دیواریں


جب انسان کو دن میں تارے نظر نہیں آتے تو وہ عموما کمرے کی دیواروں کی اینٹیں گننے لگا جاتا ہے۔ بظاہر تو یہ دیواریں ایک سی لگتی ہیں ایک ہی مواد سے بنتی ہیں لیکن ان میں سے کسی کی اونچائی زیادہ ہوتی ہے تو کسی چوڑائی یا لمبائی زیادہ ہوتی ہے۔

بادی النظر میں تو اس کا کام پیش قدمی کو روکنا ہے لیکن بعض اوقات تو یہ ہوا کو بھی روک دیتی ہے جس سے انسان کا جینا محال ہو جاتا ہے۔ فلسفہ دیوار کیا ہے یہ پوری طرح عیاں نہیں اس کا وجود اگر پیش قدمی کو روکتا اور سانس لینا دوبھر کرتا ہے تو دوسری طرف یہ چھاوں بھی دیتی ہے اور بارش سے بچاؤ کے علاوہ احساس تحفظ بھی دلاتی ہے۔ اس کے فلسفے کی طرح تاریخ اس پر بھی کچھ کہنے سے گریزاں ہے کہ یہ کب وجود میں آئی اور کیونکر اس کی ضرورت پڑی۔

اس کے لیے ہم تاریخ انسان پر نظر ڈالنے سے پہلے انسان و حیوانات پر نظر ڈالے تو کچھ یوں لگتا ہے حیوانی و انسانی ڈھانچہ ہی وہ پہلی دیوار ہے جس میں روح کو مقید کرنا تھا۔ لہذا پہلے دن سے روح اس قید پر نالاں و بے چین ہے۔ دوسرے انسانوں کی طرح اسے بھی آزادی چاھیے۔ اسی لیے شاید روح اس ضدی بچے کی طرح ہے جو صرف اس چیز کے لیے روتا ہے جو اسے نہیں مل رہی یا وہ جس چیز کے لیے رو رہا ہے اس کے ملنے پر بھی مسکراتا نہیں شاید اس لیے کہ وہ جس چیز کو متلاشی ہے وہ کہہ نہیں پا رہا۔

جب ایک روح اس زندان سے آزادی حاصل کرتی ہے تو شاید باقی اجسام میں قید روحیں روتی ہیں کہ ہمیں بھی ساتھ لے چل جیسے ایک بچہ باپ کے باہر جانے پر روتا ہے کہ میں نے بھی جانا ہے۔ اس عمل کو ہم حرف عام میں نوحہ و کناں کہتے ہیں۔

قید ایک وہ ظالمانہ ستم ہے جس کا بیان الفاظ میں کرنا ممکن نہیں لیکن یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے ہر قید خانے کی دیواریں نظر نہیں آتی۔ ہم روز مرہ زندگی میں مشاھدہ کرتے ہیں کہ بظاہر آزاد نظر آنے والے اشخاص عجیب کرب میں مبتلا ہیں۔ آزادی آدمی تو بڑی مطمن زندگی گذارتا ہے تو پھر یہ لوگ کس اضطراب کا شکار ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی چشم بصارت ان کے گرد کھڑی خواھشات و ہوس کی دیواریں، رسوم رواج کی دیواریں، عزت و ناموس کی دیواریں، انا اور شان شوکت کی دیواریں، عہدوں اور القابات کی دیواریں اور ایسے لامتناہی خود ساختہ دیواروں کا سلسلہ انھیں ان کے اپنوں سے نہیں ملنے دیتا، روح سے روح کا سنجوک نہیں ہونے دیتا جس سے ایک نقلی زندگی اصل زندگی سے نہیں مل پاتی اور یوں یہ روح تڑپتی تڑپتی ایک دن اس قید کے پنجرے کو زیر کر کے آزاد ہو جاتی ہے۔

ہم یاجوج ماجوج قوم کی دیوار توڑنے کے قصے تو پڑھتے ہیں اور انتظار میں ہیں کہ کب وہ ذوالقرنین کی بنائی دیوار توڑے گے مگر اپنے گرد بنائی خود ساختہ دیوار توڑنے کا نہ سوچتے ہیں نہ کوشش کرتے ہیں اور ان کے اندر رہنے والے ہر قیدی کو یہ قید دیمک کی طرح کھاے جا رہی ہے۔

اویس نواز رانا
Latest posts by اویس نواز رانا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).