جب برف سے ہم نے باتیں کیں


کچھ مناظر ہماری روح کو مُسکراہٹ بخش دیتے ہیں، ہماری آنکھوں میں رنگ بھر دیتے ہیں اور ہمارے دلوں کو سکون سے نوازتے ہیں۔ ان سکون بھرے رنگوں اور مسکراہٹوں کے ساتھ ہم زندگی کے بدصورت لمحوں کو بھی ہنس کر گزار لیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی سکون میری روح میں بھی اُترا تھا جب لکھاریوں کی ایک تنظیم اپوا سے جُڑے چند لکھاریوں نے سفید رنگوں سے بھری ایک وادی میں اپنے قدموں کو اُترنے کی دعوت دی۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے چند دوستوں کے ساتھ برف کے ساتھ کچھ لمحات گزارنے کا ارادہ بنا اور محض چند ہی دن بعد وہ ارادہ عملی شکل میں ہمارے ساتھ چل رہا تھا۔

جمعے کی رات قلم قبیلے سے جُڑے نو لکھاریوں کے ایک گروپ نے ہنستے مسکراتے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ہم تمام لوگ ہی شاعری اور موسیقی سے بہت لگاوٗ رکھتے تھے اس لئے سفر کے دوران بوریت کا احساس بالکل بھی نہیں ہوا۔ الصبح ہمارا قافلہ ایبٹ آباد کی سرد فضاوٗں میں داخل ہو گیا۔ شہر بے مثال کی خوشبو نے ہمیں بتا دیا کہ اب محبت ہماری ہمسفر ہے۔ خوشبو نے آواز دی اور ہم نے اپنے قدموں کو خوبصورت راستوں کے حوالے کر دیا۔ ابھی فجر کی آذانیں نہیں ہوئی تھیں۔

شہر میں داخل ہوتے ہی ایک پُراسرار سی خاموشی نے ہمارا استقبال کیا۔ یہاں کے ایک مقامی ہوٹل سے ناشتہ کرنے کے بعد ہمارا اگلا پڑاوٗ محبت سے گندھے چند لوگوں کا گھر تھا۔ اس گھر میں مسز میجر شہباز نے ہمارا استقبال کیا جو کہ معروف لکھاری فلک زاہد کی خالہ بھی ہیں۔ اس پورے سفر میں اُن کا خلوص اور اپنایئت ہمارے ساتھ ساتھ رہی۔ اُن کے گھر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم سب اپنی منزل پر جانے کے لئے پُرعزم تھے۔ ایبٹ آباد سے ٹھنڈیانی تک کا سفر دو سے ڈھائی گھنٹے تک کا ہے جس کے لئے ہم نے ایک کیری ڈبہ بُک کروایا۔

ایبٹ آباد میں آپ کو رکشے بالکل نہیں نظر آیئں گے۔ یہاں کیری ڈبہ ہی مقامی ٹرانسپورٹ کا کام کرتا ہے۔ یہاں آپ کریم کی سروس کے ذریعے بھی کیری ڈبہ منگوا سکتے ہیں۔ ایبٹ آباد سے ٹھنڈیانی تک کا راستہ بہت خوبصورت ہے۔ ان دنوں سردی اپنے عروج پر ہے اس لئے بہتر ہے کہ مفلرز، دستانے، ٹوپی، لانگ کوٹ، اور برف پر چلنے کے لئے لانگ شوز یا پھر جوگرز کا استعمال کریں۔ سرد ہواوٗں سے اٹکھلیاں کرتے ہوئے ہم ٹھنڈیانی کی فضاوں میں داخل ہو گئے۔

ٹھنڈیانی کیا ہے۔ یہ برف سے ڈھکا ہوا ایک جزیرہ ہے۔ یہاں کی برف میں محبت ہے، خوشبو ہے، رنگ ہے، یہاں آپ کو چاہت بھری کئی داستانیں بھاگتی دوڑتی نظر آیئں گی۔ ٹھنڈیانی پہنچتے ہی ہمیں یوں لگا جیسے یہ سفیدپری نجانے کتنے برس سے محض ہماری ہی منتظر تھی۔ ہمارے ہاتھوں نے اسے اپنے لمس سے آشنا کیا تو یہ یوں مُسکرا اُٹھی جیسے اسے ہماری ہی خوشبو کی تلاش ہو۔ کبھی یہ مُسکرا کر میرے ہاتھوں سے پھسلتی تو کبھی مہوش کے چہرے کو چھو کر گزر جاتی کبھی یہ فلک کے کندھے پر سر ٹکاتی تو کبھی عینی کی زلفوں میں پناہ ڈھونڈتی کبھی حفظہ کے گاوٗن میں چھپ کر بیٹھ جاتی کبھی علی بھائی کے ساتھ کھیل کر خود کو فنا کرتی تو کبھی طاہر بھائی کی باتوں میں رنگ بھر دیتی۔

برف کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کرنے کے بعد ہم نے واپسی کی راہ لی۔ واپسی پر ہم نے ایبٹ آباد کے مشہور چپلی کباب کھائے جو واقعی میں بہت لذیذ تھے۔ ٹھنڈیانی سے واپسی پر کچھ دوستوں کی طبعیت بھی خراب ہو گئی۔ ایبٹ آباد میں ہم ایک بار پھر مسز شہباز کے گھر موجود تھے جہاں ہمارے ان دوستوں نے کچھ دیر آرام کیا۔ رات کو ہم نے ایبٹ آباد کی الیاسی مسجد کے پکوڑے کھائے۔ الیاسی مسجد کے ساتھ ہی یہاں پکوڑوں کے بہت سے سٹال آپ کو نظر آییں گے جہاں مختلف اقسام کے پکوڑے آپ کا استقبال کرنے کو موجود ہوں گے۔

یہاں کے پکوڑوں کا ذایقہ لاجواب ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں کا ارادہ بن رہا تھا کہ رات میں ہی اس شہر کو الوداع کہا جائے مگر اس شہر کی خوشبو نے ہمیں روک لیا دور کہیں گلیات کے پہاڑ وں کی آوازیں بھی ہمارا راستہ روکے کھڑی تھیں اس لئے یہی فیصلہ ہوا کہ کچھ مزید وقت اس شہر محبت میں گزارا جائے۔ رات کا ڈنر مسز شہباز کے ساتھ کیا۔ اُن کی باتیں اور پھر کچھ دوستوں کی شاعری نے اُن لمحات کو یادگار بنا دیا۔ اگلی صبح ناشتہ کرتے ساتھ ہی ہم نے اپنی منزل گلیات کا رخ کیا۔

اپوا کے سنیر وائس پرئزیڈنٹ ایم ایم علی کی طبعیت بہتر نہیں تھی۔ اس کے باوجود وہ آگے آگے رہے اور اُن کی وجہ سے باقی ممبرز کا حوصلہ بھی بڑھتا رہا۔ اگر آپ نے خوبصورت نظارے دیکھنے ہیں تو ایک بار گلیات ضرور آیئں۔ گلیات کچھ خوبصورت علاقوں پر مشتمل ایک ڈویژن ہے۔ نتھیاگلی، ڈونگاگلی، گھوڑا گلی جیسے جنت نظیر علاقے گلیات کا حصہ ہیں۔ گلیات جانے کے لئے بھی ہم نے کوسٹر بُک کروائی تھی۔ جس نے نہایت مناسب ریٹس میں گلیات کے ساتھ ساتھ ہمیں مزید کچھ علاقے بھی دکھا کر اس سفر کا لطف دوبالا کر دیا۔

کوسٹر کا ڈرایؤر بھی شاعر تھا جو ہمیں پورے راستے اپنی شاعری سناتا رہا۔ نتھیاگلی وہ جگہ تھی جہاں ہمارا قافلہ اُترا۔ برف کا وسیع میدان ہمارے قدموں تلے تھا۔ نتھیاگلی کی ہوایئں ہماری رازدان تھیں۔ برف کو حال دل سناتے ہمیں کچھ ہی دیر گزری تھی کہ برف نے ہمیں بھگونا شروع کر دیا۔ گرتی برف کے ساتھ گلیات کی ہواوٗں کی سرگوشیاں ان لمحات کو امر کر رہیں تھیں۔ برف نے ہمیں اپنا رازدان بنا لیا تھا۔ ہم معتبر ہو چکے تھے۔

مگر ہمیں اب نکلنا تھا کیونکہ برف کی رفتار بہت تیز ہونے لگی تھی۔ برف پر اپنے پیاروں کے نام لکھنے کے بعد برف کے اس شہر پر ایک اُداسی بھری نگاہ ڈال کر ہم اپنی کوسٹر میں سوار ہو گئے۔ حفظہ نے کچھ برف اپنے ساتھ لے لی۔ برف کو کھاتے ہوے وہ بہت خوش لگ رہی تھی جیسے یہ برف اب اُسے کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑے گی۔ ان علاقوں میں پڑنے والی اس برف کو مقامی لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں بلکہ یہ برف فروخت بھی ہوتی ہے۔ واپسی پر کچھ وقت ہم نے خان پور ڈیم میں بھی گزارا۔

یہ جگہ میرے لئے بہت خاص بن گئی تھی کیونکہ یہاں کسی نے اپنے آنسو میرے ساتھ بانٹے تھے۔ خان پور ڈیم ایک اچھا پکنک پواینٹ ہے۔ خان پور ڈیم کے بعد ہمارا اگلا پڑاوٗ فیصل مسجد اسلام آباد رہا۔ بارش میں مسجد کے گیلے فرش پر بغیر جوتوں کے ساتھ چلنے کا تجربہ بھی یادگار رہا۔ لاہور واپسی پر ہماری بس آدھی رات کے قریب کھیوڑہ اور کلرکہار کے پہاڑوں کے درمیان کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک رکی رہی۔ یہ تجربہ بھی ناقابل فراموش ریا۔ الصبح ہم لاہور پہنچے۔ گو کہ مجھے واپس آئے ہوے بہت دن گزر چکے ہیں مگر برف کے ساتھ گزارے گئے اُن لمحات کی خوشبو میرے ساتھ موجود ہے اور ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).