اگرصفیہ اور زبیدہ، رینا اور روینا بن جائیں


تصویر ہے کہ جگر چیر رہی ہے۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ جی چاہ رہا ہے کہ منہ نوچ لوں مگر کس کا؟

دو بارہ اور چودہ سال کی بچیاں، سہمی سہمائی، نہ صرف اپنا مذہب تبدیل کر نے کا اعلان کر رہی ہیں بلکہ دو مجہول سے مردوں کے ساتھ ازدواجی زندگی بھی شروع کر رہی ہیں۔

عورت ہوں، گائناکولوجسٹ ہوں پر یہ معلوم نہیں کہ بارہ اور چودہ سال جو ابھی بچپن اور لڑکپن کا دور ہے، جو گڑیوں سے کھیلنے کی لا ابالی سی عمر ہے جہاں معمولی باتوں کی سمجھ نہیں ہوتی، جہاں ابھی اپنی پہچان نہیں ہوتی، جہاں زندگی کیا ہے، کیوں ہے، کیسے ہے، کا فہم نہیں ہوتا۔ بلوغت کے مسائل، جسمانی تبدیلوں اور بدلتے ہارمونز کا اندازہ نہیں ہوتا۔ وہاں کیسے، کس طرح ان بچیوں نے شعور کی منزلیں طے کر لیں کہ گھر سے نکلیں، مذہب کے ساتھ ساتھ سب کچھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا، شادی رچائی اور اب مسرور و شاداں بیٹھی ہیں۔

ساتھ میں دو انتہائی ناخواندہ شکلوں والے مرد، جو دنیا میں ابھی تک کچھ کر نہیں سکے، ہاں دین کی اس خدمت کے عوض میں وہ جنت کے حقدار ہو چکے ہیں تو وہ اسی پہ مسرور ہیں۔

وڈیو میں اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار، انتہائی فخر سے ہاتھ لہرا لہرا کے کے اعلان فرما رہے ہیں کہ یہ بچیاں عرصے سے اسلام کی تعلیمات سے متاثر تھیں اور اپنی مرضی سے، جی اپنی مرضی سے گھر سے نکلیں، درگاہ پہنچیں اور مسلمان ہو گئیں۔

مطلب یہ کہ گھوٹکی کی رہنے والی، کسی محلے میں پرورش پانے والی، غریب ماں باپ کی اولاد کا شعور اتنا ترقی کر چکا تھا کہ انہیں اپنی زندگی کو اس ڈگر پہ ڈالنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ وہ بارہ اور چودہ سال کی تو اب ہیں مگر وہ کافی عرصے سے اس راستے کی مقلد تھیں۔ چلیں فرض کر لیں کہ انہیں یہ کشف دو تین سال پہلے ہوا ہو گا جب وہ علی الترتیب نو اور گیارہ سال کی ہوں گی۔

میرا دل چاہتا ہے کہ میں بچیوں کی دانش مندی پہ قربان ہو جاؤں اور اگر ہو سکے تو آئی کیو چیک کروا ڈالوں اور کچھ نہیں تو ان گدڑی کے لعلوں کو اپنے بچوں کے لئے ذرا ضرب المثل ہی بنا دوں کہ سب سہولیات کے میسر ہوتے ہوئے، پڑھے لکھے ماں باپ کی زیر سرپرستی، بہترین سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے، اور عالم یہ کہ اس عمر میں کوئی عام سمجھ کی بات بھی سمجھ نہیں آتی۔ تف ہے ہماری اولاد پہ۔

اور ایک یہ بچیاں ہیں کہ ماں کی گود سے ہی تقابل ادیان شروع کر دیا اور کتنی با اعتماد اور اپنے حقوق سے آشنا کہ اپنی مرضی سے بھی واقفیت ہو گئی اور پھر تبدیلئی مذہب کا فیصلہ بھی کر ڈالا۔ بھئی میں تو بہت متاثر ہوئی۔

دو بچیوں کی ماں ہوں اور دونوں اتنی چھوٹی بھی نہیں جیسے کہ رینا اور روینا، ہیں لوٹھا کی لوٹھا اور ان کو ابھی بھی میری آغوش چاہیے۔ وہ ابھی بھی مجھ سے ایسے ہی لپٹتی ہیں جیسے ننھی بچیاں۔ امتحان اچھا نہ ہو، پڑھائی کا سٹریس ہو، نوکری کا انٹرویو ہو، ابھی بھی رات کے پچھلے پہر، میرے بستر میں گھس کے ماں کی گرمی محسوس کرنا اچھا لگتا ہے ماتھے پہ میرا بوسہ لے کے وہ پر یقین ہو جاتی ہیں کہ اب کوئی آفت ان کی طرف نہیں آئے گی۔

میں اٹھارہ برس کی عمر میں گھر سے نکلی کہ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا تھا اور اب ہمیں ہوسٹل میں رہنا تھا۔ ہوسٹل میں ہر شہر کی لڑکیاں، اور ہر کسی کے چہرے پہ ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں اور آنکھوں میں نمی۔ ماں باپ کے رخصت ہونے کے بعد کسی کے آنسو تھے اور کسی کی سسکیاں۔ ہوسٹل کی پہلی شام آج تک حافظے میں محفوظ ہے جب لوگ ننھے بچوں کی طرح گھر یاد کر کے باجماعت روئے اور سینیرز نے آ کے آنسو پونچھے۔

ویک اینڈ پہ گھر جانے کی اور ماں کے گلے لگنے کی ہڑک اب تک نہیں بھولی۔ جس دن میں نے گھر پہنچنا ہوتا، میں نے اپنی ماں کو پہلے سے پابند کیا ہوتا کہ میں گھر داخل ہوتے ہی انہیں دیکھنا چاہتی ہوں اور پڑھائی کے سب سال یہی حال رہا۔

اور یہ بارہ اور چودہ برس کا سن، شعور کے اتنے اعلی درجے پہ کہ ماں باپ، گھر، بہن بھائی، سہلیاں، رشتے دار، خاندان، سکول، محلہ، کسی بھی چیز چھوٹنے کا کوئی غم نہیں۔ ماں سے لپٹنے کی، اپنی ضد منوانے کی، بابا کے ساتھ میلہ جانے کی، بھیا کے ساتھ قلفی کھانے کی، گھر کے آنگن میں کھیلنے کی، رات کو بہن بھائیوں کے ساتھ چھت پہ لیٹ کے تارے گننے کی، کوئی آرزو نہیں، کوئی خواہش نہیں۔ اس ننھی عمر میں مذہب کی اتنی سمجھ کہ سب کچھ قربان۔ اپنے باپ کا لمس، ماں کی آغوش، بہن بھائیوں کا ساتھ سب خدا حافظ۔

اور ازدواجی زندگی ہوتی کیا ہے، کس بھاؤ بکتی ہے، شروع کرنے کے لئے تیار۔ بھئی رینا اور روینا تم نے تو پیدائشی مسلمان لڑکیوں کو چت کر دیا۔

معلوم نہیں ان مولوی صاحب کی کوئی بیٹی ہے کہ نہیں اور معلوم نہیں کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے لمس کو محسوس کیا ہے کہ نہیں۔ اور انہیں لڑکیوں کی کم عمری کا، اس بھاری فیصلے کا اور نئی زندگی شروع کرنے کی دشواریوں کا اندازہ بھی ہے کہ نہیں۔ مولوی صاحب کامیابی کے نشے میں اس قدر دھت ہیں اور اسلام کی خدمت کا جذبہ اس قدر ہے کہ وہ ظالم ماں باپ سے ان بچیوں کو بچانے کی اپیل کر رہے ہیں۔ وہی ماں جس نے کوکھ سے جنم دیا ہے اب وہی خالی جھولی کے ساتھ دشمن ٹہری۔

وہی باپ جس نے اپنے خون پسینے سے سینچ کے اب تک پالاہے وہی اجڑی آنکھوں کے ساتھ اجنبی ٹہرا۔ بچیوں نے حق کا راستہ اختیار کیا ہے تو قربانی تو جائز ہے نا ماں باپ کی آخر انہوں نے تو جہنم کی آگ ہی بننا تھا۔ تو کیا یہ خوب نہیں کہ ہم نے دو ناخواندہ، کھیلنے کودنے والی عمر کی بچیوں کو بچا کے جنت کے راستے پہ لگا دیا۔ ویسے معلوم نہیں کہ اتنی چھوٹی عمر کی لڑکیوں کا اپنے ولی کی مرضی کے بغیر اتنے بڑے بڑے فیصلے کرنے کے بارے میں ہمارا مذہب کیا کہتا ہے۔

چلیے منظر بدل دیتے ہیں۔ چشم تصور سے دیکھتی ہوں کہ رینا اور روینا کی جگہ، صفیہ اور زبیدہ ہیں اور مولوی صاحب کی جگہ پادری صاحب اور وہ یہی الفاظ دہرا رہے ہیں کہ یہ مسلمان بچیاں بہت متاثر تھیں اپنے ارد گرد والے مسیحی خاندانوں سے۔ نو اور گیارہ سال کی عمر سے اس راہ پہ چلنے کی مشتاق تھیں۔ اب موقع پاتے ہی چرچ پہنچ گئیں۔ ہم نے ان کا بپتسمہ کیا۔ موقعے پہ موجود، جارج اور جوزف نے اپنی خدمات پیش کیں تو ہم نے دو بول بھی پڑھوا دیے۔ اب بیوقوف ماں باپ شور کر رہے ہیں تو ان کی حفاظت کی جائے۔

کیا کرتے آپ؟

منہ نہ نوچ لیتے پادری کا اور سب کے سب پرُحجم مولوی، حلوے کے زور پہ کراری آوازوں میں پادری کا فتوی قتل دے کے، ریاست سے تقاضا کر رہے ہوتے کہ چرچ کا نام ونشان ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔

اور آخری بات، ہمیں لوگوں کو اسلام کے حلقے میں شامل کرنے کا شوق اس قدر کیوں ہے؟ اگر خالق کائنات کو اس قدر زور زبردستی مسلمان بنانا مرغوب تھا تو ”کن یا فیکون“ کہہ کے کیوں نہ پھیر دیے دل، نہ رہتا بانس نہ بجتی بانسری۔ کیوں نہ ساری مخلوق پیدائشی مسلمان بنا دی کہ پھر کسی رینا اور روینا کو اس امتحان سے ہی نہ گزرنا پڑتا۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ مولوی صاحب نے رینا اور روینا کو کہا ہوتا

” جاؤ بیٹا! پہلے اپنی تعلیم مکمل کرو، یونی ورسٹی جاؤ، میں تمہارے اخراجات پورے کروں گا۔ جب چوبیس پچیس سال کی ہو جاؤ تب آنا، اس موضوع پہ بات کریں گے“

مولوی صاحب کو اتنا انتظار کرنے اور کشٹ اٹھانے کی کیا ضرورت۔ انہوں نے اپنی گنتی پوری کرنی ہے، میڈل کا حقدار بننا ہے اور جنت کا ٹکٹ کنفرم کرنا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).