23 مارچ۔ پاکستان سے تجدید ِ محبت کا دن


چڑیا تنکا تنکا اکٹھا کرکے اپنے بچوں کے لئے ایک گھونسلا بناتی ہے۔ ایک اپنا ننھا سا آشیاں۔ جانور، چرند پرند سب ہی اپنے مسکن سے انسیت رکھتے ہیں۔ کچھ جانور اپنے ملکیتی علاقے میں دوسرے جانوروں کی مداخلت برداشت نہیں کرتے۔ انسان بھی اس فطری جبلت سے عاری نہیں۔ یہ جذبہ انسان میں بھی حد درجہ پایا جاتا ہے۔ ملکیت کا احساس تحفظ، اطمینان اور مسرت سے بھرپور ہوتا ہے۔ بچپن میں بھائیوں کے ساتھ جس کمرے میں رہتا تھا وہاں ایک الماری میری ملکیت تھی جسے میں نے بہت سجایا ہوتا تھا۔

مختلف ٹافیوں سے نکلنے والے اسٹیکرز، اپنے پسندیدہ کارٹون کرداروں اور بالی وڈ ادکاروں اور اداکاراؤں کی تصاویر الماری کے اندر اور باہر چسپاں کرتا رہتا تھا۔ الماری کو تالا لگا کر رکھتا تھا اور کبھی کبھی الماری کھول کے سامنے بیٹھ کے اسے تکتے رہنا بہت مزہ دیتا تھا۔ عمر کے ساتھ کمرہ الگ ملا پھر گھر۔ ہر سطح پر ملکیت کا احساس ایک سرور میں مبتلا کیے رکھتا تھا۔ مگر ان سب سے بالا اپنے وطن کے ہونے کا احساس ہوتا تھا۔

23 مارچ 1940 کے اس عظیم دن کو یاد کرتے ہوئے بے شمار خوبصورت یادیں اور کچھ خدشات ذہن میں گھومنے لگتے ہیں۔ ”پاکستان“ لفظ اپنے اندر بے تحاشا رومان، خوبصورتی اور تحفظ کا احساس لئے ہوتا تھا اور اب اس احساس کی بہت اچھے سے سمجھ بھی آتی ہے۔ اپنا گھر، اپنا پاکستان، اپنے لوگ۔ سب کچھ اپنا۔ ملکیت کا یہ احساس گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پڑے بے گھر افراد کو دیکھ کر اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اپنے گھر کی نعمت کی اہمیت کا احساس بڑھ جاتا ہے۔

دنیا بھر میں کتنے ہی لوگ ہیں جن کا کوئی دیس نہیں اور وہ لوگ جو جنگ یا اور وجوہات کی بنا پر اپنے ملک نہیں رہ سکتے۔ اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین کے سنہ 2018 کے بیانیہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت تقریباً 12 ملین افراد پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں جو اپنے وطن کی نعمت سے محروم ہیں۔ ان کی لاچاری، مجبوری اور دربدری دیکھ کے دل بھر آتا ہے اور اس مملکتِ خداداد کی نعمت کا لاکھوں شکر ادا کرتا ہوں۔

مگر کچھ عرصے سے ملکی حالات و واقعات کو دیکھ کر خوف اور افسوس میں مبتلا ہو جاتا ہوں۔ اس گھر کو پر امن بنانا اور اس کی حفاظت کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ یہاں بسنے والا ایک ایک فرد دل و جان سے پاکستانی ہے وہ چاہے کسی بھی مذہب، مسلک، علاقے اور لسانی یا نسلی گروہ سے تعلق کیں نہ رکھتا ہو۔ مذہبی اور علاقائی بنیادوں پر ہونے والی تفریق کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں سب سے پہلا اور ایم ترین قدم دوسروں کے منفرد ہونے کو دل سے قبول کرنا ہو گا۔

یہ مذہبی، ثقافتی اور علاقائی تنوع تو دراصل اس پاک دھرتی کی خوبصورتی ہے، ہمیں اس خوبصورتی کو بدصورتی بننے سے روکنا ہے۔ ایک دوسرے کو قبول کرنا ہے۔ جیو اور جینے دو کی ڈھب اپنانی ہو گی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جب بھی پیارے وطن پر کوئی آنچ آنے کو ہوتی ہے تو سارے علاقائی اور سیاسی اختلافات بھلا کر پورا ملک ایک بند مٹھی کی صورت اختیار کر لیتا ہے جسے کھولنا دشمن کے بس کی بات نہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ میں نے ہمسایہ ملک سے کشیدگی کے دوران پارلیمنٹ کے براہِ راست اجلاس میں دیکھا جب سیاسی رقیبوں کو پاکستان کی سلامتی کے موضوع پر ہم خیال اور یک زبان دیکھا۔

تاہم ہمیں ان وقتی لمحات میں ہی صرف متحد نہیں ہونا چاہیے بلکہ امن کے دنوں میں اپنے ساتھ رہنے والوں کو برداشت کرنا اور پیار کرنا بھی سیکھنا ہے۔ اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی مثال قابلِ تقلید ہے۔ بے شک جیسنڈا آرڈن ایک نرم دل خاتون ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ ایک زیرک اور محبِ وطن راہنما بھی ہیں جو بخوبی جانتی ہیں کہ ایسے نازک حالات میں انہیں اپنے ملک کے امن و سکون کے لئے کیا کرنا ہے۔ وہ مغرب کی قدرے متعصبانہ آب و ہوا میں خلوص، ہمدردی اور انصاف کا تازہ جھونکا بن کر آئی ہیں۔

ہمیں بھی اپنے ملک میں ایسے ہی دوسرے عقائد رکھنے والے گروہوں کو گلے سے لگانا ہے اور سچے دل سے ان کی حفاظت کرنی ہے کیوں کہ یہ سب پاکستانی ہیں۔ 23 مارچ دراصل پاکستان سے محبت کی تجدید کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں دعوتِ غور و فکر بھی دیتا ہے۔ ہمیں اس دن کی پکار کو دل و ذہن کی سماعتوں سے سننا ہے اور اس کی حفاظت اور امن کے لئے تدابیر اختیار کرنی ہیں۔ پاکستان زندہ باد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).