پیاسا کوا


ایک پیاسا کوا درخت کے سایے میں بیٹھا اپنی چونچ کو کھولے ہوئے، نہ جانے کس کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ کسی کی نظر اس پر نہیں پڑ رہی، کوئی بھی اس کی پیاس نہیں بجھا رہا تھا۔ میں اسٹاپ پہ بیٹھا بس کے آنے کا انتظار کر رہا تھا اور وہ کوا میرے بائیں ہاتھ کی طرف درختوں کے سائے میں تھا۔ گرمی اتنی تھی کہ میری قمیض پسینے سے بھیگی ہوئی تھی اور میں پانی کے بنا گھر سے نہ نکلتا تھا۔ کوے کی پیاس کو دیکھتے ہوئے میں نے بیگ سے بوتل نکالی اور پانی کو ایک درخت کے کنارے پہ اس کوے سے کچھ فاصلے پہ گرا دیا کہ کوا ڈر کے اڑ نہ جائے اور پانی بھی کناروں پہ ٹہرا رہے۔

میں واپس جب اپنی جگہ پہ آیا تو میں نے دیکھا کوا پانی کی طرف آ رہا ہے، اتنے میں میری بس بھی آ گئی تو میں بس میں بیٹھ گیا۔ میری سوچ کے محور نے اپنا پہیہ گمایا اور میں سوچنے لگا کے وہ کوا پیاسی نگاہوں سے سب کوکیوں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کوئی اس کی پیاس کیوں نہیں بجھا رہا تھا، ہر کوئی اپنی دنیا میں مست اس کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس کے پاس سے بہت سی گاڑیاں، موٹر سائیکل اور پیدل لوگ گزر رہے تھے۔ وہ بھی سوچتا ہوگا کہ یہ دنیا بھی کتنی مصروف ہو گئی ہیں، انسان کتنے بیوقوف ہو گئے ہیں، یہ ایک ایسے صحرا میں پھنس گئے ہیں، جس کے چاروں اطراف مٹی کی دلدل ہو اور وہ اس میں دھنستے جا رہے ہو۔ انسان اپنے ارد گرد خوشیوں کو تلاش ہی نہیں کر رہا۔

میری سوچ کے محور نے ماضی کے دروازے کھول دیے اور مجھے وہ پری یاد آ گئی، جس کے آنگن میں، میں بھی کبھی پیاسا بنا بیٹھا رہتا تھا۔ جس پری کی حسین آنکھوں نی مجھے قید کر لیا تھا اور میں اس قید خانے میں پیاسا نہ جانے کتنے دن کاٹے تھے اور اب بھی تو میں قید ہوں اس ہی قید خانے میں، کہتے ہے کہ انسان جب ایک جگہ بہت سا وقت کاٹ لیتا ہے تو پھر وہ اس جگہ کو چھوڑ بھی دیں پھر بھی انجانے میں اس ہی جگہ واپس آ جاتا ہے۔ مجھے اب بھی یاد ہے جب میں اپنی پیاس لئے اس کے راستے میں رکاوٹ بن کے، اس سے محبّت کا سوال کرتا تھا؟ اس کے لبوں پہ خاموشی ہوتی تھی، نہ جانے کیوں اس نے اپنی خاموشی نہیں توڑی تھی۔ نہ محبّت کا اقرار کیا تھا اور نہ انکار۔

بس نے مجھے میرے اسٹاپ پہ اتار دیا تھا اور اب میں لاہور کی طرح کی گلیوں سے گزر رہا تھا۔ ان گلیوں سے گزرتا ہوا میں اس حسین پری کے گھر کی گلی میں کھڑا تھا ویسے ہی جیسے پرندے سورج کی روشنی مدھم ہونے پر اپنے اپنے گھروں میں آتے ہیں۔ میں بھی اپنے گھر جیسے گلی میں محبّت کا سوال لئے کھڑا تھا۔ مغرب کی آذان ہونے کو تھی۔ اس پری صفت سے ایک بار پھر سے ٹکرانے کے لئے میں تیار تھا۔ سوچا کے آج بول دوں گا کہ مجھے اپنی قید سے آزاد کر دو، میری محبّت کو کوئی نام دے دو یا پھر میرے دل کی آوازوں کو بند کر دو ہمیشہ کے لئے۔

میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ میرے اندر سے الارم بجا اور میں الرٹ سا ہوگیا اور پھر میں ایسے ہی الرٹ سا بنا رہا، کچھ نہ بول پایا، سب خیالات بھول گیا۔ اس کی وہ آنکھیں ہمیشہ کی طرح ویسی ہی آنکھیں تھی جیسے رات بھر خواب دیکھتی ہو، آج بھی ویسا ہی سفید لباس پہنا ہوا تھا جیسا اس دن تھا جب میں نے پہلی دفع حسین پری کو دیکھا تھا اور اپنا وجود کھو بیٹھا تھا، ابھی بھی وہ ویسی ہی پری لگ رہی تھی لیکن آج اس کی آنکھوں میں میرے سب سوالوں کے جواب تھے جنہیں میں پڑھ چکا تھا۔ اس نے اپنی خاموشی نہیں توڑی تھی وہ ویسے ہی خاموشی سے چلی گئی اور ایک موٹر سائیکل پر بیٹھے لڑکے کے ساتھ بیٹھ گئی جو اس کا انتظار کر رہا تھا، اس سے پہلے تو وہ کبھی ایسے کسی لڑکے کے ساتھ نہیں بیٹھی تو یہ کون ہے؟

میں اس کی آنکھوں کے جواب کو سوچ رہا تھا اور مجھے یقین نہیں آ رہا تھا ایسے کیسے ہو سکتا ہے، میرے اندر جلتی آگ مزید بھڑک اٹھی تھی، اس نے میرے سب سوالوں کے جواب دے دیے تھے، میری محبّت کو الوداع کہہ گئی تھی، اپنی مجبوری بیان کر گئی تھی، مجھے ایسا لگا جیسے اپنے قیمتی آنسوؤں کو ضائع کرتی ہوئی کہہ رہی ہو، سلیم مجھے معاف کر دو میں تمہاری محبّت کے قابل نہیں ہوں، میں کسی اور کی زندگی کے سفر کی ہمسفر بننے پہ مجبور ہوں، میں تمہارے سفر کی ہمسفر تو دور میں تمہارے سفر میں شامل بھی نہیں ہو سکتی اور مجھ سے میری التجا سنے بنا ہی چلی گئی ہو۔

مجھے لگا میرے دل نے دھڑکنا بند کر دیا ہو، میرے دل کی آوازوں کا جیسے کسی نے گلا گھونٹ دیا ہو۔ میرا دل چاہا کہ بھاگ جاؤں، کہی دور چلا جاؤں جہاں مجھے کوئی ڈھونڈ نہ پائے۔ مجھے نہیں معلوم میں نے وہ رات کیسے گزاری۔ مجھے ہوش تب آیا جب میں رحمان بابا کو ڈھونڈتا ہوا پارک میں پہنچا تو بابا جی ہمیشہ کی طرح ویسے ہی اپنی نششت پہ بیٹھے ہوئے ملے، جیسے صدیوں سے انہوں نے اس ہی نششت کو بسیرا بنایا ہو۔ میں نے انہیں سلام کیا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا،

وعلیکم سلام، سلیم میاں کیسی گزر رہی ہے؟ انہوں نے میری طرف نظر بھر کے دیکھتے ہوئے کہا

آپ کی دعا سے سانس لے رہا ہوں۔ میں نے نظر نیچی ہی رکھتے ہوئے جواب دیا

بابا جی کیا زندگی میں صرف سانس لینا ہی ضروری ہے؟

ہم جو زندگی سے چاہتے ہیں وہ ہمیں کیوں نہیں ملتا؟

آپ تو جانتے ہے، مجھے محبّت کی پیاس کا مرض لاحق ہے اور یہ مرض کم نہیں ہو رہا ہے۔ میں پانی کی بوتل ہر وقت ساتھ رکھتا ہوں پر میرے اندر جلتی آگ کی تپش کم نہیں ہو رہی ہے۔ اس تپش کو کم کر دیں، یہ تپش مجھے جلا رہی ہے ہر پل۔

میں نے بابا جی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے سوال کے ساتھ التجا کی، جیسے کسی کو اس کا رہنما مل جائے تو وہ اس سے اپنے دل کی سب باتیں کہہ دیتا ہے۔

اس تپش کو کوئی اور راہ دیکھا دو۔ تلاش کرو کہ قدرت کا کیا پیغام ہے تمہارے لئے۔ جب تمھیں تمہاری تلاش مل جائے گی تو تمہارے اندر جلتی یہ آگ بھی ٹھنڈی ہوتی جائے گی۔ بابا جی نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے آخری جملہ بولا، قدرت تم سے خاص کام لینا چاہ رہی ہے شہزادے۔

بابا جی کی اس بات نے میرے اندر جلتی ہوئی شمع کو ایک نئی راہ دیکھا دی تھی۔ اس راہ کی تلاش میں، میں اب بھی اپنی ہی بوتل سے مخلوق خدا کی پیاس بھجانے کی کوشش کر رہا ہوں۔

معز رحمان
Latest posts by معز رحمان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).