علاقہ کواردو کے تعلیمی مسائل


ماضی میں علم و ادب کا مرکز اور سرزمین علماء کے نام سے منسوب علاقہ کواردو (گلگت بلتستان) میں اس وقت تعلیمی سہولیات کی فقداں کے باعث طلباء ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں۔ اگرچہ ہر گلی کوچے میں تعلیم کے نام پہ بہت سارے پرائیوٹ سکولز بھی چل رہے ہیں مگر کسی کی تعلیمی پیاس کیوں نہیں بجھتی یہ ایک الگ بحث ہے۔ میں اس طرف جانا نہیں چاہتا بلکہ یہاں فقد چند اہم باتوں کا ذکر کرنا ہے۔ اگرجزیات میں جاؤں تو نا ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہوگا۔

کچھ دنوں پہلے کواردو ہائی اسکول سمیت تقریبا تمام پرائمری سکولزکی جانب سے داخلہ مہم چلائی گئی تھی جس میں بچوں کے ہاتھوں میں مختلف پوسٹرز اور پلے کارڈ تھے۔ جن پر ”تعلیم سب کے لیے“ اور ”کوئی علم کے زیور سے محروم نہ رہے“ اس طرح کے دیگر جملے درج تھے، جسے دیکھ کر دل بہت خوش اور مطمئن تھا۔ لیکن دو دنوں سے مختلف نمبروں سے کال اور مسیجز کے ذریعے مسلسل شکایتیں موصول ہورہی تھی کہ کواردو میں پانچویں جماعت کے طلباء کو داخلہ کے لیے پریشانی کا سامنا ہے۔

پرائمری اسکولز سے انہیں فارغ کیا گیا ہے لیکن ہائی اسکول میں انہیں قبول نہیں کیا جا رہا۔ ایک سمینار کے باعث مصروفیات کی بنا پر فوری اس طرف توجہ نہ دے سکا۔ لیکن آج ذرا فرصت ملی تو اس حوالے سے معلومات کی خاطر چند پرائمری ٹیچرز اور ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب سے بات کی تو معلوم ہوا کہ بات تو درست ہے۔ البتہ ہر کوئی اپنی جگہ وجوہات اور جواز پیش کرنے لگے۔ پرائمری اسکول ٹیچرز کا موقف ہے کہ ہمارے پاس کلاس رومز و ٹیچرز کی کمی ہے اور طلباء بھی زیادہ ہونے کے باعث ہم ان بچوں کو یہاں نہیں پڑھا سکتے۔

جبکہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر سے بات کی تو وہ اپنی مجبوریاں بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ پہلے تو کوئی بھی بچہ ابھی تک داخلہ کے لیے ہی نہیں آیا۔ دوسری بات ہائی اسکول میں بھی اس وقت ٹیچرز کی کمی ہونے کے ساتھ سائنس و آرٹس دونوں کلاسوں کے باعث کافی مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث پانچویں کلاس کو ختم کیا جا رہا ہے۔ یوں تو ہر کسی کی مجبوری اپنی جگہ درست ہو لیکن میرے ذہن میں چند سوالات نے جنم لیا ان کا شاید کسی کے پاس جواب نہ ہو کہ ان سب میں ان بچوں کا کیا قصور ہے؟

جنہیں نہ ہائی اسکول میں جگہ مل رہی ہے نہ پرائمری اسکول میں جبکہ پرائیوٹ اسکولوں میں شرح فیس زیادہ ہونے کی باعث غریب والدین کی استطاعت نہیں۔ کیا یہ بچے اب پڑھائی چھوڑ دیں؟ کیا انہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں؟ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اب ان بچوں کو اسی حالت میں چھوڑ کے رکھنا ہے؟ اگر نہیں تو ان کو انصاف کون دلائے گا؟ یوں تو علاقے کے ہیڈ ماسٹر کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ علاقے میں طلباء اور اساتذہ کی پریشانیوں کا جائزہ لیں، کیونکہ ہائی سکول سمیت تمام پرائمری سکولز یہاں تک کہ پرائیویٹ اسکولز بھی ان کے ماتحت چلنے کے پابند ہوتا ہے۔

لیکن ہمارے پسماندہ علاقہ کی حالت یہ ہے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب خود اپنے اسکول میں ٹیچرکی کمی اور دیگر سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث پریشان ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ انہی پرائمری سکولوں میں جب میں پڑھتا تھا اس وقت بھی بغیر کرسیوں اور بغیر چھت کے بوسیدہ عمارتوں میں یہی اساتذہ کھلے میدانوں میں ٹاٹ بچھا کرتعلیم دیا کرتے تھے اور بچے خوشی خوشی شوق سے پڑھ لیا کرتے تھے۔ مگرآج ہمارے خیالات بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔

اب ہم کھلے میدانوں میں تعلیم حاصل کرنا شاید اپنی یا اپنی اولاد کی توہین سمجھتے ہیں۔ لیکن ہمارا صرف خیال ہی بدلا ہے حالت نہیں۔ جب تک حال نہ بدلے خیالوں کے بدلنے سے کوئی ترقی نہیں کرسکتا، اور نہ ہی یوں ہاتھوں پہ ہاتھ دھرے ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا ہے۔ بلکہ اس کے لیے ہمیں جدوجہد کرنی ہوگی، ہر کسی کو اپنے حصے کا شمع روش کرنا ہوگا۔ مجبوریاں تو ہرکسی کے ساتھ ہے لیکن ان کے حل کے لیے کوئی تیار نہیں۔

کواردو میں ابھی تک اکثر پرائمری اسکولز منظور نہیں ہوا ہے جس کے باعث یہ ساری مشکلات کا سامنا ہے۔ دوسری بات ہائی اسکول میں بھی ضرورت کے مطابق ٹیچرز اور دیگر سہولیات کا میسر نہ ہونا باعث بن رہا ہے کہ ہمارے مستقبل کے نوجوان مایوسی کا شکار ہے۔ 17 جولائی 2018 کو تمام ہیڈ آف ڈپارنمنٹ کی موجودگی میں اسی ہائی اسکول میں منعقدہ کھلی کچہری کے دوران ان تمام باتوں کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ہائی اسکول میں ٹیچرز کی کمی کو پورا کیا جائے گا، پرائمری اسکولز کو اپروڈ کیا جائے جائے گا، یونین کونسل کواردو قمراہ کے ڈی ڈی او شب کو کواردو میں منتقل کیا جائے گا۔

مگر وہ باتیں ہوا میں اڑ گئی یا زمین نگل گئی خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ کھلی کچہری کے بعد نہ کسی نے اس طرف توجہ دلائی نہ کسی نے زحمت کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان وعدوں کا کیا ہوا؟ یہی وجہ ہے کہ سکردو شہر سے قریب ترین ہونے کے باؤجود ہمیں ہر طرح سے خصوصی طور پر محروم رکھا گیا ہے۔ تعلیمی میدان میں بھی کوئی پوچھنے والا نہیں صحت کے معاملے میں بھی ہماری زبانیں بند، جبکہ بجلی، پانی اور روڈ کے معاملے پر بھی ہم نے آنکھیں اور کان مکمل بند کرکے اس بات پہ خوش ہے کہ نمائندہ ہمارا اپنا ہے۔

اوریہ عہد کیا ہوا ہے نہ ہم نے خود کچھ بولنا ہے نہ کسی اور کو کچھ بولنے کا موقع دینا ہے۔ بس پھر یوں ایک دوسرے کی شکوہ شکایتوں سے دل ہلکا کرنا ہے تو یہ الگ بات ہے۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک چلے گا آخر اس کا نتیجہ کیا ہوگا شاید کسی نے نہیں سوچا۔ پورے کواردو میں غریب عوام کا واحد سہارا اور سرمایہ یہی ہائی اسکول ہے کم از کم اس کا تو ہم سب کو خیال ہونا چاہیے۔ ہائی سکول کے مسائل ہم سب کے مسائل ہیں۔ ہمارے مستقبل اسی سے وابستہ ہے۔

یہ ادارہ نہ کسی فرد واحد کی ہے اور نہ ہی یہاں کے مسائل کا کوئی خاص شخص اور گروہ ذمہ دار ہے بلکہ ہم سب ذمہ دار ہیں ہمیں مشترکہ طور پر اس کی بہتری کا سوچنا ہو گا۔ اور یہاں موجود مشکلات و مسائل کی حل کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ سہولیات کی فقدان کے باعث کواردو کے تمام تعلیمی ادارے اس وقت ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے مگر ہم اس کا ذمہ دار کسی خاص گروہ یا شخصیت کو قرار دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ہیں جبکہ علاقے کی تعمیر و ترقی اور بچوں کی کامیابی اس بات پہ منحصر ہے کہ تعلیمی ادارے مضبوط رہیں۔

لہذا علاقے کے درد مند افراد، باشعور اور پڑھے لکھے نو جوانوں، سرکردگان، علماء اور خصوصا ٹیچر حضرات سے گزارش ہے کہ فورا ایک کمیٹی تشکیل دے کر اس مسئلے کی طرف توجہ دیں اور ایک وفد کی صورت میں متعلقہ محکمہ کے ذمہ داروں سے مل کر تعلیمی میدان میں موجود تمام مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ہی متعلقہ محکمہ اور ذمہ داران سے اپیل ہے کہ فوری اس معاملے پر نوٹس لے کر پریشان حال ٹیچرز، والدین اور بچوں کی پریشانی دور کریں تاکہ ہمارے آنے والے نسلوں کا مستقبل تاریک نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).