شرفا کا یہی شیوہ ہے، رینا اور روینہ کا کیا ہے


امید ہے کہ ہمیں پڑھنے والوں کی زیادہ تر تعداد شرفاء پر مشتمل ہے جو کسی بھی قسم کی غلط خبر اور فحش ادب سے دور رہتے ہیں۔ امید بھی ہے اور قوی امکان بھی۔ کم از کم جس زبان میں کسی بھی اختلاف رائے کی صورت میں فیڈ بیک ملتا ہے اس سے تو یہی لگتا ہے۔ سب ہی صبح اٹھتے ہی دودھ سے نہاتے ہیں۔ چوہے کھاتے ضرور ہیں لیکن نو سو کے ہندسے پر آتے ہی گنتی بھول جاتے ہیں اور پھر سے شروع کرتے ہیں۔ عزتوں کے رکھوالے ہیں خاص کر اپنے ایمان اور ملکیت کی۔ دوسروں کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں کہ کہیں کسی کا دھرم ایک اختلافی رائے سننے سے بھرشٹ نہ ہو جائے۔ جنت کے پاسبان ہیں۔ کلمہ حق کے علمبردار ہیں۔ سب کے ایمان اور حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹوں کے اجرا کا ٹھیکہ بھی ان ہی کے پاس ہے۔

دنیا کے حالات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنی بیش قیمت رائے دینے سے پرہیز نہیں کرتے۔ ابھی نیوزی لینڈ کے واقعے کی ہی مثال لیجیے۔ انہوں نے اس ظلم پر نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ جیسنڈا آرڈن (جن کا اسلامی نام جمیلہ عدنان رکھا گیا ہے ) کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے بھی ملائے۔ ان کے مضطرب چہرے اور سر پر کالے اسکارف کو تمام مسلم عورتوں کے لئے مشعل راہ قرار دیا۔

جب پورے ملک نے اظہار یکجہتی کے طور پر سرکاری طور ہر اذان براڈکاسٹ کی اور سروں پر اسکارف جمائے تو ان کے دل ایمان کی روشنی سے کھل اٹھے۔ یقینا دنیا میں ایک دن حق کا بول بالا ہو گا۔ ہمارے نہتے بہنوں اور بھائیوں نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر کم از کم اس کافر ملک کو تو دین سے روشناس کرا دیا۔ انسانیت کے نام پر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرنے والے سب لوگ انہیں مسلمان ہی لگے۔ اسی لئے گن بھی لئے۔ ان کا بس چلتا تو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کو پاکستانی الیکشن بھی لڑوا دیتے۔ ویسے تو یہ بھی تکلف ہی ہوتا۔ ویسے ہی جتا دیتے۔

خدا لگتی کہیں تو واقعی اس دنیا کا نظام انہی کے دم سے قائم ہے۔ ورنہ اس پاپی دنیا میں حق کے لئے کون آواز اٹھاتا؟ آپ ہی ہیں حضور۔ آپ ہی ہیں۔

ہمارے منہ میں سات چولہوں کی خاک اگر ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کر لیں کہ منٹو کا افسانہ ’کھول دو‘ ان کی نظروں سے گزرا یا نہیں جس میں اپنی گمشدہ بیٹی کو دیوانہ وار ڈھونڈنے والے باپ کا بیان ہے۔ چھی چھی۔

خیر ہم ٹھہرے گستاخ اور گناہ گار۔ لہذا اس ویڈیو پر نظر پڑ گئی جس میں سندھ میں جبری طور پر مسلمان اور نکاح کر دی جانے والی ان کمسن ہندو بچیوں کے باپ کی بے بسی اور دیوانگی پر نظر پڑ گئی۔ اس کا اضطراب اور درد دیکھ کر ایک پل کو تو یہ لگا کہ شاید بٹوارے کا زمانہ ہے۔ پرانی ویڈیو ہے جب بہت سی لڑکیوں کو لوٹا گیا اور ان کے گھر والے زندہ مر گئے۔ اپنے آپ پر مٹی ڈالنے والا یہ باپ آج کا باسی تو نہیں تھا۔ پاک سرزمین پر تو تمام اقلیتوں کو بھرپور آزادی ہے کہ جس طرح چاہیں لٹیں۔ یہ کیا پروپیگینڈا ہے؟

اب تو شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ ارے بابا، تم تو خوش قسمت ہو کہ تمہاری بیٹیاں ایمان کی روشنی سے سرفراز ہو گئیں۔ قانون تو پاکستان کے شہریوں ہر لاگو ہوتا ہے۔ تم ہندووں کی کیا مجال کہ اس ہر عمل کا مطالبہ کرو؟ تمہارا بیٹا عقل مند لگتا ہے جو ابھی سے مان گیا کہ ہم پاکستان کے شہری نہیں۔ خس کم جہاں پاک۔

ہمیں اپنے پاکباز قارئین پر بھی فخر ہے جو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے تو قصیدے پڑھتے ہیں لیکن اس واقعے پر چپ ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پہلے بھی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے تمام واقعات پر دم سادھے بیٹھے رہے۔ کم عمر لڑکیاں ہی کیوں دائرہ ایمان میں داخل کی جاتی ہیں اس سے انہیں کیا سروکار۔ کبھی کوئی ادھیڑ عمر عورت یا لڑکا یہ سعادت کیوں نہیں پاتا؟ مسلمان لڑکے ہیں ہی ایسے دلدار کہ وطن عزیز میں ہندو لڑکیوں کو انہی سے پیار ہوتا ہے۔ عشق بھی وہ جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ گھر بار چھڑا دیتا ہے۔ مذہب تبدیل کرا دیتا ہے۔

ہمیں فخر ہے کہ یہ پاسبان یہاں کسی استاد کی گردن اڑا دیں گے۔ کمسن ہندو لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کر دیں گے۔ مسیحیوں کی بستیاں جلا دیں گے۔ احمدیوں کو عبادت گاہوں میں بھون دیں گے۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر نظریں چرا لیں گے۔ مشال خان کے گھر والوں کو علاقہ تبدیل کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ آسیہ بی بی کو عدالت سے رہا ہونے پر بھی زندگی کی قید سے رہا نہیں ہونے دیں گے۔

لیکن۔

نیوزی لینڈ میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی پر آواز اٹھاتے رہیں گے۔ مسمات جمیلہ عدنان کا بازو بنے رہیں گے۔ اسے گلے لگاتے رہیں گے۔ ویزہ اپلائی کرتے رہیں گے۔
سچ ہے کہ شرفاء کا یہی شیوہ ہے۔ رینا اور روینہ کا کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).