اسلام امن اور محبت کا دین ہے


اسلام امن اور محبت کا دین ہے۔ ظلم کی سیاہ تاریک رات میں ایک سنہری روشن ستارہ ہے جس کی نورافشانی سے بھولے بھٹکے راہیوں کو منزل کی نوید ملتی ہے۔ کمزور و ناتواں کی دادرسی اسلام کا پیغام ہے اور ٹھکرائے گئے یا روند دیے گئے غلاموں کو سیدی بلال و زید کا شرف بخشنا اسلام کا منشور۔ اسلام میں امن کی چاہ اس حلف الفضول سے ملتی ہے جو زمانہ قبل از اسلام وقوع پذیر ہوا لیکن اس کی پاسداری اسلام کی آمد کے بعد کی جاتی رہی۔

اسلام عفو و درگزر کا دین ہے او اس بات کا حقیقی مظہر رحمت اللعالمین ہیں کہ ہبار بن اسود، جس نے آپ کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا کو برچھی کے وار سے زخمی کیا، تک کو معاف کیا۔ اسلام عہد کی پاسداری کا دین ہے کہ حدیبیہ کے دن ابوجندل کو بیڑیوں میں جکڑا جکڑایا دشمنوں کے حوالے کردیا۔ اسلام نے انسانیت کو اس طرح شرف بخشا کہ جان لینے آئے دشمن جب قید میں آگئے جزیے کے طور پر علم کی اشاعت کا کام لیا۔ اسلام نے جنگ بندی کی بات کی، صلح کا پیغام دیا، فلاح اور بھلائی کا پرچار کیا۔

اسلام رواداری کا دین ہے۔ نجران کے ساٹھ عیسائیوں کو رسول رحمت نے مسجد نبوی میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔ مدینہ کے یہود قبائل آزادی سے اپنی مذہبی زندگی جیتے رہے۔ حضرت عائیشہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی گروہ آنحضور کی خدمت میں آیا اور انہوں نے شرارتاً اَلسَّلَامْ عَلَیکْم کی بجائے اَلسَّامْ عَلَیکِم ”یعنی تم پر ہلاکت ہو“ کہامجھے سمجھ لگ گئی میں نے انہیں کہا کہ ہلاکت تم پر ہو اور انہیں ملامت کی لیکن رسول اللہ نے مجھے فرمایا کہ عائشہ ٹھہرو ”اِنَ اللہَ یْحِبّْ الرِّفقَ فِی الاَمرِ کْلِّہ“ کہ اللہ تعالی ہر معاملہ میں نرمی پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ آپ نے فرمایا میں نے انہیں جواب میں کہہ دیا تھا کہ ”وَعَلَیکْم“ یعنی تم پر بھی۔ (صحیح البخاری)

اسلام کا پیغام اس امر سے بھی ملتا ہے کہ غزوہ بدر میں جب پانی کے چشمہ پر مسلمانوں کا قبضہ تھا تو ایک کافر پانی لینا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انہیں پانی لینے دو۔ دوران جنگ دشمن کو باندھ کر مارنے یا اس کی لاش کا مثلہ کرنے کی ممانعت فرمائی جبکہ یہ عربوں کا خاص مشغلہ تھا۔ اسلام عفوودرگزر کا دین ہے کہ عزیز چچا حضرت حمزہ کی لاش کا مثلہ کرنے والی ہندہ کے گھر کو فتح مکہ کے دن دارالامان قرار دیا۔

فتح مکہ پر عام معافی کا اعلان ہو یا خطبہ حجۃالوداع، نبی رحمت نے انسانیت کو شرف کی اوج تک پہنچادیا۔ رنگ و نسل سے بالاتر برتری کا معیار تقوی پر مقرر فرمادیا۔ زمانہ جاہلیت کی انسان سوز رسوم، ناداروں اور کمزوروں کے استحصال کے تمام آلہ جات بشمول غلامی، اور سود کے حرام قرار دے دیا۔ لوگوں پر لوگوں کا مال اور خون حرام قراردیدیا گیا۔ جاہلیت کی فرسودہ رسومات پاؤں تلے روند دی گئیں۔ اس ضمن میں رسول اکرم نے ارشاد فرمایا کہ ”سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی ہے۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے۔ اور ہمارے خون میں سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ “

اسی موقع پر ارشاد فرمایا کہ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ اسلام نے عورتوں کے واضح حقوق متعین فرمادیے ہیں۔ وراثت، تعلیم، زندگی اور تجارت کرنے کی آزادی خواتین کو ملی۔ حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا تجارت کیا کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول کی جتنی اعانت اپنے مال اور جان سے آپ نے فرمائی اسی بات سے عیاں ہے کہ ان کے وصال کے سال کو عام الحزن قراردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدیجہ اس وقت میرے ساتھ تھیں جب کوئی میری بات تک نہ سنتا تھا۔ حضرت عائیشہ علم و حکمت میں یکتا تھیں۔ ذخیرہ احادیث کا ایک بہت بڑا حصہ آپ نے نقل فرمایا۔ ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ صحابیات جنگوں میں مردوں کے شانہ بشانہ شامل ہوتی رہی ہیں۔

اسلام ایفائے عہد کا دین ہے۔ فتح مکہ کی وجہ بھی ایفائے عمد ہی تھا کہ صلح حدیبیہ کے وقت بنوبکر قریش کا حلیف بنا اور بنو خزاعہ نے مسلمانوں سے الحاق کیا۔ پھر جب بنوبکر نے قریش کے ساتھ ملکر بنو خزاعہ پر حملہ کیا تو رسول اکرم اپنے وعدے کی پاسداری کے لیے ایک غیرمسلم قبیلے کی حمایت میں مدینہ سے کوچ فرمایا اور مکہ کے قریش کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ تاریخ اسلام کے ابتدائی سالوں میں اس قسم کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

ایفائے عہد کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ شام کے عیسائی ذمیوں نے جزیہ ادا کرکے مسلم ریاست میں امان لی ہوئی تھی کہ رومن سلطنت کے حملے کا اندیشہ ہوا۔ حالات دیکھ کر مسلم فوج کے کماندار ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ کو محسوس ہوا کہ عیسائیوں کی حفاظت کا سامان نہی ہوسکتا۔ ان حالات میں ان سے لیا گیا تمام جزیہ واپس کردیا گیا۔ اس عمل سے عیسائی اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے مسلمانوں کی فتح کے لیے دعائیں کیں کہ ان کے سابقہ حاکم تو لوٹ مارکیا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے لی گئی رقوم تک واپس کردیں۔

پروفیسر T۔ W۔ Arnold اپنی شہرہ آفاق کتاب the preaching of Islam میں رقم طراز ہے کہ ”جب اسلامی لشکر اردن کی وادی میں پہنچا اور ابو عبیدہ نے فحل کے مقام پر اپنے خیمے گاڑدیے تو ملک شام کے عیسائی باشندوں نے عربوں کو لکھا کہ اے مسلمانو! ہم تمہیں رومیوں پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ ہمارے ہم مذہب ہیں، کیونکہ تم ہمارے ساتھ عہد و پیمان کی زیادہ پابندی کرتے ہواور ہمارے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے ہواور بے انصافی سے احتراز کرتے ہو۔

اور تمہاری حکومت ہمارے اوپر ان کی حکومت سے بہتر ہے کیونکہ انہوں نے ہمارے گھروں اور ہمارے مال و متاع کو لوٹ لیا ہے۔ ”جزیہ کے بارے میں ایک بات اور واضح ہونی چاہیے کہ یہ وہ ٹیکس تھا جو اسلامی ریاست کے غیر مسلم مردوں پر عائد تھا۔ اس کی ادائیگی کے بعد وہ لوگ ریاست کے دفاع کے ذمہ دار نہ تھے بلکہ ریاست ان کی ذمہ دار تھی۔ عورتیں، بچے، معذور اور بوڑھوں کو اس ٹیکس سے استثناء حاصل تھا۔

اسلام عدل وانصاف قائم کرتا ہے۔ اسلام کی انصاف پسندی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ وقت کا حاکم اور خاندان نبوت کا روشن ستارہ، حضرت علی کرم اللہ وجہ اپنی زرہ کا دعوی قاضی کی عدالت میں ثابت نہ کرپائے اور یہودی کے حق میں فیصلہ سنادیا گیا۔ اس کی وجہ بس ایک ہی تھی کہ ان اصحاب کی تربیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ ہوئی۔ اسلام کے مزاج اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و خیالات کی تخم ریزی ایک ایسی شاندار زمین میں ہوئی کہ ایک اعلی اوصاف لوگوں کی جماعت تیار تھی جو امن، عدل وانصاف، اخلاقیات، رواداری اور افہام و تفہیم ایسی خصوصیات سے مزین تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).