سیل فون نے ہماری زندگی بدل دی


پاپا کے اینڈرائڈ سیل فون سے مما کے کافی تحفظات تھے ان کے درمیان اس معاملے پر اکثر بحث و تکرار ہوتی رہتی تھی۔ پاپا کے ہاتھ میں سیل فون دیکھتے ہی ماما کا پارہ اٹھنے لگتا،

ان کا لب و لہجہ تند و تیز ہو جاتا۔

” کوئی فیملی ٹائم بھی ہوتا ہے۔ آپ تو ہر وقت ہی۔ اللہ جانے کیا ہے اس میں۔ جب دیکھو موبائل فون پر۔ رات ایک بجے میری آنکھ کھلی۔ اس وقت بھی آپ سیل فون پر تھے۔ “

” اب نیند نا آ رہی ہو تو بندہ کیا کرے؟ “ پاپا فون پر نظر جمائے دھیمے لہجے سے وضاحت دیتے۔

” بندہ فون ہاتھ سے رکھے تو نیند آئے نا۔

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ۔ آخر اسے لاک کیوں لگا رکھا ہے، گھر میں کوئی ایمرجنسی ہو سکتی ہے۔ کوئی ارجنٹ فون کرنا پڑ سکتا ہے۔ ”

”تمہارا فون ہے نا۔ ! اسں پر ارجنٹ کال پہ کوئی اضافی چارجز ہیں کیا۔ ایویں ای۔ بلاوجہ کی پریشانیاں پال رکھی ہیں“

” پریشان کیوں نہ ہوں۔ گھر پر بھی فون پہ تالا لگا ئے رکھتے ہیں۔ آخر اس میں ایسا ہے کیا جسے ہر وقت لاک کی ضرورت پڑے۔ مجھے آپ کے ٹیکسٹ میسجز سے کوئی دلچسپی نہیں ”

مما نے پاپا کے ٹیکسٹ میسجز کو ہدف بناتے ہوئے کہا۔

” میرے ان باکس میں ایسا کچھ نہیں جسے چھپانا پڑے۔ بس میں نہیں چاہتا کہ میرے دوستوں کا کوئی اوٹ پٹانگ میسج بچوں کے ہاتھ لگے

یا میرا موبائل بچوں کی گیم ڈیوائس بنا رہے۔ ”پاپا نے مما کو سمجھانے کی کوشش کی۔

دوران سفرگاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر پاپا کے لیے فون ان لاک کرنا ہمیشہ ہی مشکل مرحلہ ہوتا، پچھلی سیٹ پر بیٹھے خدائی فرشتے فوراً سے پہلے پاس کوڈ لے اڑتے۔ اور اپنی کامیابی کا جشن مناتے۔ پاس کوڈ تک رسائی پاتے ہی مما کو نبیلہ خالہ کی یاد ستانے لگتی۔ اور وہ پاپا کی طرف اپنا ہاتھ بڑھا دیتیں

”یہ اپنا فون دیجئے گا میں ذرا نبیلہ کی خیریت لوں، مجھ سے اس کا نمبر ڈیلیٹ ہو گیا ہے اس کا کمر درد ٹھیک نہیں ہوا ابھی، بہت دن ہو گئے بات کیے ہوئے“

پاپا طوعاً کرہاً گاڑی کے ڈور ریک سے اپنا فون اٹھا دیتے۔

پھر پون گھنٹے کا سفر پندرہ منٹ میں چپ چاپ گزرتا۔

اکثر دوران سفر ان کی نوک جھونک چلتی رہتی اور بچہ لوگ دو پارٹیاں بن کر ان کی لڑائی کو بڑھاوا دیتے رہتے۔ اس روز شاید چھوٹی نے گاڑی کے بیک ویو مرر میں اپنے بال بناتے ہوئے اس کا رخ بدل دیا، پاپا کو ضرورت پڑی تو سب کی شامت آگئی۔ چھوٹی نے ان کا موڈ بہتر کرنے کو پٹاخہ چھوڑا۔ ”پاپا گاڑی چلاتے ہوئے آگے دیکھتے ہیں، آپ پیچھے کیوں دیکھتے ہو؟ ”

”یہ پیچھے نہ دیکھیں تو ان سے آگے نہیں چلا جاتا بیٹا“ مما نے لوہا گرم دیکھتے ہی چوٹ کی۔

میں فوراً سمجھ گیا کہ اب کے تیر ہدف پاپا کی سابقہ کزن منگیتر ہے۔ سو ان کے لیے بھی جوابی کارروائی لازم تھی

” آگے بڑھنے کے لئے پیچھے دیکھنا پڑتا ہے بیٹا، وگرنہ کوئی حادثہ ہو سکتا ہے۔ تمہاری مما کو یہ بات کون سمجھائے۔ جس دن وہ سمجھ گئی زندگی آسان اور پرسکون ہو جائے گی۔ جو کم از کم تمہاری ماں نے کبھی نہیں چاہا“

” ہونہہ۔ پرسکون زندگی! “۔ پر سکون زندگی میں موبائل فونوں پر لاک نہیں ہوتے۔ بستر پر بیوی کی آنکھ لگتے ہی شوہر سیل فون نہیں اٹھا لیتے۔ آدھی آدھی رات کو ان کے فون پر میسج نہیں آتے۔ ”

مما شروع، بچہ پارٹی خاموش۔

پاپا بھی شاید اس روز مما کو زچ کرنے پر تلے تھے

” سیانے لوگ کہتے ہیں موبائل فون کو ہمیشہ بیوی کی رسائی اور بچوں کی پہنچ سے دور رکھنا چاہیے بچوں کی گیمز موبائل فون کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اور بیوی کی حساس ڈیٹا تک رسائی ہمیشہ شک کی گنجائش پیدا کرتی ہے اور بے شمار لاجواب سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ “

” شک کی گنجائش بھی تو خود ہی بناتے ہو۔ نہ کرو ایسے کام جو دوسروں کو اذیت دیں۔ شک میں مبتلا کریں“

مما خود کلامی کے سے نرم لہجے میں اداسی سے بولتے ہوئے گاڑی کی ونڈو سے باہر دیکھنے لگیں۔

” ارے نہیں“ پاپا نے مما کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”ہماری کیا مجال جو آپ کو اس اذیت پسندی پر کچھ کہہ سکیں، جب یونیورسٹی تک کی تعلیم اس کا علاج نہ کر سکی تو۔ ! “

ماحول کو بوجھل ہوتا دیکھ کر میں نے چھوٹے کو چٹکی کاٹ دی۔

آخر پاپا نے اس مسلے کا حل ڈھونڈ نکالا اور مما کو ایک نیا آئی فون 5 S خرید دیا۔ مما نے چند ہی دنوں میں ضروری استعمال پر مہارت حاصل کر لی۔ پھر واٹس ایپ، فیس بک اور آن لائن شاپنگ کے ایپس میں مما کی دلچسپی بڑھنے لگی۔ بچپن کی سہیلیاں، کالج فرینڈز، یونیورسٹی فیلوز دور و نزدیک کی کزنز اور مما کے اپنے بہن بھائی سب رابطے میں آ گئے۔ قربتیں بڑھی اور مصروفیات بدل گئیں

بچوں کی ضد اور دلچسپی کے پیش نظر کچھ گیمز ایپس ڈاون لوڈ کر دیے گئے۔ گھر کا ماحول قدرے پر سکون ہوا۔ پاپا اپنے ڈسکشنز گروپس، میوزک اور ای بکس جبکہ مما واٹس ایپ اور فیس بک پر وقت گذارنے لگیں۔ ایک ساتھ مل بیٹھ کر باتیں کرنے، ہنسنے ہنسانے، اور فیملی ٹائم انجوائے کرنے کے مواقع شاذو نادر ہوتے چلے گیے۔

بچوں کی دلچسپی کیا بڑھی ان کا زیادہ وقت کے لئے سیل فون استعمال کرنے کا تقاضہ زور پکڑنے لگا۔

پھر مما نے بچوں کی دسترس سے دور رکھنے کے لیے کے سیل پر فینگر پرنٹ لاک آپشن استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بچوں کی گیمز مما کے سیل فون سے ہٹا دی گئیں۔

کچھ عرصہ بعد۔ بچوں کی بار بار کی فرمائش پر انھیں نیا ٹیب مل گیا اور مجھے نیا سیل فون۔

لیپ ٹاپ کا وعدہ الگ سے۔

۔ اب ہم سب فیملی ممبرز آپس کے روز مرہ معاملات اپنے واٹس ایپ

” Happy Family“

گروپ پر طے کر لیتے ہیں۔

بہت خوش۔ بہت تنہا۔ تصوراتی دنیا کے حقیقی باشندے۔ جن کے لئے دوست فقط امیجزز اور رشتے صرف نیٹ ورک بن کر رہ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).