اگر کرائسٹ چرچ ہمارے ملک میں ہوتا


فرض کرلیتے ہیں کہ برینٹن ٹیرینٹ نے درندگی کا مظاہرہ (خاکم بدہن) پاکستان میں کیا۔ یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ اٹھائیس برس قبل اس کی پیدائش افغانستان میں ہوئی اور امریکی مداخلت کے بعد سے وہ پاکستان میں سکونت پذیر ہوا۔ تب سے وہ اپنے ملک میں غیر ملکی مداخلت پر شدید سیخ پا ہوا اور ہمہ وقت کچھ کر گزرنے کی جستجو میں رہا۔ وہ اپنی سرزمین سے غیر ملکی عناصر کو بے دخل کرنے کے واسطے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہا۔ لیکن درست سمت کا تعین نہیں کرپارہا جس کے تحت اپنے مقصد کا حصول ممکن بنا سکتا۔

اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فرضی ٹیرینٹ کو مگر یورپ اور ایشیائی ممالک کا دورہ کرنے کی چنداں ضرورت نہ ہوتی۔ اس کی محرومی کا تمام تر ازالہ پاکستان سے ہی ہوجاتا۔ یہاں موجود کچھ بنیاد پرست دانشور، احساس برتری سے مزین ریٹائرڈ تجزیہ نگار، ابن الوقت سیاستدان اور مقامی ملا کھلے عام ہونے والے مذاکروں، عسکری جماعتوں کے بلا روک ٹوک مظاہروں، نشاۃ ثانیہ زدہ تحریروں اور پرجوش خطبات سے بآسانی باور کرا دیتے کہ وہ اس قوم سے ہے اسلحہ جس کا زیور ہے، غیرت ایمانی اوڑھنا بچھونا اور نتائج کی پرواہ کیے بغیر جنگ و جدل کرنا مطمح نظر۔ وہ بتاتے کہ اس کی سرزمین نے تاریخ میں کبھی شکست قبول نہیں کی چاہے خود کو قبرستان میں ہی کیوں نہ بدلنا پڑے۔

ایسے میں اگر وہ سوچنے کی کوشش کرتا کہ جن کی سرکردگی میں وہ لڑے وہ اس قابل ہیں بھی کہ نہیں تو ملا نما دانشور جھٹ سے بتلاتے کہ تمہیں تمہاری نیت کے نمبر ملیں گے۔ دشمن اور دوست جو مرضی ہوں۔ اس سلسلے میں اپنی ضمانت پر جنت کی بشارت کا رقعہ بطور سند جیب میں ڈال دیتے۔ فرضی ٹیرینٹ شاید کسی کی باتوں میں آکر سوچتا کہ دشمنی تو میری افغانستان میں دراندازوں سے ہے تو وہ پاکستان میں رہ کر کیسے کام کرے۔ یہ مخمصہ بھی چٹکی میں حل ہوجاتا۔

اس کے بھائی مسلمان ہیں اور درانداز کافر۔ کافر کا ساتھ دینے والا منافق یعنی کافر سے بھی بدتر۔ چنانچہ کفار سے نمٹنے والے بھائی تو لڑ ہی رہے ہیں، یہ ان منافقین کو سبق سکھا کر کفار کو کمزور کرے۔ ویسے بھی سچا مسلمان سرحدی حدبندی نہیں مانتا جس کا بیّن ثبوت خود اسی کا بغیر دستاویزات کے پاکستان میں مقیم ہونا ہے۔ چنانچہ یہیں سے ہی نعرہ مستانہ بلند کرنے میں کیا مضائقہ۔ رہی بات مشکلات کی تو اس کی کچھ زندہ مثالیں بھی ہیں۔

وہ دیکھتا کہ کچھ عرصہ قبل لال رنگ کی ایک مسجد کے منبر پر متمکن برادران حقیقی نے حکومت وقت کو للکار کر دارالحکومت کو یرغمال بنائے رکھا۔ بات انتہائی اقدام تک پہنچی اور درجنوں افراد بشمول بچے مارے گئے۔ برادران میں سے ایک تو مارا گیا لیکن دوسرا بخیروعافیت دوبارہ منبر سنبھال کر ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہا ہے۔

دوسری مثال اس سے بھی زیادہ متاثر کن ہوتی۔ ایک شخص جو ملک کی بڑی سیاسی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک اسکول کے معصوموں کے اندوہناک قتل میں بھی ملوث تھا، وعدہ معاف گواہ کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ موصوف کی بیش قیمت گواہی سے قوم کو پہلی بار ایک امیر کی چٹ پٹی معلومات ملیں۔ ان معلومات کے توسط سے وہ ہنستے مسکراتے گوشہ نشینی اختیار کرلیتا ہے۔

فرضی ٹیرینٹ کے پاس ایک اور مثال بھی ہوتی۔ چند سو افراد کو اکٹھا کر کے دارالحکومت پر چڑھ دوڑے اور پورے ملک کے نظام کو ہفتوں تہہ و بالا کیے رکھے۔ حکومت خود ہی آکر مذاکرات کرتی اور گال تھپتھپا کر باعزت واپسی بھی یقینی بناتی۔

اس ضمن میں اسے اپنے افعال کو قابل جواز بنانے کا ذرا بھی تردد نہ کرنا پڑتا۔ یہ کام بنیاد پرست دانشور باحسن وخوبی سرانجام دیتے۔ ان کے پاس ہر وقت مغربی ملکوں میں ہونے والے قتل، چوریوں اور ریپ کیسز کی شماریات فی منٹ کے حساب سے ہوتی ہیں۔ وہ عمارت میں موجود ٹائلز کے ڈیزائن سے سازش کا پتہ لگا لینے کا گر رکھتے ہیں۔

کرائسٹ چرچ میں حملے کا ایسا دردناک نقشہ کھینچتے کہ بات نائن الیون سے شروع ہوتی، شام، عراق اور بوسنیا کی نسل کشی سے ہوتی ہوئی اپنی حکومت کے مظالم پر آتی اور حالات پر ملبہ ڈال کر ٹیرینٹ کو مجبور و مقہور قرار دیتے۔ جرم کی سنگینی اگر مگر چونکہ چنانچہ کے پرپیچ راستوں میں ایسا الجھتی کہ نکتہ اعتراض قتل نہیں، جوتوں سمیت مسجد میں داخل ہونے کی بے حرمتی پر آ رکتا۔ فرضی ٹیرینٹ کو عسکریت پسند، بھٹکا ہوا بھائی، ردعمل سے متاثرہ انتہاپسند اور انڈین و اسرائیلی ایجنٹ کے القابات تو دیے جاتے لیکن کوئی بھی اسے اس کے مقصد اور خیالات کی بنا پر فاترالعقل نہ کہتا۔ کیونکہ یہاں دہشتگردی کو دماغی فتور نہیں سمجھا جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).