23 مارچ: حقائق سے انحراف کیوں؟


آج 23 مارچ یعنی یوم پاکستان ہے، ٹھیک نواسی برس پہلے 1940 میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے اپنے لیے علیحدہ ریاست کے قیام کا باضابطہ مطالبہ کیا تھا، یہ مطالبہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقد کردہ منٹو پارک لاہورمیں قرارداد لاہور منظور کرکے گیا تھا، مسلم لیگ کا یہ تاریخی اجلاس قائداعظم محمد علی جناح کے زیر صدارت 22 سے 24 مارچ تک جاری رہا، اجلاس کے دوسرے روز یعنی 23 مارچ کو شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قرارداد لاہور پیش کی تھی جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔

قرارداد لاہور جو کہ تقسیم ہند کے بعد قرارداد پاکستان قرار پائی اس وقت مسلمانان ہند کی اکثریت کے دل کی آواز قرار پائی اور یوں صدر آل انڈیا مسلم لیگ قائداعظم محمد علی جناح کو انگریز سرکار کے آگے قیام پاکستان کا کیس مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کرنے میں مزید آسانی پیدا ہوگئی۔ بہرحال ہم تیئیس مارچ کی تاریخی قرارداد میں شامل ان حقائق پر بات کریں گے جنہیں قیام پاکستان کے بعد یکسر نظرانداز کردیا گیا اور جس کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ پاکستان ایک مضبوط اسلامی فلاحی ریاست بننے کے بجائے اشرافیہ کی آماجگاہ بنتا چلا گیا اور پھر یوں ہوا کہ جس بنگال سے قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی وہ بنگال ”باغی اور غدار“ ٹھہرا گیا اور 24 برس کا قلیل عرصہ ساتھ رہنے کے بعد مشرقی پاکستان سے بنگلادیش بن گیا۔

میری ادنی رائے کے مطابق بنگلادیش 23 مارچ کی قرارداد سے انحراف کے باعث وجود میں آیا، کیوں کہ اس قرارداد میں لکھے تمام تر نکات پر اگر آج بھی نظر ڈالی جائے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں، اگر کسی کو میری اس بات سے اختلاف ہو تو وہ آج بھی زحمت فرما کر لاہور جا کر مینار پاکستان پر تحریر شدہ اس تاریخی قرارداد کے تمام نکات پڑھ آئے اور ذرا غور سے سوچے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں جس کو بنیاد بنا کر پاکستان میں شامل تمام ریاستوں بشمول بنگال، سندھ، پنجاب، سرحد (کے پی کے ) اور قلات (بلوچستان) کے عوام سے کیے گئے واعدے وفا نہ ہوئے۔

جب قرارداد لاہور میں واضح الفاظ میں صوبائی خودمختاری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا تو پھر کیوں اس وعدے پر عمل کرنے سے گریز کیا گیا؟ جب قرارداد پاکستان میں اس بات پر بنگالیوں، پنجابیوں، سندھیوں، پختونوں، بلوچوں اور سرائیکیوں نے اتفاق کر لیا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد کنفیڈرل نظام رائج کیا جائے گا جس کے تحت مرکز کے پاس صرف تین محکمے دفاع، کرنسی اور خارجہ پالیسی کا اختیار ہوگا جبکہ دیگر کام خودمختار ریاستیں یا صوبے اپنے بل بوتے پر سرانجام دیں گے پھر ایسا کیا ہوا کہ پاکستان بننے کے بعد صوبوں کو خودمختاری دینا تو دور کی بات بہت سے اہم قومی معاملات پر مشورہ تک لینا بھی گوارا نہ کیا گیا؟

میں سمجھتا ہوں کہ قرارداد لاہور میں شامل نکات ایک بہترین، مضبوط ترین اور کامیاب ترین پاکستان بنانے کی بنیاد کے لیے کافی تھے پر بدقسمتی سے ان تمام نکات پر عملدرآمد کے لیے کبھی بھی کسی حکمران نے سنجیدگی سے نہیں سوچا اور یوں یہ ملک یہ ریاست دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ملک دو لخت ہوگیا اور باقی ماندہ پاکستان میں بھی کئی بار علیحدگی کی تحاریک جنم لیتی رہی ہیں۔ یہ تمام تر حقائق ہماری تاریخ کا حصہ ہیں جن سے آنکھیں چراکر بھی کبھی جھٹلایا نہیں جا سکتا لہذا اب بھی وقت ہے، ماضی کی تمام ناعاقبت اندیشیوں کا ازالہ کرنے کے لیے اقدام کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان میں شامل تمام صوبوں کو ان کے جائز، آئینی و قانونی حقوق فراہم کرکے مملکت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے، جس کے لے سب سے پہلے تمام قومیتوں کے ناراض لیڈرز کے ساتھ مذاکرات کا عمل شروع کرنا ہوگا اور چاروں صوبوں کے عوام کی مرضی و خواہش کا سمجھنا ہوگا کہ عوام اپنی تہذیب و تمدن ثقافت و زبان کی ترقی و ترویج کے لیے کیا چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہاں سندھی زبان کی مثال لے لیں تو 1857 ء میں انگریز سرکار نے سندھی زبان کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا تھا، کراچی سے لے کر کشمور تک کئی سندھی میڈیم اسکول، کالجز قائم کیے گئے تھے اور یہاں تک جو بھی انگریز افسر سندھ کے کسی بھی علاقے میں مقرر ہوتا تھا اس کے لیے بھی چھ ماہ میں سندھی زبان کا امتحان پاس کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

پھر کیا تقسیم ہند کے بعد سندھی زبان کو سندھ کے شہروں سے ہی نکال باہر کردیا گیا اور کراچی، حیدرآباد، سکھر و دیگر شہروں میں تقریباً تمام تر سندھی میڈیم اسکولز کو بند کردیا گیا۔ بنگلا بھاشا کے ساتھ بھی ہم نے یہی کچھ ہوتے دیکھا تھا اور یہاں تک کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے اپنی مادری بھاشا کو قومی زبان تسلیم کروانے کے لیے 21 فروری کو جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا تھا، جس کے باعث پوری دنیا میں ہر سال مادری زبانوں کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے حکمران کیوں کر ایک مخصوص خول میں رہ کر عجیب و غریب طرز کے فیصلے کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اگر ہم سب ایک ہیں اور آج یوم پاکستان منا رہے ہیں تو پھر پاکستان میں شامل تمام لوگوں کو پاکستانی کیوں نہیں سمجھا جاتا؟ جب ہم تئیس مارچ کی قرارداد کو پاکستان بننے کی بنیاد قرار دے رہے ہیں تو اسی تاریخی قرارداد میں شامل وعدوں پر عمل کرنے سے 70 برس گزر جانے کے باوجود کترا کیوں رہے ہیں۔ بھارت سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک سے زائد زبانوں کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے تو آخر ہمارے ملک میں کیوں اب تک ان تمام قومی و عوامی مسائل کے حل سے آنکھیں چرائی جا رہی ہیں؟

خدارا! اقتدار کے ناخداؤ اب ہوش کے ناخن لو، دیکھو دنیا کتنا آگے بڑھ گئی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں، اب مخصوص دائروں میں رہ کر سوچنے کے عمل سے نکل باہر آئیں اور قرارداد پاکستان کو ایک بار پھر پڑھ لیں، بغور جائزہ لیں اور اس کے تمام تر نکات پر عملدرآمد یقینی بنائیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں پاکستان مزید مستحکم ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).