدھے سادھے انداز میں لکھی تلخ کہانیاں ہیں جن کی بنیاد حقیقت پہ ہے۔ وہی لکھ دیتا ہوں۔ پھر میرے پاس فرصت نہیں ہوتی انہیں سنوارنے کی۔ ”

ریل اور بس کے سفر میں تو کبھی ٹشو پیپر پہ ہی کیچ (catch) کر لیتے ہیں۔ خود مختلف موضوعات پہ بے شمار کتابیں لکھ چکے ہیں۔ مگر علم کی ترسیل کی پیاس نہیں مٹتی لہذا دوسروں کی بھی لکھنے میں حوصلہ افزائی ہی نہیں تعاون بھی کرتے ہیں۔ انتہائی مصروفیت کے باوجود طرہ تو دیکھیے کہ پبلک پلیٹ فارم مثلاً فیس بک اور ہم سب جیسے آن لائن میگزین میں بھی قارئین کو اپنا ذاتی سیل فون نمبر دینے سے نہیں چوکتے۔ خود تو عدیم الفرصتی کے باعث کمپیوٹر پہ جانے کا وقت نہیں ملتا۔ میں اطلاع دیتی ہوں شیر شاہ کوئی نمبر مانگ رہا ہے۔ کہتے ہیں بھئی دے دیں۔ ہم کون سے طرم خان ہیں کہ نمبر چھپائیں۔ لوگوں کو ضرورت ہو گی جبھی تو مانگتے ہیں۔ ”ہمارے آپ کے گھر کی بیمار، مفلوک الحال ماسی ہو یا صدرِ پاکستان ان کا فون تفریق سے عاری ہے اور کھلا رہتا ہے۔

ان کی قیامت خیز مصروفیات کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ایک مشینی قسم کے آدمی کے تصور کا امکان غالب ہے۔ جو الہ دین کے چراغ کی طرح انسانی خدمات بجا لاتا ہے لیکن یہ بالکل درست نہیں۔ دراصل ان کے پاس کچھ فاضل لمحات بھی ہوتے ہیں۔ جو انہیں ذہنی اور جسمانی تر وتازگی دیتے ہیں۔ جس میں علی الصبح اٹھ کر بلا ناغہ میلوں دوڑنا، دوستوں کی محفل میں بیتھ کر لطیفہ گوئی، موسیقی کی محفل میں شرکت ہی نہیں بلکہ اکثر گانے سنا بھی دینا، خاص کر اپنے پسندیدہ گلوکار ایس ڈی برمن کا گانا

سن میرے باندھو رے سن میرے متوا۔

سیاست، اچھی کتابیں اور اچھی فلموں شوق ہے۔ غرض وہ زندگی کے ہر لمحہ سے کچھ نہ کچھ عرق کشید کرنے کے قائل ہیں۔

اکثر افراد کو اپنی خود ساختہ درویشی کا دعویٰ رہتا ہے لیکن کسی قسم کے دعویٰ کے بغیر شیر شاہ میں ایک درویش ایک مست قلندر بستا ہے۔ بناوٹ، دھوکے بازی سے پاک، ان کا دل شیشے کی مانند روشن اور تاریکی سے عاری، سادگی، انسان دوستی، علمیت، دور اندیشی، دوسروں کی غلطیاں درگزر کرنے اور بغیر غلطی کے بھی بڑھ کر معافی مانگنے کی عادت ان کے دوستوں ہی نہیں دشمنوں کے دل بھی فتح کر لیتی ہے۔

انکا شمار ملکی ہی نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی کامیاب ترین معالجوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں میں نمایاں اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ (تفصیل کے لیے مسٹر گوگل سے رجوع کریں۔) کہا جاتا ہے کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لیکن شیر شاہ کے پیچھے تو ہزاروں مظلوم اور سماج کی ٹھکرائی ہوئی عورتوں کا طویل قافلہ ہے۔ یہ وہ عاشقان ہیں کہ جنہیں شیر شاہ کی مسیحائی نے صحت یابی ہی نہیں بلکہ عزت وقار سے سر اٹھا کر جینا سکھایا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے لئے ہر محاذ پہ جتنی شیر شاہ نے جنگیں لڑیں شاید ہی کسی عورت نے لڑی ہوں گی۔

Dr Sher Shah – First from the left

میں انہیں مستقل کامیابیوں پہ گامزن دیکھتے ہوئے اکثر مذاقا کہتی ہوں کہ ”شیر شاہ اتنے عظیم والدین کی اولاد ہو کر بڑے کام نہ کرتے تو پھر کمال ہوتا“ تاہم وہ اپنی تعریفوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ ہمیشہ اپنی والدہ ڈاکٹر عطیہ ظفر اور والد سید ابو ظفر آزاد کا ذکر انتہائی محبت و احترام سے کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ والدین کی محبت وقربانیوں کا قرض کبھی نہیں اتار سکتے۔ تاہم ہم سب جانتے ہیں کہ تحریری طور پہ ان کا خراجِ عقیدت ان کی خود نوشت ”وہ صورت گر کچھ خوابوں کا“ ہے اور عملی طور پہ ”کوہی گوٹھ فری ہسپتال“ کا قیام ہے۔ جس میں والدین کی وصیت کے مطابق منافع محض غریبوں کی فلاح پہ خرچ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید کی اہلیہ طیبہ فاطمہ اٹلانٹا میں رہتی ہیں۔ وہ بچوں کے امراض کی ماہر ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے علاوہ وہ اپنی بیٹی زاریہ شاہ کی بھی بھرپور توجہ سے پرورش کررہی ہیں۔ زاریہ ابھی اسکول کی طالبہ ہیں۔ شیر شاہ سیداپنے خاندان کے ساتھ خاصا وقت گزارتے ہیں اور اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور مشاغل میں سے وقت نکالتے ہیں (واضح ہو کہ اب شیر شاہ نے بطور استاد ریٹائرمنٹ لے لی ہے اور پاکستان سے امریکہ سکونت اختیار کر لی ہے)۔

شیر شاہ نے انتھک خدمتِ خلق کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 1979 میں اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کی۔ وہ ایک بہت سادہ مزاج، اسٹرس سے عاری، سبزی شوق سے کھانے والے (جو محض زندہ رہنے کے لئے کھاتے ہیں۔)، پرانے ماڈل کی گاڑی چلانے والے اور قدیم قسم کے موبائل فون استعمال کرنے والے، روزانہ صبح سویرے بطور ورزش دوڑنے والے، تصنع سے پاک انسان ہیں۔

شیر شاہ کے تازہ ترین افسانوی مجموعہ ”تو دل بنا دیا“ میں درج شعر کیا خوب ان پر جچتا ہے کہ

بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی

جو کچھ نہ بن سکا تو میرا دل بنا دیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).