کاروانِ بھٹو چلتا رہے گا۔۔۔


معاہدہ تاشقند کے بعد جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار پھر کشمیر کے مسئلہ پر بیان دیا کہ “ہم کشمیر کی آزادی تک ایک ہزار سال تک لڑیں گے” تو یہ بات ایوب خان کو بہت ناگوار محسوس ہوئی جس پر اس نے بھٹو صاحب کو جو کہ اس وقت کے وزیرِ خارجہ تھے بلایا اور دھمکاتے ہوئے انھیں کہا کہ “کیوں نہ میں آپ سے استعفی طلب کر لوں” جس پر بھٹو صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ” میرا استعفی تو پہلے ہی آپ کے پاس موجود ہے آپ اسے قبول کر لیجیے” اس پر اس وقت کے آمر ایوب خان نے بھٹو صاحب کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ” بہتر یہی ہے کہ آپ کچھ ماہ کے لئے چھٹیوں پر چلے جائیں اور واپس آ کر سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں مت سوچیے گا” اس جملے پر شہید ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا چہرہ بھی غصے سے سرخ ہو گیا مگر انھوں نے بڑے باوقار طریقے سے اس وقت کے آمر کو جواب دیا کہ ” اس بات کا فیصلہ اب پاکستان کی عوام کریں گے کہ میں سیاست میں حصہ لیتا ہوں یا نہیں”۔

یہ کہ کر ذوالفقار علی بھٹو صاحب وہاں سے رخصت ہو گئے۔ جب چند دن بعد وہ راولپنڈی سے بزریعہ ٹرین لاہور کے لئے روانہ ہوئے تو انھیں اسٹیشن پر روانہ کرنے کے لئے اس وقت کی کابینہ کے صرف دو وزیر جو بھٹو صاحب کے ذاتی دوست بھی تھے وہاں موجود تھے۔ اس وقت تک بھٹو صاحب کے استعفے اور ان کی ایوب خان کے ساتھ گفتگو تمام حلقوں میں پھیل چکی تھی اور عوام میں ایک تشویش کی لہر موجود تھی کہ جانے بھٹو صاحب کیا فیصلہ اختیار کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ شخص جو وزارت اور اقتدار کے ایوانوں کو ٹھوکر مار کر اور وقت کے آمر کو للکار کر آ رہا تھا اور جسے صرف دو لوگوں نے راولپنڈی اسٹیشن سے روانہ کیا تھا جب وہ لاہور پہنچا تو اسٹیشن پر ہزاروں کا مجمع اس کے استقبال کے لیے موجود تھا جس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی اور وہ سب حبیب جالب کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لئے لکھی گئی مشہورِ زمانہ نظم کے پرچے تقسیم کر رہے تھے نظم کا پہلا شعر ہی اس تمام منظر کی اور اس وقت کے محنت کش عوام اور شاعر کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے کہ

دشتِ خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کر نہ جا

تجھ کو پکارتا ہے وطن چھوڑ کر نہ جا

بھٹو صاحب کے فیصلے سے قبل ہی شاید تاریخ اور پاکستان کے محنت کش عوام اپنا فیصلہ کر چکے تھے اور پھر ارضِ وطن کے انہی گلی کوچوں ، انہی فیکٹریوں ، انہی کھیت کھلیانوں اور انہی یونیورسٹیوں نے وہ لمحے بھی دیکھے جب پاکستان کے محنت کش عوام نے بھٹو صاحب کے انقلابی سوشلسٹ پروگرام کے تحت ایک ملک گیر تحریک کے نتیجے میں ملکیتی رشتوں کو چیلنج کر دیا اور ان تمام استحصال زدہ عالمی اور مقامی قوتوں کو للکار کر اور ان کی سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ سیاست کو رد کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیادیں رکھی گئیں۔

آج جب شہید بھٹو کا نواسہ اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا لختِ جگر ایک بار پھر اسی سیاسی سفر کو آگے لے جانے اور اسے کسی منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے سیاسی میدان میں اترا ہے تو ایک بار پھر اسے بھی غدار قرار دینے کے پراپیگنڈہ کے ذریعے انہی قوتوں نے پھر وہی پیغام دینے کی کوشش کی ہے جو آج سے تقریباً 53 سال قبل ایوب خان نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو دیا تھا۔ مگر تاریخ کو اس وقت بھی کچھ اور ہی منظور تھا اور آج بھی پاکستان کے محنت کش عوام اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نڈر نواسے اور محترمہ بینظیر بھٹو کے دلیر لختِ جگر کا اعلان وہی ہے کہ

یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا

اسے خبر نہی تاریخ کیا سکھاتی ہے

کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے

تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے

آج بھی اس ملک کے عوام پر جمہوری لبادے میں ایک آمرانہ حکومت کا تسلط ہے جو نام نہاد احتساب کے نام کر اس ملک کے عوام کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ بھوک سب سے بڑی “غدار” ہے جو صدیوں سے غلامی کرتے ہوئے مزدوروں اور ہاریوں کو انہی پر حکمرانی کرنے والے استحصال زدہ طبقے سے غداری پر مجبور کرتی ہے اور شاید محکوموں اور حاکموں کے درمیان فیصلہ کن لڑائی ایک بار پھر تاریخ کے اوراق پر اپنی جگہ بنانے کو تیار ہے۔

کاروانِ بھٹو کا آغاز ہے جو ابھی صرف سندھ تک محدود ہے اور اس بار قیادت بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ملک گیر ٹرین مارچ کا اعلان کیا جائے اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے انقلابی سوشلسٹ پروگرام کے ذریعے اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے تک اور محنت کش طبقے کی فتح تک ایک فیصلہ کن جدوجہد کی جائے۔ یہی پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا ختمی مقصد بھی ہے اور پکستان پیپلز پارٹی کے احیاء کا واحد طریقہ بھی اور جو آج بھی پارٹی کے بنیادی منشور میں کچھ ان الفاظ میں درج ہے

“پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا ختمی مقصد ایک غیر طبقاتی سماج کا حصول ہے جو ہمارے عہد میں صرف اور صرف سوشلزم کے ذریعے ممکن ہے”۔

 بلاول بھٹو صاحب اور ان کے کاروانِ بھٹو کے لئے آج کے نوجوانوں اور پاکستان کے ان تمام محنت کشوں کا جو نسل در نسل اس نظامِ زر کی چکی میں پس رہے ہیں کا مشترکہ پیغام ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اس نظریے کو نہی روک سکتی کہ جس کا وقت آچکا ہو۔

بقول شاعر

کیا ہے جو غیر وقت کے دھاروں کے ساتھ ہیں

وہ آئے ہم تو اس کے اشاروں کے ساتھ ہیں

اک معرکہ بہار و خزاں میں ہے ان دنوں

ہم سب جواں مزاج بہاروں کے ساتھ ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).