پروفیسر صاحب، آپ کا جینا عبادت اور مرنا شہادت ٹھہرا


استاد معاشرے کی نوک پلک سنوارتا ہے۔ خیالات اور نظریات کو تہہ در تہہ کھول کر سمجھاتا ہے۔ اپنے اور طالب علم کے درمیان علمی فرق ختم کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ نظریاتی اور نفسیاتی پیچدگیوں کا خاتمہ کر کے معاشرے کے لئے درست سمت کا تعین کرتا ہے۔ الجھنوں کو سلجھاتا ہے۔ آسانیاں فراہم کرتا ہے۔ ہر وقت طلبہ کے لئے محبت، شفقت اور قربانی کے جذبے سے سرشار استاد نے کبھی گمان بھی نہ کیا ہو گا کہ وہ ایک دن اپنے ہی شاگرد کے ہاتھوں قتل ہو جاے گا۔

ہاں جی، قتل، کیوں کہ جس الزام میں وہ مارا گیا ہے، ابھی اسے شہید کہتے ہوے ہچکچا رہا ہے۔ یہ فیصلہ تو اس بد بخت نے کر دیا کہ استاد کا قتل جائز ہے۔ اسے خون میں نہلا دینا چاہیے۔ اسے صفائی کا موقع بھی نہ دیا جاے۔ اس کے احسانات بھلا کر بس اب اس کی گردن پہ خنجر چلا دینا چاہیے۔ اس کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہیے۔ اور اس نے ایسا کر دیا۔

اب ایک فیصلہ معاشرہ کر رہا ہے۔ قتل کی واردات، قاتل اور مقتول واضح ہیں۔ لیکن یہ تو مدعا ہی نہیں۔ مدعا تو یہ ہے کہ پروفیسر صاحب گستاخ تھے یا نہیں۔ اگر قاتل کہ رہا ہے کہ ”مذہب کے خلاف بھونکتے تھے“ تو ہو سکتا ہے ایسا کرتے ہو۔ اب اور گواہی کی ضرورت نہیں ہے۔ اور چہرے پہ داڑھی بھی نہ تھی، پڑھاتے بھی انگریزی تھے۔ تو یہ تو مقتول کے خنجر پہ خود گرنے کے مصداق ہوا نا!

ایک قتل قاتل نے کیا ہے، اب روح اور کردار کا قتل یہ منافق معاشرہ کرے گا۔

ان کے ایمان پہ سوال اٹھائے جائیں گے۔ کردار کے بارے میں پوچھا جاے گا۔ اعمال کی تفصیل جمع کی جاے گی۔ ان کے مضمون اور عقیدہ کا وزن پرکھا جاے گا۔ انگریزی ادب میں ملحدانہ اسباق ڈھونڈے جائیں گے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاے گی کہ پروفیسر گستاخ تھا اور یہ بیس سال کا لونڈا، جس نے شاید مذہب کی الہامی کتاب بھی ٹھیک سے نہ پڑھ رکھی ہوں، استاد کے ایمان کا تعین کرنے میں حق بجانب تھا۔ اور استاد اس قدر شدید گستاخ تھا کہ قاتل کو ریاست یا مفتی سے فتویٰ کی بھی ضرورت نہ تھی۔ استاد قانونی کارروائی کا حق بھی کھو چکا تھا۔ اسے مار دینا چاہیے تھا۔ اسے مار دیا گیا۔

لیکن۔ لیکن، لیکن ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دینے والا رب یہ سب دیکھ رہا ہے۔ وہ رب جو میرے، آپ اور مقتول استاد کے ایمان کا تعین کرنے کی فائنل اتھارٹی ہے۔ استاد محترم کا کیس اب اس کے دربار میں ہے۔

اب بھی وقت ہے۔ معزز استاد کی روح میرے اور آپ کے ضمیر کے ویرانوں میں بھٹک رہی ہے۔ ہم سے پوچھ رہی ہے کہ کیا آپ کے ضمیر کی عدالت نے مجھے بغیر کارروائی کے گستاخ سمجھ لیا ہے۔ کیا ریاست، جس کے نمائندہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم نے میرے قتل کی مذمت تک نہ کی، مجھے چپ چاپ گستاخ مان لیا ہے؟ کیا صرف یہ ہی طے ہو گا کہ میں مقتول ہوں اور میرا ایمان مشکوک رہے گا؟ کیا ایسے ہر جنونی اور دلیل سے عاری قاتل کا ہمیشہ دفاع کیا جاتا رہے گا؟ کیا جسنڈا آرڈرن کی تعریفیں کرنے والی حکومت میرے لواحقین کو گلے نہیں لگاے گی؟ کیا یہ سب ایسے ہی چلتا رہے گا؟

میں خود ایک استاد ہوں۔ اندر کا خوف پکار پکار کے کہہ رہا ہے، بس کر دیجیے۔ خدارا اب بس کر دیجیے۔ میں اس کے قتل کو نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ چپ رہا تو میرے ساتھ بھی یہی ہو گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).