ادبی محفلیں اورچھوٹی عمر کا بڑا لکھاری!


لاہورشہر صدیوں سے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکزہے۔ پورے پاکستان اور بالخصوص صوبہ پنجاب کے دور دراز علاقوں سے کالم نگار، شعرا، ادیب اور فنکار اس شہر میں آتے اور اپنا آپ منواتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور میں ہرروز ہی مختلف قسم کی ادبی وثقافتی تقریبات ہوتی رہتی ہیں اور لوگ جوق در جوق اپنے مزاج کے مطابق ان تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ آج سے دس بارہ سال پہلے جب میں نے بطور کالم نگار میدانِ صحافت میں قدم رکھا تو مجھے بھی ان تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان تقریبات میں جانا ’نامور لوگوں کی گفتگو سننا‘ ان سے گپ شپ کرنا اور اب نئے دور میں ان کے ساتھ سیلفیاں بنانا ’میرا اولین شوق بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مصروفیات کے باوجود میں اپنے ضروری معاملات کو آگے پیچھے کرکے ان تقریبات میں شامل ہوہی جاتا ہوں‘ چاہے کچھ دیر کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔

دوسال پہلے جب میں کالم پوائنٹ کتاب مرتب کررہا تھا تو میرے دوست فرخ شہبازوڑائچ نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا تھا: ”حافظ صاحب کی شخصیت بیک وقت دلچسپ اور ہنگامہ خیز ہے۔ میرے خیال میں ہمارے صحافت کے طالب علموں کے لیے ان کا کیس“ سٹڈی کیس ”کی حیثیت رکھتا ہے۔ حافظ زاہدوہ واحد انسان ہیں جو آپ کو شہرکی ہر چھوٹی بڑی تقریب میں آسانی سے میسر ہیں۔ آپ شہر لاہور کے کسی بھی کونے میں تقریب رکھ کر دیکھ لیں ’زاہد صاحب پھر بھی وہ پہلے آدمی ہوں گے جو تقریب سے پہلے وہاں پائے جائیں گے۔

یہ سوال کرنے میں بالکل نہیں ہچکچاتے اور یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ موصوف ”پی آر“ کے سٹوڈنٹس کے لیے سراپا ماڈل ہیں۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی شعبے سے ہے ’آپ چاہے دودھ کا کاروبار کرتے ہیں یا امریکہ کے سفیر ہیں‘ اگر ایک مرتبہ آپ کا سامنا موصوف سے ہو گیا ہے توآپ ان کا تعارف سنے بغیر کہیں نہیں جا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج زاہد صاحب کو وہ بھی جانتے ہیں جن کوکوئی نہیں جانتا۔ ”

اسی طرح کے ایک ادبی پروگرام کے اختتام پر چائے کا کپ ہاتھ میں لیے ’میں شرکائِ محفل سے محو ِ گفتگو تھا کہ ایک پندرہ سولہ سالہ پیارا سا لڑکامیرے پاس آیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے بتایا: سر! میں کہانیاں لکھتا ہو۔ میں نے اس کی تعریف کرتے اور اس کا کندھا تھپکاتے ہوئے کہا کہ بیٹا لکھنا بہت اچھی بات ہے‘ سو آپ لکھتے رہنا ’ان شاءاللہ آپ خوب ترقی کرو گے اور نام کماؤ گے۔ میرا خیال تھا کہ ابھی اس نے لکھنے کی ابتدا کی ہوگی‘ مگرچائے کی چسکیوں کے ساتھ جب باتوں کا سلسلہ آگے بڑھا تو پتا چلا کہ اس کی کہانیوں کی کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔

اس پر میں چونک ساگیا اورمیرے دل میں ”ہیرو“ جیسے نظر آنے والے نوعمرلکھاری کے لیے انتہائی تعریفانہ جذبات نے انگڑائی لی اورمجھے لگا کہ اس لکھاری میں بلا کی سی صلاحیتیں ہیں جو اسے قدرت کی طرف سے بطور انعام ملی ہیں۔ جانے سے پہلے اس نے میرا نمبرلیا اوریہ کہتے ہوئے جدا ہوا کہ بھائی میں اپنی کتاب آپ کو دوں گا ’آپ مجھے یاد رکھیے گا۔

اس کے بعد فون پر ہمارا تھوڑا سا رابطہ رہا اور پھر ایک پروگرام میں جب وہ ملا تو خوبصورت انداز میں آنکھیں جھپکاتے ہوئے اس نے مجھے اپنی کتاب دی۔ میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ کتاب کا مرکزی نکتہ بچوں کی کہانیوں کے بجائے ”پراسرارکہانیاں“ تھا۔ گھر جاکر کتاب کی ورق گردانی کی تو کتاب بہت دلچسپ اور عام کہانی کی کتابوں کی ذرا ہٹ کے لگی۔ رات کے پچھلے پہر ’آدھی رات کو پورے چاند کی روشنی میں جب میں ایک کہانی پڑھ رہا تھا تو ڈر کے احساسات نے میرے اندر ڈیرے ڈال لیے اور میرے دل سے بے ساختہ یہ جملے نکلے :اس موضوع پر اس سے بہترین تحریر کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ کسی بھی لکھاری کے لیے انتہائی کامیابی کی علامت ہے کہ قاری اس کی تحریر کو پڑھ کر اسے اپنے اندر محسوس کرے۔ یقین مانئے کہ پندرہ کہانیوں پر مشتمل یہ مجموعہ اپنے موضوع کے حوالے سے ایک لازوال دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

انتہائی خوبصورت انداز میں ’اچھوتے موضوع پر لکھی گئی تحریریں اس بات کا واضح اور بین ثبوت ہیں کہ یہ نوعمر لکھاری خداداد صلاحیتوں کا مالک ہے جسے دنیا ”فلک زاہد“ کے نام سے جانتی ہے۔ فلک زاہد کی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ لڑکی ہوتے ہوئے لڑکوں جیسے زندگی گزارتا ہے‘ لڑکوں کی طرح ڈریسنگ کرتا ہے ’مذکر انداز میں بولتا ہے‘ ایلن ڈیلن کا بڑا فین ہے۔ یہ سب باتیں اسے دوسروں لوگوں سے یونیک بناتی ہیں۔

مزید یہ کہ فلک زاہد نے اس ایک کتاب پر ہی سٹاپ نہیں لگایا ’بلکہ اس کی دوسری کتاب ”بھوتوں کا تاج محل“ بھی پبلش ہوچکی اور پہلی کتاب کی طرح اس کتاب نے بھی ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل کی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ ماہ ایکسپولاہور میں ہونے والے کتاب میلہ میں یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی۔ اس وقت میرے لئے یہ خبر انتہائی خوشی کی باعث ہے کہ اس کی تیسری کتاب ”قدیم چرچ“ بھی جلد پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے جو کچھ عرصہ میں ان شاءاللہ ہم سب کے ہاتھوں میں ہوگی۔

اور میرا کامل یقین ہے کہ فلک زاہد کی صلاحیتیں اس نئی کتاب میں مزید ابھر کر سامنے آئیں گی اور یہ پہلی دونوں کتابوں سے زیادہ کامیابی حاصل کرے گی۔ آج کل فلک زاہد اپنے ہیرو ”ایلن ڈیلن“ کی آٹوبائیوگرافی لکھ رہا ہے اور ایلن کے بارے میں فلک کے لکھے گئے کئی ایک مضامین مختلف اخبارات کی زینت بھی بن چکے ہیں۔

فلک زاہد کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ کتابوں اور خاص کر ناول پڑھنے کا بہت شوقین ہے۔ آئے روز اس کے وٹس ایپ سٹیٹس سے پتاچلتا ہے کہ اس نے آج فلاں کتاب ختم کر لی اور فلاں ناول پڑھ لیا۔ صرف اطلاع ہی نہیں ’بلکہ اس کتاب پر سیر حاصل تبصرہ بھی ساتھ موجود ہوتا ہے جو اس کتاب کے تمام پہلوؤں کو قاری کے ذہن میں بٹھانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ میرا فلک کو مشورہ ہے کہ ان کتابوں کے تبصرہ کو کالم کی شکل میں محفوظ کرلیا کرے تاکہ یہ سارے تبصرے ضائع ہونے کے بجائے ریکارڈ کا حصہ بن جائیں اور لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔

آخر میں یہ کہنا ہے کہ بعض لوگ فلک کو ”چھوٹا“ خیال کرتے ہیں ’لیکن میرا ماننا ہے کہ فلک عمر میں چھوٹا ضرور ہے اور اس نے ابھی زندگی کی پندرہ سولہ بہاریں دیکھی ہیں‘ لیکن درحقیقت وہ ایک ”بڑا لکھاری“ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے لکھنے کی بے بہا دولت سے نوازا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی عمر جس میں بچے اپنا وقت غیرضروری کاموں میں ضائع کرتے پھرتے ہیں ’اس میں فلک دو کتابیں لکھ چکا ہے اور اگلی دو کتابوں پہ کام جاری ہے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ فلک زاہد کو کامیابیوں کے فلک تک پہنچائے اور اسے دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔ آخر میں فلک کے لیے ایک بات کہنا چاہوں گا: ”فلک! میں فلک تک آپ کے ساتھ ہوں‘ سو دلیری سے لکھو اور دنیا پر چھا جاؤ! “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).