پرسنل ہائیجین کے بارے میں چند باتیں اور میرے ذاتی تجربات


آفس میں میرے ایک کولیگ نے مجھ سے پوچھا؟

کیا پاکستانی سکولوں میں بھی ذاتی حفظان صحت کے متعلق پڑھایا جاتا ہے؟

میں نے مسکرا کر پوچھا کیوں؟ کیا ہوا؟

اُس نے جواب تو نا دیا مگر اس کے پاس سے ہو کر گئے ایک دوسرے کولیگ کی طرف اشارہ کر کے ناک چڑھا دی پھر مجھ سے دوبارہ پوچھا؟

میں نے کہا ہاں یار کیوں نہیں یہ تو عام فہم کی بات ہے اس پر تو ہر جگہ عمل کیا جاتا ہے۔

شاید اُسے یہاں کام کرنے والے اس کولیگ کے لباس سے بدبو وغیرہ آئی ہو یا شاید کچھ اور ناگزیر گزرا ہو تو اُس نے پوچھ لیا۔ خیر وجہ جو بھی ہو اب سوال یہ ہے کہ ذاتی حفظان صحت ہے کیا شے؟ اور کیا اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے؟ کیا اس کی کوئی اہمیت ہے؟

اس تحریر کے لئے میں نے کوئی ایسا کچھ خاص پڑھا تو نہیں ہے۔ بس وہ ہی لکھ رہا ہوں جو میں نے اپنے گھر اور سکول سے سیکھا۔ مجھے یاد ہے ہمارے ہائی سکول میں ایک سر فہیم ہوا کرتے تھے۔ وہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں بڑے ہی جابر قسم کے استاد تھے۔ پڑھاتے کم تھے مگر ہر ہفتے دانت، ناک، کان بال، ناخن، صاف یونیفارم، پالش جوتے ہر ایک چیز کو بڑی باریکی سے دیکھتے تھے۔ حتی کہ جرابیں اتروا کے چھڑی پے کپڑے سوکھانے کے انداز میں ڈال لیتے اور ناک کے پاس لے جا کے پھر انھیں سونگھتے۔ اور ذرا سی بھی بدبودار ہونے پر اُسی چھڑی سے پٹائی ہو جاتی۔

دوسرے استاد جو مجھے یاد پڑتے ہیں وہ تصور سر تھے۔ وہ بھی صفائی ستھرائی پر بڑا زور دیتے تھے۔ انھیں بالوں کا سولجر کٹ اتنا پسند تھا کہ ہر چار چھے مہینے بعد باربر (نائی) کو سکول میں ہی بلاوا لیتے۔ اور ایک ہی دفعہ سب تیس پینتس سٹوڈنٹس کا ایک جیسا ہی سولجر کٹ کروا دیتے۔

صحت کے باقی اصولوں جیسے متوازن غذا کھانا، ورزش کرنا، نیند پوری لینا وغیرہ کے ساتھ ذاتی حفظان صحت کی بھی چند ایک عام سی باتیں ہیں جو میرا خیال لازمی ہونی چاہیے۔ جیسے کے

روزانہ دانت برش کرنا یا مسواک وغیرہ کرنا۔

روزانہ نہانا اگر پانی کی کمی ہے تو گیلے کپڑے سے جسم کو صاف کرنا اور منہ دھو لینا۔

بالوں میں روزانہ کنگھی کرنا۔

کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا، کُلّی کرنا۔

کپڑے دھلے اور صاف ستھرے پہننا۔

ہو سکے تو خوشبو کا استعمال کرنا۔

ناخن کاٹنا اور بالوں کی کٹنگ کروانا۔

آنکھوں، ناک اور کانوں کی صفائی رکھنا۔

ٹائلٹ کے بعد صابن سے ہاتھ دھونا۔

جس جگہ کام کرتے ہیں اسے صاف ستھرا رکھنا۔

اپنے منہ کے آگے ہاتھ رکھ کے اپنے سانس کو سونگھنا اگر لگے کہ سانس بدبودار ہے تو لوگوں سے ملتے وقت دوری رکھنا یا ماسک پہننا اگر یہ مسئلہ مسلسل برقرار رہے تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنا۔

کھانستے اور چھینکتے وقت منہ کو کور کرنا۔ وغیرہ شامل ہیں۔

مجھے یاد ہے میں نے خود کبھی ان باتوں پر عمل نہیں کیا تھا۔ کھیل کود اور آوارہ گردی کے بعد جب گھر پہنچتا تو گندے پاؤں لئے ہی بستر پر چڑھ جاتا۔ ہفتہ ہفتہ دانت نا صاف کرتا۔ گردن پے آگے پیچھے میل جمی رہتی۔ لمبے عجیب وغریب بال چھوڑے رکھتا اور کھانا کھانے سے پہلے کبھی ہاتھ دھونے کی بھی پرواہ نا کرتا۔ یہاں تک کے میں نہاتا نہیں تھا اور اماں بہت زور دیتیں کہ اب تم اپنا آپ سنبھال سکتے ہو خود کو صاف ستھرا رکھا کرو اور پھر پانچ روپے کا نوٹ دیتیں تو میں نہاتا۔

بات یہ ہے کہ ہم وقت کہ ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں سیکھتے رہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ عقل آتی جاتی ہے۔ ابھی بھی ان باتوں پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر میرے خیال ہمیں جتنا زیادہ ہو سکے ذاتی حفظان صحت کی باتوں پر خود بھی عمل کرنے کے کوشش کرنی چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی عمل کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔

اب کچھ اور بینادی چیزیں جو شاید ذاتی حفظان صحت میں شامل تو نا ہو پر کرنے سے ایک ذمہ دار فرد ہونے کا ثبوت دیتیں ہیں۔

اپنی جرابیں اور میلے کپڑے اتار کر یہاں وہاں مت پھینکنا۔

کھانا کھانے کے بعد اپنے جھوٹے برتن خود اٹھانا۔

اپنے بستر کی چادر خود ٹھیک کرنا اور کمبل بھی خود تہہ کرنا۔

اور گھر کے دوسرے عام کاموں میں ہاتھ بٹانا وغیرہ۔

خواہ آپ کا کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ان چند سادہ اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرنے سے ایک تو شخصیت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں اور دوسرا آپ بیمار کم پڑتے ہیں۔ گھر کے دوسرے لوگوں پر کام کا بوجھ کم پڑتا ہے۔ اور سب سے بڑا کر بہت سی جگہوں پر شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).