طارق بشیر چیمہ، عثمان بزدار اور ماموں


بہاول پورکی تحصیل یزمان کے علاقہ ہیڈ راجکاں میں جو بھیانک واردات ڈال گئی ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ریاستی عوام کے گھروں کو آگ لگائی گئی ہے، خواتین پر بے پناہ تشدد کیاگیا، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ دو عورتوں کے بازوٹوٹ گئے جبکہ ایک کی حالت نازک بتائی جاتی ہے، اسی طرح متعدد خواتین زحمی ہیں۔ بہاول پور محبتوں کا علاقہ ہے، یہاں کے نوابوں اور عوام نے ہمیشہ زبان، رنگ، نسل اور ذات میں تقسیم کی حوصلہ شکنی کی ہے لیکن اب خاص گروہ کی طرف سے اقتدار کے نشہ میں کوشش کی جارہی ہے کہ چولستانی عوام میں خوف اور ڈر پھیلا کر زمینوں پر قبضے کیے جائیں، ایک اطلاع کے مطابق ایک خاص گروہ دوہزار ایکڑ اراضی پر قبضہ کرچکاہے لیکن ابھی تک وہ آگے بڑھ رہے ہیں، بہاولپور کی انتظامیہ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

ادھر وفاقی وزیرطارق بشیر چیمہ کی تردید کے باوجود اب تک کی اطلاعات کے مطابق انہی کے سو ڈیڑھ سو افراد نے اسٹنٹ کمشنر عابد لغاری اور پولیس کی موجودگی میں ہیڈراجکاں میں وہ بھیانک کھیل کھیلاہے کہ رہے نام اللہ کا۔ راقم الحروف کی بھی یہی خواہش ہے کہ طارق بشیر چیمہ اس کھیل میں شامل نہ ہوں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موصوف کا نام آ رہا ہے۔ اور ابھی تک کوئی غیر جانبدار شخص ان کی پشت پناہی نہ ہونے کی تصدیق نہیں کر رہا بلکہ ملتان، بہاولپور سے رپورٹ ہو رہا ہے کہ موصوف مبینہ طور پر قبضہ گروپ کے پیچھے ہیں اور انہیں کے ایماء پر ہو رہا ہے ۔

ادھر ملتان، بہاولپور سمیت دیگر علاقوں میں اس واردات کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہو رہا ہے۔ راشد عزیز بھٹہ جوکہ اس بھیانک کارروائی کو منظرعام پر لانے کے مرکزی کردار تھے، ان کو بھی دھمکیاں دی گئیں ہیں کہ خاموش رہو، ہم سمجھتے ہیں، اس کارروائی میں ملوث افراد کو سزادی جائی اور اس کوشش کو ناکام بنایا جائے کہ زبان، رنگ ونسل کی بنیاد پر بہاولپور جیسے پرامن علاقہ کو آگ کے حوالے کر دیا جائے۔ راقم الحروف کے لئے یہ بات بھی حیرت کا سبب ہے کہ بہاولپور کے ارکان اسمبلی قابل مذمت واقعہ پر آواز اٹھانے کی بجائے خاموش ہیں۔

کیا ان کی اس خاموشی کا یہ مطلب لیا جائے کہ ان کی نظروں میں گھروں پر دھاوا بولنا، ان کو آگ لگانا، عورتوں کی بے حرمتی کے ساتھ ان کے بازو توڑنا اورپھر ان کو نشانہ عبرت بنانا قبضہ مافیا کا جائز اقدام ہے؟ کیا بہاولپور کا پرامن معاشرہ ایسی وارداتوں کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول درست ہے؟ بہاولپور کی نواب فیملی کو اس بات کی داد دینی پڑے گی کہ انہوں نے تخت لہور اور اسلام آباد کے کارندوں کی طرف سے ان کو اکسانے کی ہرممکن کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کبھی زبان، رنگ اور نسل کی بنیاد پر بہاولپور میں تقسیم نہیں ڈالی ہے بلکہ اپنے آباد واجداد کی طرح سب کو محبتوں کو پیغام دیاہے، نواب صلاح الدین عباسی صاحب نے اپنی جیت کو سازش کے تحت ہار میں بدلنے پر بھی بہاولپور کی عوام کو متحد اور پرامن رکھا، اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ آج بھی بہاولپور کے عوام عباسی فیملی کی دل سے قدر کرتے ہیں اور سب کرتے ہیں۔

قیام پاکستان کے تھوڑے عرصہ بعد نواب فیملی کے لئے ایک امتحان یوں بھی آیاکہ طارق بشیر چیمہ کا والد 1953 میں بہاولپور قانون ساز اسمبلی کے لئے الیکشن لڑنے لگا تو دوسری طرف شہزادہ ہارون الرشید عباسی امیدوار تھے، اب سوال یہ تھاکہ نواب صاحب چودھری بشیرچیمہ کے شہزادہ کے خلاف امیدوار بننے پر کیاردعمل دیں گے؟ اتنظار ہونے لگا، بہاولپوری عوام بالخصوص آبادکار نواب صاحب کے فیصلہ کا انتظارکرنے لگے لیکن دلچسپ صورتحال اسوقت پیدا ہوئی کہ جب نواب صاحب نے اعلان کیاکہ وہ چودھری بشیر چیمہ اور شہزادہ ہارون الرشید کے حلقہ انتخاب میں کسی کی حمایت نہیں کریں گے بلکہ دونوں امیدواروں کے لئے میدان اوپن ہوگا۔

مطلب انہوں نے شہزادہ کی محبت میں آباد کاروں کی حوصلہ شکنی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کی تھی اور پیغام دیا تھا کہ کوئی ایک دوسرے پر برتری نہیں رکھتا۔ ہمارے خیال میں نواب بہاولپور کی طرف سے بہاولپور میں ہر رنگ، نسل اور زبان کے لوگوں کو جو بلا کر محبت دی گئی تھی، اس کو برقراررکھاجائے ناکہ قبضہ مافیا بہاولپور کے امن کو تباہ کر کے عوام کو دست وگریبان کروا دے۔ اس بات کو سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں جہاں جہاں بھی لسانی بینادوں پر اقتدار کو دوام دینے کے لئے فسادات اور قبضے کروائے گئے ہیں، ان کا انجام برا ہوا ہے، سیاست کے ساتھ عزت سادات بھی جاتی رہی۔

مناسب تھا کہ طارق بشیر چیمہ اپنے والد کے لئے نواب صاحب کی طرف سے قائم کی گئی مثال کو سامنے رکھتے اور ان غنڈوں جن کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، ان کے خلاف مقدمات درج کرواتے اور مثال قائم کرتے کہ کوئی شخص بہاولپور میں رنگ زبان اور برادری کی صورت میں دوسرے پر ظلم نہیں کر سکتا۔ اور نہ گھروں میں گھس کر عورتوں کے بازو توڑ سکتا ہے اور نہ ہی گھروں کو آگ لگا سکتا ہے۔

لیکن طارق بشیر چیمہ کی طرف سے ایسا نہ کرنے پر ان کی تردید کے بارے میں شکوک وشہبات بڑھ رہے ہیں۔ اور اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ موصوف کا دامن صاف نہیں ہے۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار سے جن کو امید تھی کہ وہ سرائیکی ہیں اور سرائیکیوں کے دکھوں کا مدوا کریں گے ان سے گزارش ہے کہ وہ عثمان بزدار سے پوچھیں کہ حضور آپ کے ماموں جوکہ بہاولپور میں اعلی پولیس افسر ہیں ان کی موجودگی میں سرائیکی لوگوں کے گھروں کو آگ کیوں لگائی گئی ہے؟ اور آپ نے اس صورتحال میں چپ کیوں سادھ لی ہے؟ کیا چولستان قبضہ مافیا کے کنڑول میں چلا گیاہے کہ وہ جس کے گھر کو چاہیں آگ کی تیلی دکھائیں اور قبضہ کرتے جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).