مفتی محمد تقی عثمانی سے بھی دشمنی؟


کراچی کو جس طرح پورے ملک کا معاشی مرکز سمجھا جاتا ہے اسی طرح اس کے دینی اور علمی مرکز ہونے میں بھی دورائے نہیں۔ سہارنپور (ہندوستان) کی سرزمیں کو ایک زمانے میں دارالعلوم دیوبندجیسے دینی ادارے کا شرف حاصل تھا، الحمدﷲ یہی شرف آج کل کراچی کو دارالعلوم کورنگی، جامعہ بنوری ٹاون اور جامعہ فاروقیہ جیسے مدارس کے قیام کے بعد حاصل ہو گئی ہے۔ اسی لئے ہر سال ہزاوں کی تعداد میں نہ صرف ملک کے کونے کونے سے طلباء اس شہر کا رخ کرتے ہیں بلکہ ہمسایہ ملکوں بنگلہ دیش، برما، افغانستان اور ایران کے علاوہ بے شمارافریقی اور عرب ملکوں کے طلباء بھی کراچی کے جامعات میں پڑھنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ہاں یہ پھر اور بدقسمتی ہے کہ پچھلے چند برسوں سے امن وامان کی خراب صورتحال کے پیش نظر بیرون طلباء کی بہت کم تعداد کو کراچی کے جامعات میں جگہ ملتی ہے۔

دوسری طرف دیکھا جائے تو اس شہر کا اہل علم اور دینی طبقہ بھی طویل عرصے سے دشمنانِ دین اور ان کے آلہ کاروں کے نشانے پر رہا ہے۔ پچھلے پندرہ بیس برسوں کے دوران کراچی میں درجنوں چوٹی کے علماء چن چن کر بے دردی سے شہیدکردیئے گئے جن میں علامہ محمدیوسف بنوری ؒ، علامہ محمد یوسف لدھیانوی ؒ، مولانا حبیب اللہ مختارؒ اورڈاکٹر مولانا نظام الدین شامزئیؒ، شیخ الحدیث مفتی عبدالمجیددین پوری، مولانا ارشاداللہ عباسی، مولاناسعیدجلالپوری، مولانا عبدالسمیع اورمولانا عبدالحفیظ مکی ؒ سرفہرست ہیں۔ دو دن پہلے انہی قوتوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے دین دشمن سرگرمیوں کا ثبوت دیتے ہوئے عالم اسلام کے ممتاز علمی شخصیت اور دارالعلوم کراچی کے نائب مہتتم مفتی محمد تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ کیا۔

دشمنوں نے اگرچہ مولانا کے قافلے میں شامل دونوں گاڑیوں پر چاروں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ اس جان لیوا حملے میں مولانا کے ڈرائیور زخمی اور دو باڈی گارڈز شہید ہوگئے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔ میں نہیں سمجھتا کہ مولانا محمد تقی عثمانی جیسے غیرمتنازع، سلیم الفطرت اور ولی اللہ انسان نے آخر ظالموں کا کیا بگاڑا ہوگا کہ انہیں بھی بخشنے نہیں دیا۔ مولانا اس وقت عمر کی پچھتر بہاریں دیکھ چکے ہیں لیکن اس طویل عرصے میں وہ نہ توکبھی کسی مکتب فکر کے خلاف محاذ آرا ہوئے اور نہ ہی کسی کے دل کو دکھی کردیاہے۔ بے شک اقبال ؒ نے بجا فرمایا ہے کہ،

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ ِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

مفتی محمد تقی عثمانی تقسیم ہند سے چار برس قبل ضلع سہارنپور کے مشہور قصبے دیوبند میں برصغیرکے ممتاز علمی شخصیت اور مفسرقرآن مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے ہاں پیداہوئے۔ عمر فقط چارسال تھی کہ اپنے والد کے ساتھ نئے پاکستان کے شہر کراچی منتقل ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کراچی میں مولانا احتشام الحق تھانوی ؒکے مدرسے اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر اپنے والد کی سرپرستی میں دار العلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی۔ 1961 میں جامعہ دارالعلوم ہی سے فقہ میں سپیشلائزیشن کی اور بعد میں جامعہ کراچی سے ایل ایل بی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی ادب میں ایم اے کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کیا۔

اردو زبان تو ویسے بھی مولانا کی گھر کی لونڈی ہے لیکن ساتھ ساتھ مولانا کو عربی اور انگریزی زبانوں پر بھی کمال کی حد تک عبور حاصل ہے۔ جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے تک آپ پاکستان کے عدالتی نظام سے منسلک رہے۔ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شرعی ایپلیٹ بینچ کے جج رہے۔ جج کی حیثیت سے آپ نے کئی اہم فیصلے کیے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔

2002 میں اس وقت کے آمر جنرل پرویزمشرف نے ان کے شفاف اور کھرے فیصلوں ہی کی پاداش میں اس عہدے سے برطرف کر دیا۔ مولانا کو اگر اپنے عظیم دینی وعلمی خدمات کی بنا پر اُمت کا سرمایہ کہوں، تو شاید میرے اس دعوے سے کسی کو اختلاف نہیں ہو گا۔ کیونکہ آج کل نہ صرف ہندوستان اور بنگلہ دیش میں مولانا کوعالم اسلام کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے بلکہ بلاد عرب، افریقی اور مغربی ملکوں میں بھی کھلے دل سے ان کے علمی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔

اسی لئے تو مصرکے علامہ یوسف القرضاوی جیسے شیوخ بھی آپ کو ”شیخ القاضی المحدث الفقیہ الاریب الکامل“ کا لقب دینے میں تامل نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ شام کے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ جیسے سکالرز آپ کو ”تفاحۃ الہند و باکستان ( پاک وہند کا سیب) قرار دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ فرط محبت سے شیخ ابوعبدہ نے ایک دفعہ مولانا کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ“ لوکنت تفاحۃ لاکلتکَ ”اگر آپ سیب ہوتے تو میں آپ کو کھا جاتا“۔ سچی بات یہ ہے کہ دین کے میدان میں مولانا تقی عثمانی آج کل ہر فن مولا کی حیثیت رکھتے ہیں۔

آپ ایک طرف جامعہ میں بخاری جیسی کتابیں پڑھارہے ہیں تو دوسری طرف عالمی فورمز پر اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ اسلامی، اسلامی بینکاری، اصلاح اور ادب میں (عربی، اردواور انگریزی زبانوں میں) درجنوں کتابیں بھی تصنیف کر چکے ہیں۔ چونکہ اس مختصر کالم میں مرشدی مولانا کے علمی آثار کا احاطہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے تاہم ان کی چند مشہور کتابوں کا ذکر کرتا ہوں۔

آسان ترجمہ قرآن 3 جلد، علوم القرآن، تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم (چھ جلدعربی ) ، حجیت حدیث، تقریر ترمذی 4 جلداردو، فتاویٰ عثمانی 3 جلداردو، فقہ البوع 3 جلدعربی، فقہی مقالات 4 جلداردو، اصلاحی خطبات ( 25 جلد اردو) ، امیر معاویہ اور تاریخی حقائق، بائبل سے قرآن تک (دوجلداردو) ، اسلام اور سیاسی نظریات، ذکر وفکر (اردوکالموں کامجموعہ ) ، مختلف ملکوں کے تین ضخیم سفرنامے، اسلام اور جدید معیشت، غیر سودی بینکاری، ہمارا معاشی نظام، اسلامی بینکاری کی بنیادیں، موجودہ عالمی معاشی بحران اور اسلامی تعلیمات، ہمارا تعلیمی نظام، وغیرہ وغیرہ۔ ویسے تو مولانا کی علمی اور دینی کاوشوں کاتو پوری دنیا معترف رہی ہے، دل کی بات کی جائے تو آپ حسین اخلاق اور انکساری کا بھی ایک شاندار مرقع ہے۔

آج سے انیس برس قبل دارالعلوم کراچی کے کتب خانے میں اس طالبعلم کو اپنے والد کے ساتھ مولانا سے ملنے کا شرف حاصل ہواتھا۔ کراچی جانے کا جب بھی اتفاق ہوتا ہے تو مولانا کی مقناطیسی شخصیت مجھے ضرور اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اگرچہ بسا اوقات ان سے ملاقات ہو نہیں پاتی تاہم دارالعلوم کی مسجد میں اس نیک سیرت انسان کی ایک جھلک دیکھ کر بھی دیرتک خوشی محسوس کرتاہوں۔ مولانا کے براہ راست شاگرد رہنے کی سعادت تو مجھ ناچیز کونہیں ملی لیکن بالواسطہ طور پروہ ہمارے مُربی اور استاد ضرور ہیں کیونکہ ان کی کتابوں نے ہروقت میری رہنمائی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ مولانا کوان بدطینت اعداء کے شرسے ہمیشہ محفوظ ومامون رکھے۔ آخر میں ان کے لئے پیرمحمد کاروان کا ایک مشہور شعر پیش خدمت ہے،

سڑیخوارہ پرے چار چاپیر لکہ غاشونہ راٹول

جانان می و ساتے مولا، پکشے د ژبے پہ شان۔

’آدم خوروں نے نوکیلے دانتوں کی طرح چار اطراف سے میرے محبوب کو گھیرا ہوا ہے، اے میرے مولا! تو ان کو زبان کی طرح اپنے حفظ وامان میں رکھے ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).