دیسی لِبرلز کی کم فہمی


اسلامی دنیا میں اس کے رقیب عیسائی معاشروں سے ماڈرن سیکولرزم امپورٹ کر کے مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ آپ مسلمان کو نرمی اور حکمت سے تو ماڈرنزم پر قائل کر سکتے ہیں، زبردستی اور توہین سے نہیں۔

ماڈرنزم تو قائم ہی آزاد ارتقاء اور اوریجنیلیٹی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسلامی دنیا کا ماڈرنزم آزاد اور اوریجنل تبھی ہو گا جب اسے اسلامی دنیا میں مغرب سے مرعوب ہو کر زبردستی نافذ نا کیا جائے اور نا ہی اسے مغرب سے لے کر نقل کیا جائے۔

ہمییں اپنے مُلا اور مودودیوں کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ جدید سیکولر جمہوریت توریت، زبور یا انجیل سے نہیں نکلی۔ یہ تو بیسِک زرعی اور وار اکانومیز سے صنعتی و ٹیکنالوجیکل ترقی کے مائل سٹونز طے کرتے مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے قیام کے بعد نت نئے پیشوں کے اجراء سے۔ اور ان پیشوں سے جڑے افراد کو ملی معاشرتی برابری کی بنیاد پر رائج کرنا پڑی ہے۔ کیونکہ جمہوریت ماڈرن ویسٹرن وے آف لائف کو قائم رکھنے کے لیے موئثر ہے۔

مشرق میں رائج اسلامک موریلیٹیز اور ان پر چلنے والے طبقے کی تحقیر کی جگہ اگر پریگمیٹک طریقے سے اسلام پسندوں کاؤنسلنگ کی جائے تو مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

ورنہ کنفرنٹیشن سے پراگریس نہیں ریگریشن سامنے آئے گا اور مغربی ماڈرن ویلیوز سے خائف وائلنٹ تنگ نظری مسلمان سائیکوپتھس کے ذریعے اسلام اور اس سے جڑی مذہبی موریلیٹی کا دفاع میں قتل و قتال کرے گی جس سے دنیا مزید تقسیم ہو جائے گی۔

اکثر لوگ لبرل ازم اور امریکی یا یورپی استعمار میں فرق نہں کر پاتے۔ امریکی و یورپی استعمار مغربی لبرل ازم پر مبنی نہیں ہے یہ تو عیسائی ریاستوں کے ماڈرنزم کے بعد کی اختراعات ہیں جن کا یورپی رومن تہذیب کے قائم کردہ مذہب عیسائیت سے پرانا لگاؤ ہے اور ان کا عربوں کے قائم کردہ مذہب اسلام سے رقابت کا رشتہ بھی صلیبی جنگوں جتنا پرانا ہے۔

رومنوں اور عربوں کی یہ رقابت مشرکہ مالی مفادات کے لیے کم تو ہوتی ہے لیکن ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس رقابت کو دونوں فریقین کے ایک دوسرے سے متحارب سفید فام اور عرب نسلی تفاہر مہمیز دیتے رہتے ہیں۔

اس سب کشمکش میں یورپی اور امریکی لبرل تحریک کی آمد بہت بعد کی ہے، جس کا لگاؤ کسی مذہبی، نسلی یا تہذیبی استعمار سے نہیں ہے۔

مغربی لبرل تحریک کے مقاصد کی امریکی اور یورپی معاشروں میں نافذ ہونے کی ابتدا غلامی، سبجیکشن، استعمار، صنفی امتیاز، نسلی امتیاز اور ایل جی بی ٹی کے ساتھ امتیاز کے خاتمے جیسی کوششوں اور قانون سازیوں سے ہوئی، جس کا زور امریکی صدر اوبامہ کے ایران سے امن معاہدے، سعودی عسکری وہابیت کی مذمت اور اسرائیل کے ساتھ امتیازی دوستی کے امریکی رویے کے خاتمے کے فیصلوں تک قائم رہا۔

لیکن پھر اس لبرل ازم کو امریکہ اور برطانیہ کی روایتی سفید فام عیسائی رجعت پسندی کے ذریعے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ یہ سب بہت قریب کی باتیں ہیں۔ چار پانچ سو صدی پرانی نہیں۔

مغربی لبرل تحریک آج بھی جاری ہے، یہ تحریک مذہب اور نسل سے جڑی ہر طرح کی رجعت پسندی سے بِلا امتیاز برسرِ پیکار ہے۔ اسے سفید فام عیسائی رجعت پسند کی طرح اسلام و فوبیا کی بیماری بھی نہیں ہے۔

دیسی لبرل کنفیوزڈ اور سفیدفام رجعت پسند عیسائی کی طرح اسلاموفوبک ہے جبکہ مغربی لِبرل کلیئر مائنڈڈ ہے، اس کی مذہبی شدت پسندوں سے تو رقابت ہو سکتی ہے لیکن مذہب اسلام سے کوئی ڈائیریکٹ رقابت نہیں ہے۔ حال ہی میں نیوزی لینڈ کے لبرلز نے اسلاموفوبیا کو جس مثبت طریقے سے ہینڈل کیا، اسے عیسائیت سے لگاؤ رکھتی کوئی ماڈرن سیکولر عیسائی ریاست کبھی ہینڈل نہیں کر سکتی تھی۔

یہ مسلم سماج کی بدقسمتی ہے کہ بارہویں صدی عیسویں کے بعد اسلامی ریاستوں میں سائنس، ریاضی، سیکولر فلسفے اور، صنعت و ٹیکنالوجی میں ترقی کی روایت کو وقت کے مُلا نے دبا دیا، اور اب مسلم سماج میں دیر سے شروع ہوئی سیکولر ماڈرن تحریک کو آزادی اور اصلیت سے ارتقاء کا راستہ میسر نہیں ہے، کیونکہ مغرب سے درآمدشدہ ماڈرنزم کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مودودیت کے زیرِ اثر مسلم معاشروں کے لیے ترقی پسندی کو ہی شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔

یہ ایسے ہی ہے کہ ایک شخص کو بچپن سے شہد پینے سے ڈرایا دیا گیا ہو اور اب اسے تھپڑ مار کر زبردستی شہد پلانے کی کوشش ہو رہی ہو۔ مسئلہ شہد میں نہیں، ڈر اور زبردستی میں ہے۔

ڈرا ہو شخص نکما سہی لیکن کبھی تو دو چار ڈنک کھا کہ شہد کے چھتے سے شہد خود نکال کر چکھے گا اور اس کا عادی ہو جائے گا۔ آہستہ آہستہ مگس بانی بھی کرنے لگے گا۔

آپ اس کے دوست تو بنیں، اسے سپیس تو دیں۔ آپ کی زبردستی، آپ کی نفرت اور تحقیر تو اسے باغی کر دے گی اور وہ سب کے سب شہد کے چھتے جلا کے رکھ دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).