ہماری درس گاہوں سے جنم لیتے ہابیل قابیل


استاد جس کو والدین کا رتبہ دیا جاتا ہے۔ جس کے بارے کہا گیا کہ وہ ہمیں زمین سے آسماں کی بلندیوں تک رسائی دیتا ہے۔ استاد جو ہمارے معاشرے اور دین میں روحانی والدین کی حیثیت رکھتے ہیں،

جن کے سکھائے علم ہنر اور انداز سے ہم زندگی کی مشکلوں کا مقابلہ کرنے میں آسانی پاتے ہیں۔

میں خود سٹوڈنس ہوں اور آج سب طالب علموں سے یہ سوال کرنا چاہتی ہوں کہ کیا آپ اپنے والدین کو قتل کر سکتے ہیں؟ جانتی ہوں سب کا جواب ہو گا ہرگز نہیں۔ بالکل کوئی بھی بچہ اپنا والدین کو قتل نہیں کر سکتا۔ اور اساتذہ کرام ہمارے والدین ہیں۔ ہمیں والدین نے پیدا کیا بولنا سیکھایا، چلنا پھر سکھایا لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں ہمارے اساتذہ کرام نے تہذیب، ادب لکھنا بولنا اور خیر و شر میں فرق کرنا سکھایا۔ ہمارے دن کا جتنا وقت والدین کے ساتھ گزرتا ہے اتنا وقت اساتذہ کرام کے ساتھ گزرتا ہے۔ اب سب کا سوال ہو گا، برابر وقت کیسے؟ تو رات کا وقت آرام کرنے میں گزر جاتا ہے باقی دن کا وہی حساب آ جاتا ہے جو بھی والدین چلنا سکھاتے ہیں تو اساتذہ کرام چلنے کے طور طریقے سکھاتے ہیں جس طرح ہمارے والدین ہم سے محبت کرتے ہیں اسی طرح اساتذہ کرام بھی پیار کرتے ہیں۔ والدین بری بات پہ ڈانٹتے ہیں اور کبھی کبھار بدتمیزی پہ تھپڑ بھی مار دیتے ہیں مگر پھر پیار بھی کرتے ہیں اسی طرح اساتذہ کرام بھی بہت پیار کرتے ہیں۔

استاد اور سٹوڈنٹ کا بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے محبت، خلوص اور احترام کا یہ ایک مقدس رشتہ ہوتا ہے۔ ایک استاد کبھی بھی کسی سٹوڈنٹ کا برا نہیں چاہ سکتا۔ میں نے پہلے بھی اساتذہ کرام اور سٹوڈنس پہ ایک مختصر سا تبصرہ لکھا ایسی ہی ایک جامعہ کے ایک واقعہ مجھے قلم اٹھانے پہ مجبور کر دیا تھا اور آج بھی۔ فرق صرف نوعیت کا ہے تب ایک طلبہ اور استاد کے رشتہ پہ انگلی اٹھائی گئی تھی وہ بھی ذلت سے کم نہیں تھی اور آج پھر مجھے قلم اٹھانا پڑ گیا۔ استاد پروفیسر خالد حمید اور طالب علم خطیب حسین پر۔

بہاولپور میں طالب علم نے استاد کو چھری کے وار کر کے قتل کردیا۔ جیساکہ طالب علم خطیب حسین کا بیان ہے کہ پروفیسر خالد حمید صاحب مذہب کے خلاف بولتے تھے تو اس وجہ سے میں نے قتل کر دیا تو یہ بات ہرگز ماننے والی نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ طالب علم اپنی زبان نہیں، کسی اور کی زبان بول رہا ہے۔ پہلی بات اگر وہ اس بات پہ قتل کرتا ہے تو قتل کرکے فورا بھاگ جاتا کیونکہ جان تو ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے اور وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ قتل کے بدلہ مجھے قتل کیا جائے گا اور وہ بھاگا نہیں، ڈھٹائی سے بیٹھا رہا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کی اس قتل کے حوالے سے بہت زیادہ برین واشنگ کی گئی تھی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے سماج اور معاشرے کے ان شدت پسندانہ رویوں کے ساتھ اپنی معاشرتی قدروں کا احترام بھی سیکھنا اور سکھانا ہوگا، خطیب حسین اصل قاتل نہیں ہے، اس کے پیچھے ضرور کسی اور کا ہاتھ ہے۔ ہاں خطیب حسین کو مہرہ بنایا گیا، اس سے قتل کروایا گیا۔ ویسے بھی کوئی بھی بچہ اپنے والدین کو قتل نہیں کر سکتا اور ایک طالب علم کے اندر خوف، ڈر اور احترام کا رشتہ ہوتا ہے۔ وہ استاد کے سامنے سر اٹھا کر نظریں ملا کر بات تک نہیں کر سکتا قتل تو دور کی بات اور خطیب حسین نے قتل کر دیا۔ ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا اس کو باقاعدہ ٹرینڈ کیا گیا اک تیاری /ہریکٹس کے بعد اس سے قتل کروایا گیا۔

میں نہیں جانتی خطیب حسین نے کس مجبوری کے تحت قتل کیا لیکن قتل تو کیا ہے اور اس کو سزا بھی ملنی چاہیے۔ مگر میں اپنے ذاتی نظریے سے یہ کہنا چاہوں خدارا ایک استاد کے رتبہ کو سمجھیں۔ اس طالب علم کو قتل کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ اس نے جب قتل کیا وہ اس سے ہی پہلے ہی اپنی جان کا معاوضہ لے چکا ہو گا۔ اس لیے ایک مردہ کو قتل کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا

اس کے پیچھے اگر کوئی منفی سوچ ہے، تو اس کو نشانہ بنائیے تا کہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ ھم مذہبی اور غیر مذہبی لبرل اور قدامت پسند ہو کر جیتے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں کہ ہمیں کس قدر لبرل اور کتنا قدامت پسند رہنے کی ضرورت ہے۔ اس طالب علم ہی کے ذریعے اصل قاتل تک پہنچا جائے۔ اصل مجرم یہ نہیں ہے کیونکہ مذہب کی بنیاد پہ یہ بچہ قتل نہیں کر سکتا اس کے پیچھے چھپی کہانی کو منظر عام پہ لانا چاہیے۔ پروفیسر کے دشمنوں کو سامنے لایا جائے جو ان کی جان کے دشمن تھے اور جان لے لی۔ میری التجا یے کہ جلد از جلد اصل مجرم تک پہچا جائے ورنہ یہ تعلیمی ادارے وحشی ادارے بن جائیں۔ جہالت دور نہیں، بلکہ آ گئی ہے ایسا نہ ہو ہمارا معاشرہ بلکہ ہمارا ملک پاکستان عروج سے زوال کی طرف بڑھنے لگے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی سانحہ۔۔۔۔ اور زیادہ تر سانحات اداروں میں ہو رہے ہیں کیوں؟

اداروں میں تو تعلیم دی جاتی یے جہاں تعلیم دی جاتی یے وہاں رواداری حوصلہ اور برداشت بانٹی جائے یہ نفرتوں عصبیتوں اور قتل و غارت کی روایات کہاں سے آگئی ہیں اس کے ساتھ ہی جہالت۔ جو بچیاں، گاؤں سے دور دراز علاقوں سے اتنا سفر کر کے تعلیم حاصل کرنے آتی ہیں ان کے والدین سے جب یہ کہا جائے کہ یونیورسٹی کا ماحول ٹھیک نہیں، استاد اچھے نہیں تو جو نئی نسل پڑھنے کی طرف قدم بڑھ رہی ہوتی ہے ان کے والدین ان کے قدم روک دیتے ہیں اکثر گاؤں کے والدین اپنی بچیوں کو اداروں میں بھیجنے سے ڈرتے ہیں، نہیں بھیجتے اور اب بچوں کو بھی اس ڈر سے کہ کہیں ہمارا بچہ قاتل نہ بن جائے، روک لیں گے۔ یہ ہمارے اداروں کے لیے اچھا شگون نہیں، استاد جب سٹوڈنٹ سے ڈرنے لگیں کہ کبھی بھی ہمیں کوئی بھی طالب علم کسی بات پر قتل کر سکتا ہے تو وہ اس خوف کی فضا میں کیا تعلیم دیں گے۔ ہر طرف تعلیم حاصل کرنے کے عمل میں رکاوٹیں سامنے آ رہی ہیں اور اگر تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو ہمارا معاشرہ ہمارا ملک ترقی کی راہ پہ گامزن ہونے کے بجائے کی بجائے زوال پزیر ہونا شروع ہو جائے گا۔

میں بہاولپور کے اس سانحہ سے ابھی تک سکتے میں ہوں کہ لوگ کیوں کیسے یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک طالب علم نے قتل کیا۔ وہ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر دل سے کیوں نہیں پوچھتے کہ ایک بیٹے نے، باپ کا قتل کر دیا ہے۔ ذرا سوچیے اس بچے نے ایک مقدس مشن کو قلم کی سیاہی سے خوبصورت بنانے کے بجائے خون سے کیوں رنگ بھر دیے۔ ایسی کون سی طاقت ہے جو روشنائی کو خون کے رنگوں سے بھرنا چاہتی ہے۔ اس بچہ کو قتل نہیں کیا جائے، اس کو تاعمر جیل میں رکھا جائے یہ جب جب سانس لے اس کی ہر ہر آہ سے اک استاد کا نام نکلے۔ اصل مجرم کو پھانسی پہ لٹکایا جائے مگر اس کو سسک سسک جینے دیا جائے جیل میں، یہ موت بھی مانگے تو کبھی موت نہ آئے یہ اپنا انجام دنیا میں بھگتے۔

میں ایک سٹوڈنٹ ہوں آئے دن کسی نہ کسی ادارے میں کوئی سانحہ ہوا ہوتا ہے جس کی وجہ سے طالب علم کے لیے تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات وقوع پذیر ہو رہی ہے اس کی نفسیات پہ شدید منفی اثرات پڑتے ہیں اس کا تعلیمی سلسلہ بری طرح متاثر ہوتا ہے اس پہ غوروفکر کیا جائے اور مشکلات تو دور کیا جائے اور جو مشکلات طالب علم خود پیدا کرتے ہیں میری سب طلبہ طالبات سے التجا ہے کہ خدارا اپنے جینے کا مقصد سمجھیں اصل زندگی وہ زندگی نہیں ہوتی کہ خود کے لیے جیا جائے بالکل اصل جینے کی وجہ دوسروں کی خوشی ہوتی ہے ایک بار دوسروں کی خوشی میں خوش ہو کر تو دیکھیں کتنا سکون ملتا ہے خود بھی جیے اور دوسروں کو بھی جینے دیں تعلیم حاصل کرو اور دوسروں کو حاصل کرنے کی تلقین نہیں ان کی مدد کرو ان کے دست و بازو بنو۔ تب تمھیں علم اور اساتذہ کی قدر سمجھ آئے گی۔ اک استاد کو رتبہ کو سمجھیں ان کا احترام کریں تبھی ہمارا معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔

استاد اور شاگرد کا بری طرح ٹوٹتا اور تباہ ہوتا تعلق ہمارے تعلیمی اداروں کی تباہی کا پہلا قدم ہے مجھے اُمید ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے اور تولیمی ماحول کو ایسے حادثات سے بچانے کے لیے حکومت اور تعلیمی ادارے اپنی پالیسی کو مزید بہتر بنائینگے تاکہ طلبہ اور اساتذہ خوف و دہشت کی فضا سے نکل کر تعلیمی سلسلے کے ساتھ جڑے رہ سکیں۔

اس حادثے کے شدید نفسیاتی اثر کے تحت میں چند جملے سپردِ قلم کر رہی ہوں اللہ کرے ایسے واقعات اب مزید ہمیں نہ دیکھنے پڑیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).