بے زبان کو زبان ملے گی؟


ڈاکٹر خان علاقے کے ہر دل عزیز ڈاکٹر ہیں آدھا مرض تو ان کی شفیق اور مہر با ن آواز سے ہی رور ہو جا تا ہے، لہذا ان کے کلینک پر مریضوں کا رش ہو نا کوئی اچھمبے کی بات نہیں تھی، ایک تجربہ کار اور قابل ڈاکٹر کی تمام خوبیوں کے ساتھ مناسب پیسوں میں علاج کا مرکز ان کا کلینک ہے۔

کلینک پر مریضوں کا جم ِغفیر تھا، میں کافی دیر سے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی پھر بھی میرا نمبرابھی دو مریضوں کے فاصلے پر تھا، کلینک زیادہ بڑا نہیں ہے لہٰذا سب مریض مرد و زن آمنے سامنے ہی بیٹھے ہوتے ہیں اس لیے کس کو کیا مرض کب سے لاحق ہے اس بات کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں ہوتا اور ویسے بھی لمبی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنے والے ٹائم پا س کرنے کے لیے اپنی اپنی آپ بیتی سناتے ہیں۔

قصہ مختصرکلینک پر موجود کسی مریض کو زکام کی شکا یت تھی توکسی کو جلاب کی مگر ہاں بیماری کے باوجود سب میں زندگی کی امنگ تھی سوا ایک کے۔ سرخ جوڑے اورمیرون چادر میں ملبوس ایک قریب 17 سال کی لڑکی، گوری چٹی، لمبے بال، بڑی بڑی آنکھیں اور ان آنکھوں میں صرف اداسی کوئی زندگی کی رمق ہی نہیں۔

باری کی لائن میں آگے بڑھتے ہوئے وہ میر ے برابر میں تھی اس کا بدن انگارے کی طرح دہک رہا تھا، کرب و تکلیف اس کے چہرے سے عیاں تھی مگر وہ سب کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اس کے پہناوے اور چہرے کے خدوخال سے یہ اندازہ لگا نا مشکل نہ تھا کہ وہ کراچی کی نہیں ہے بلکہ کسی انٹیریر علاقے سے ہے چہرے پر مایوسی کے ساتھ خوف اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے سکڑی سمٹی بیٹھی لڑکی کو دیکھ کر کئی قیاس آرائیاں لوگوں کے چہروں پر نمایاں تھیں مگر خدا جانے اس کے کہاں اور کیسا درد ہورہا تھا جس کی وہ تاب نہیں لا پا رہی تھی ایک دو معتبر خواتین نے پوچھنا بھی چاہا تو وہ بت بنی بیٹھی رہی۔

اس کا نمبر آیا تو مردانہ سائڈ سے ایک لمبا چوڑا دیو ہیکل آدمی نمایاں ہوا اور اس کے قریب آ کر کھڑا ہوگیا اب وہ لڑکی بول رہی مگر ڈاکٹر سے نہیں بلکہ اس آدمی سے کیونکہ وہاں اس بے زبان کی زبان سمجھنے والا سوا اس کے کو ئی اور نہ تھا، ( وہ اردو بولنا نہیں جانتی تھی) وہ رو رو کے اپنی زبان میں خدا جانے کیا کیا اس آدمی کو بتا رہی تھی لہجہ میں اتنی التجا تھی کہ صاف سمجھ آرہا تھا کہ جیسے کہہ رہی ہے کہ ڈاکٹر کو یہ بھی بتاؤ اور وہ بھی۔

مگر وہ آدمی صرف ایک ہی با ت بول رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس کو ٹھیک کرو، دوا دو، سوئی لگاؤ مگر ٹھیک کرو پورے 40 ہزار میں خرید کے لایا ہوں۔

ڈاکٹر صاحب نے سمجھانے کی غرض سے کچھ کہنا چاہا تو ڈاکٹرکو یہ کہہ کر چپ کر دیا کہ آپ اپنا کام کرو بس اس کو ٹھیک کرو 40 ہزار کی لایا ہوں۔ آپ کو علاج کرنا ہے تو کرو ورنہ میں کہیں اور لے جاتا ہوں۔

میرا دماغ ماوف ہوگیا وہ لڑکی، ایک دم سے سب سمجھ آگیا کے کیا ماجرہ ہے، اس لڑکی کا کیا دکھ ہے، مگر اللہ جانے اس کو ایسی کیا تکلیف لاحق تھی جو وہ بار بار اس اوباش کا بازو پکڑ کر آنکھوں میں آنسو لیے اسے اپنی زبان میں بتا رہی تھی اور وہ اس کا ہاتھ جھڑک کر کبھی دھمکی کے انداز میں تو کبھی تھوڑا دھیما ہو کے ایک ہی رٹ لگا ئے ہوئے تھا کہ تو چپ  کر، اور وہ لڑکی زبان ہونے کے باوجود بے زبان تھی۔

عورت کا ایسا استحصال یہ کیا ہے ہم 21 ویں صدی کے لوگ سائنس اور ٹکنالوجی کی باتیں کر نے والے، ستاروں پر کمند اور فضاوں کو فتح کرنے والے، خود کو آزاد ملک کے آزاد باسی کہنے والے یہ کیا ہے جہاں آج بھی عورت بک رہی ہے اور خریدنے والا پہلے اس کو بیمار کرتا ہے اور پھر معالج کے پاس بھی اس ہی لیے لاتا ہے کے اس نے اس کو خریدا ہے کیا ہے یہ سب؟ آخر کس نے اس کو کس نے بیچا ہوگا، کیوں بیچا، کتنے انگنت سوالات ہیں اور جواب کچھ بھی نہیں۔ کیا مجبوری ہے انسان کی کے وہ اپنی تکلیف خودنہیں بتا پا رہا ہے بلکہ کسی کی منت سماجت کر رہا ہے کہ وہ بتا دے۔

یہ درست ہے کے آج بھی ہمارا معاشرہ مغرب کے معاشرے لاکھ گنا اچھا ہے آج بھی جو عزت جو مقام ہمارے معاشرے میں عورت کو حاصل ہے وہ کسی اور معاشرے میں حاصل نہیں ہے۔ مگر اس ہی معاشرے کی ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے، یہ اس ہی معاشرے کا ایک مکروہ چہرہ ہے جہاں عورت کو صرف چند روپوں کے لیے کسی بھی گدھ کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو اس وقت تک اس کی بوٹیاں نوچتا رہتا ہے جب تک اس میں ذرا سی بھی جان باقی ہو۔

میں نے ڈاکٹر خان سے اس حوالے سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ کلینک کے بیک سائیڈ پر گوٹھ ہے وہاں سے زیادہ تر ایسے ہی کیسسز ان کے پاس آتے ہیں، یہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے، گاؤں سے اس لڑکی کو لایا ہے اور اب دن رات اس کے جسم سے اپنے چالیس ہزار وصول کرتا ہے۔

سوال وہ ہی ہے کہ آخر کب تک ایسے ہی چلتا رہے گا؟ آخر کب تک حوا کی بیٹی کہیں نہ کہیں آدم کے بیٹوں کے ظلم اورہوس کا نشانہ بنتی رہے گی؟ آخر کب سب اسلام اور اس کے متعین کردہ راستے پر چلیں گے؟ کب شعور کے دروازے کھلیں گے اور بے زبان کو زبان ملے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).