کیونکہ میں بھی ایک استاد ہوں


چند روز پہلے رضا عابدی کا ایک کالم پڑھا تھا جس میں انہوں نے لندن میں بڑھتی ہوئی چاقو سے ہونے والی وارداتوں پر خاصی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اب میں سوچ رہی ہوں کہ ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد ایسی ہی ایک تحریر کوئی ہمارے ملک کے حوالے سے بھی لکھے۔ شاہ حسین اور خدیجہ کیس تو آپ کو یاد ہی ہوگا جس میں شاہ حسین نے خدیجہ پر چاقو کے وار کیے تھے۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی اس کیس کا فیصلہ آیا ہے۔ ابھی اس کیس کی بازگشت تھمی نہیں تھی کہ ایک اور خنجر سے ہونے والے سانحے نے دل کو آنسوٶں سے بھر دیا۔

مجھے اس بحث میں نہیں پڑنا کہ سر خالد حمید اور اس شیطان کا آپس میں کیا جھگڑا تھا جس پر اس نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔ میرے لئے تو یہ خبر ہی کسی قیامت سے کم نہیں تھی کہ ایک علم کے مسافر نے اہنے رہنما کے وجود کے اندر خنجر کے نجانے کتنے وار کرکے اسے منوں مٹی تلے دفن کر دیا۔ بھلا کوئی اپنے باپ کو بھی مارتا ہے۔ وہ شیطان یہ نہیں جانتا کہ ایک استاد کبھی نہیں مرتا۔ وہ اپنے علم کی شکل میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ سرخالد حمید کے جلاے ہوے بہت سے چراغوں سے علم کی روشنی کبھی کم نہیں پڑے گی۔

مجھے یاد پڑتا ہے میرے بچپن میں ایک بار میرے ایک سکول فیلو نے ہمارے ایک ٹیچر پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ وہ لڑکا کسی افسر کا بیٹا تھا اور اس کی اِس حرکت کے بعد وہ لڑکا تو سکول سے نکل گیا مگر اس کے باپ کا شرمندگی سے جھکا ہوا سر آج بھی آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اولاد بھی والدین کے لئے کیسی کیسی آزمائش لے کر آتی ہے۔ قاتل کے خون سے رنگے ہاتھ دیکھتی یوں تو بے اختیار وہی باپ یاد آ جاتا ہے جو اب کبھی بھی سر اٹھا کر نہیں چلے گا۔

یہ اپنی نوعیت کا شاید پہلا واقعہ ہے اور ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ گو کہ استاد کا احترام تو اب ہمارے معاشرے میں نہ ہونے کے برابر ہے مگر کچھ قدریں پھر بھی باقی تھیں۔ اس واقعے کے بعد امکان ہے کہ اب کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ کیونکہ میں استاد ہوں اس لئے مجھے لگ رہا ہے کہ خنجر کے وار سے سر خالد کے ساتھ ساتھ میرے وجود کے بھی ٹکرے ٹکرے ہوے ہوں۔ میرا پیشہ خوف کا شکار ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس شیطان کی حمایت میں بولنے والے لوگ بھی سامنے آ گئے ہیں۔

ہو سکتا ہے آج دو لوگ بدبخت کی حمایت بول رہے ہیں کل ان کی تعداد زیادہ ہو جاے۔ معاشرے میں موجود انتہاپسندوں کے ہاتھ اب استاد کے خون سے بھی رنگین ہونے لگے ہیں۔ جس کے باعث معاشرے کی تصویر بہت بدصورت نظر آنٕے لگی ہے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو برداشت کی تعلیم دینی ہے کیونکہ موجودہ دور میں سب سے زیادہ ضرورت اسی تعلیم کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).