سلیم شاہد کی شعری کلیات: زرِ رہگزر


’’زرِ رہگزر‘‘ سلیم شاہد کے شعری کلیات کا نام ہے۔ زر سے شروع، زر پر ختم اور درمیان میں رہ۔ سیاق اور سباق کی یہ عجوبگی سلیم شاہد کی ساری شاعری میں موجود ہے۔ شاعر نے زندگی کرنے کے لیے شاعری کو چنا اور پھر جیون بھر اپنے شوق کے ساتھ رہا۔ اس کلام نے بیسویں صدی کے ساتویں اور آٹھویں عشرے میں اپنا چہرہ دکھایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نئے ملک کو وجود میں آئے چند عشرے ہی ہوئے تھے۔ ابھی دونوں اطراف میں بسنے والوں کے لیے لڑائی میں ملنے والی لاشوں اور جسموں پر لگنے والے زخموں کے نشان تازہ تھے کہ پینسٹھ(65ء) کا واقعہ ہو گیا پھر صرف چھے سال بعد اکہتر(71ء) آگیا۔ اس تمام صورتِ حال میں سلیم شاہد کی شاعری نے اپنی نمود کی۔ زندہ رہنے کے لیے جو زندگی اُن کے حصے میں آئی، اُس پر بلاؤں کا پہرا رہا۔ ’’صبحِ سفر‘‘ کے بارے میں لکھتے ہوئے محمد سلیم الرحمٰن نے سلیم شاہد کو پڑھنے کا سلیقہ بتایا ہے:

’’سلیم شاہد کی غزلوں میں جس شے کا ذکر گرم ہے وہ اپنے آئینے میں ہر طرف اور ہر وقت آندھیوں، آتش زدگیوں، قحط، جنگ کے خوف، تنہائی، اپنی حد سے تجاوز کرنے والے ریگزاروں، پا بہ رکاب بہاروں اور تن بہ تقدیر عشاق کی تصویریں دیکھتا دکھاتا، سہم اور گھٹ کر ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جہاں بے آہنگی، سیلن کی طرح کوچہ و بازار میں رچتی جا رہی ہے۔‘‘

اس خیال کی چاپ میں ایک شعر دیکھیں:

شاہدؔ کہاں سے ہو کے گزرتی ہے آبِ جو

رنگت تمام سرخ ہے کیوں سطحِ آب کی

میں نے سینتالیس (47ء) کا واقعہ نہیں دیکھا۔ مگر یہ شعر پڑھنے کے بعد مجھے انسان کہلاتے حجاب سا آتا ہے۔ اِس شاعری میں ایک انسان ہر اُس انسان کی زندگی جیتا نظر آتا ہے جو تنہائیوں کا مارا ہوا ہے اور تنہائی کی یہ کیفیت شوقیہ طاری نہیں کی بل کہ اس کے پیچھے عدم مساوات کی وہ رَو ہے جس نے زمین کو سرخ کر دیا۔ زمین سرخ دیکھنے کا یہ شوق ابھی ختم نہیں ہوا۔ دونوں ملک ایٹم بم لے کر ایک دوسرے کو دکھاتے رہتے ہیں۔ بم نہ ہوا، بہلاوا ہوا۔ سلیم شاہد کی شاعری کی طرح اُن کی شخصیت بھی منفرد تھی۔ سلیم شاہد نے رسمی تعلیم بالکل بھی حاصل نہیں کی تھی۔ اُس زمانے کا تو پتا نہیں البتہ آج کل میں دیکھا جائے تو رسمی تعلیم کی حیثیت وقت کے ضیاع سے زیادہ نہیں۔ تعلیم حاصل کرنے کے نتیجے میں حاصل کی جانے والی اسناد کی حیثیت فیس کی وصولی کی رسیدیں بن چکی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ یہ لمبی کہانی ہے۔

جیسا کہ ذکر کیا کہ سلیم شاہد نے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لازمی بات ہے کہ پھر انھوں نے معاصر شاعری یا کلاسیکی شاعری کو نہیں پڑھا ہوگا۔ اگر اپنے طور پر پڑھا یا سنا ہوگا تو وہ کم ہو گا۔ پھر اس طرح کے شعر لکھنا کہ جن کو پڑھنے کے بعد عصر کی پوری حسّیت آنکھ میں تیر جائے، کسی معجزے سے کم نہیں۔

کچھ مَیں شجر سے ٹوٹ کے بے خانماں ہوا

ہاں کچھ ہوا نے بھی مری مٹی خراب کی

احتیاطاً دیکھتا چل اپنے سایے کی طرف

اس طرح شاید تجھے احساسِ تنہائی نہ ہو

صبحِ سفر کا راز کسی پر یہاں نہ کھول

طوفاں ہے، پانیوں میں ابھی بادباں نہ کھول

باہر جو مَیں نکلوں تو برہنہ نظر آؤں

بیٹھا ہوں مَیں گھر میں در و دیوار پہن کر

قید میرے جسم کے اندر کوئی وحشی نہ ہو

سانس لیتا ہوں تو آتی ہے صدا زنجیر کی

ان شعروں کو پڑھنے کے بعد عہد کی پوری تصویر بنتی نظر آتی ہے۔ شاعری خلاصے یا مرکزی خیال کا سوال تو ہوتی نہیں۔ بس اس میں اپنے وجود کو شامل کر کے یافت کا سامان کیا جاتا ہے۔ ایک اعتبار سے شعر کو پڑھنے کے بعد قاری کو ملنے والا غم یا خوشی اس کا اپنا باطنی سرمایہ ہی ہوتا ہے۔ شاعر اُسے انگیخت کرتا ہے اور اس تحریک کے نتیجے میں داخل میں ایسی لہریں بنتی ہیں کہ افراد لہری بابو بن جاتے ہیں۔ شعر ستار کی وہ تان بن جاتا ہے جو ایک چوبِ خشک میں کئی ذائقے بھر دیتا ہے۔

’’صبحِ سفر‘‘ میں شاعر نے شہر کی متنوِّع صورتوں کی تصویر کشی کی ہے۔ شہر کا استعارہ ’’صبحِ سفر‘‘ کا بنیادی استعارہ ہے جس کی مدد سے شاعر وہ کچھ کہنے کے قابل ہوا ہے جو دیگر شعری سہاروں کی مدد سے نہیں دکھا سکتا تھا۔ سہیل احمد خاں نے ’’صبحِ سفر‘‘ کے دیباچے میں بتایا ہے: ’’شاعر اور شہر کی اس کشاکش کی وضاحت سلیم شاہد کی غزلوں میں جس شعری طریقِ کار کے ذریعے بیان ہوئی ہے، اُس میں ’’وجود‘‘ کے تلازمات اور تمثالیں زیادہ نمایاں ہیں جو اِن غزلوں کے تلازماتی تاروپود کو فرسودگی سے بھی بچاتی ہے اور نیا تلازماتی سانچہ بھی مہیا کرتی ہے۔‘‘

اس تمام صورتِ حال میں ان غزلوں میں بے لطفی پیدا نہیں ہوتی۔ شاعر اپنے ڈکشن سے ایک مرتبہ دکھائی ہوئی تصویروں کو اتنا مختلف کردیتا ہے کہ وہ ایک جیسی ہوتے ہوئے بھی ایک جیسی نظر نہیں آتیں۔ ایک کشادگی اِس کلام کے حصے میں آئی ہے۔ شہر کی پیش کش میں بعض پیکر ملاحظہ کریں:

یہ اکیلا پن تو شاہدؔ شہر کا آشوب ہے

یا کوئی تنہا نہ ہو، یا ہر جگہ ویرانہ ہو

زندہ لہو تو شہر کی گلیوں میں ہے رواں

شاہدؔ رگوں میں کون یہ محشر سمیٹ لے

دیکھا تو سارا شہر ہی طوفاں کی زد میں تھا

شاہدؔ مرے وجود میں کیا شے تھی موجزن

اب شہر کی اور دشت کی ہے ایک کہانی

ہر شخص ہے پیاسا کہ میسر نہیں پانی

میرے پیروں میں تو زنجیریں گلی کوچوں کی ہیں

مجھ سے ملنے شہر کی گنجان آبادی میں آ

قید شہرِ جبر میں شوریدہ سر ہوگا کوئی

دیکھنا اِس راہ کے اندر شرر ہوگا کوئی

یہ شہر ایک سطح پر تاریخ بنتا نظر آتا ہے۔ تاریخ کے ساتھ ہر طرح کی یادیں جڑی ہوتی ہیں۔ تلخ بھی، شیریں بھی۔ تاریخ کو یاد رکھے بغیر بھی چارہ نہیں ہوتا اور تاریخ کو بھولے بغیر بھی گزارہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک روشنی کی طرح ہوتی ہے جس میں اپنے آج کا چہرہ گزرے ہوئے کل کی مدد سے دھویا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تاریخی اور سیاسی شعور کا کاروبار کرنے والوں نے ادب سے ہٹ کر، تنقید کی کچی پکی کتابیں پڑھ کر، تاریخ کا شعور اپنے تئیں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اگر وہ یہ شعور فکشن، شاعری، ڈراما پڑھ کر کشید کرتے تو آج ادب پڑھنے والوں کا حلقہ اتنا محدود نہ ہوتا۔ ہم لوگوں میں پڑھنے کا شوق ہی پیدا نہیں کر سکے اور یہ شوق پیدا کرنا شوقیہ فن کاروں کا کام نہیں ہوتا جو اپنے مشکلوں سے بنائے ہوئے تعلقات کو استعمال کر کے جگہ جگہ ادب کے کیپسول بیچتے نظر آتے ہیں۔

سلیم شاہد نے تاعمر حرف کے ساتھ وفا کی۔ ہر طرح کے حالات میں لکھا۔ اپنے قلم کو مصلحت کا شکار نہیں کیا۔ اس خوبی نے اُن کے لہجے میں ایک وقار کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔

شورِ شکستِ شب کو سحر کیسے جان لوں؟

دیوار کے شگاف کو در کیسے جان لوں؟

دو ایک بار خواب سے باہر بھی آکے مل

میں ایسے تیرے عیب و ہنر کیسے جان لوں؟

قیدِ سفینہ میں مجھے کھینچے ہے موجِ آب

اب اس قیام کو میں سفر کیسے جان لوں؟

عجیب قابوسی فضا ہے جس میں شاعر سانس لینے پر مجبور ہے مگر امید پھر بھی رہتی ہے۔ کوئی وقت آئے گا، غم خوشی میں بدل جائیں گے۔ روٹھے ہوئے مان جائیں گے۔ وسوسے دم توڑ دیں گے۔ دلِ بے تاب کو بس ایک کام کرنا ہے۔

صبح کا دروازہ کھلتے ہی چلو گلشن کی سمت

رنگ اُڑ جائے گا پھولوں کا اگر تاخیر کی

کھینچ لے گا ابر سے بارش اگر سبزہ ہوا

تو کسی کی چاہ میں بے کار سودائی نہ ہو

’’صبحِ سفر‘‘، ’’خواب سرا‘‘، ’’شہرِ خیال‘‘ اور ’’شنید‘‘ کو دستاویز مطبوعات لاہور نے ایک جلد میں ’’زرِ رہگزر‘‘ کے نام سے چھاپا ہے۔ سلیم شاہد کی شاعری اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ شعر کہنے کی صفت ایک پُراسرار شے ہے اور اس کے لیے علم اور گہرا مطالعہ بعض اوقات ضروری نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).