کینسر کے مرض میں مبتلا ریاست کا علاج ممکن ہے؟


اگردیکھاجائے تو پاکستان اس وقت ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہوچکا ہے۔ جس میں ہر شہری خواہ غریب ہو امیر ہو، شہری ہو دیہاتی ہو، خواتین ہو، مرد ہو اقلیت ہو یا اکثریت تمام خراب معیشت، عدم تحفظ، عدم برداشت، انتہاپسندی، اور غیر یقینی کی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور ان تمام برائیوں کی جڑ وہ تصور ہے جس کی بنیاد پراکہتر سالوں سے ملک کو چلایا جارہا ہے۔ ہندوستان دشمنی اور دو قومی نظریہ مذہبی سوچ کی وجہ سے ملک انارکی کی حالت میں ہے۔

مذہب کے نام پر دنیا میں اسرائیل اور پاکستان بنے ہیں اوردونوں ابتدا ہی سے بقاکے مسئلے سے دوچار ہیں۔ تاریخ دان اس بات پر متفق نطر آتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ، اور برطانیہ ہیں جنہوں نے روس کو توڑنے کے لئے بنایا تھا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے بنگلہ دیش بننے کے بعد اورافغانستان، ایران تعلقات سے واضح ہے کہ اسلام کا صرف نام استعمال کیا گیا ہے باقی جاگیرداروں، سرمایہ دارں اور ان کے آلہ کار مذہبی پیشواوں کے مفادات کے لئے روز اول سے پاکستان جنت جبکہ محنت کشوں، غریب عوام، اقلیتوں کے لئے دوزخ سے بھی بدترریاست ہے۔

یہ کیسی اسلامی ملک ہے جس میں ریاستی سطح پر سودی نظام ہے یہ کیسی اسلامی ریاست ہے جس میں غریب دو وقت کی روٹی کے لئے دربدر جبکہ حکمران عیاشیوں میں مشغول ہیں۔ ریاست کے ساتھ ایک ظلم یہ بھی ہوا کہ میڈیا عوام کی بجائے حکمران طبقہ، سرمایہ داروں اور مذہبی پیشواوں کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں نصاب جھوٹ اورمنافرت پر مبنی ہے جوحکمرانوں کی مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ محنت کش عوام پر ظلم وستم کی آواز کون سنے۔

ظلم یہ بھی ہوا کہ تمام سیاسی پارٹیوں پربھی اشرافیہ اور ان کے آلاکار قابض ہیں پھر یہ ظلم بھی ہوا کہ محنت کشوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی تنظیموں پر بھی ٹاوٹس قابض ہیں۔ عوام خود بھی استحصال، ظلم اور بربریت کے ذمہ دار ہیں کیونکہ دماغ سے سوچنے اور جدوجہد کرنے کی بجائے جذباتی، خوشنما نعروں اور شارٹ کٹ راستے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ حکمران اگر مجبوری کے تحت کچھ کرتے بھی ہیں تو بین الاقوامی دباؤ کے تحت یا کسی اور مجبورئی کے تحت اور وہ بھی اتنا کہ کہیں عوام بھوک سے مر نہ جائے اگر عوام مر گئے تو پھر یہ حکمران اور ان کے آلاکار عیاشی کیسے کریں گے۔ ایسی حالات میں جب عوام روٹی کمانے سے فارغ نہ ہوں اوراشرافیہ لوٹ مار سے فارغ نہ ہوں ریاست کا دیوالیہ ہونا، انتہاپسندی، انارکی میں ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

غرض پاکستان اس وقت مذہبی انتہاپسندی، فرقہ واریت اوردہشتگردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ بیرون دنیا سمیت اب تو حکمران بھی فکر مندہیں کیونکہ پاکستان اس وقت ایک ایسے معاشی دلدل میں پھنس چکا ہے کہ کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہیں ہے۔ حکمرانوں کو غریب عوام کی نہیں مگر اپنے مفادات کی فکر ضرور لگی ہوئی ہے۔ پاکستان اس وقت کینسرزدہ ہوچکا ہے۔ لاعلاج جس کا کیمو تھراپی سے بھی آفاقہ نہیں ہوتا۔ دوسری طرف حکمران طبقے نے خود کو بچانے کے لئے اقتدار کی کرسی پر ایسے لوگوں کو بٹھایا ہے جو اقتدار کو مذاق سمجھتے ہیں۔

اورمعیشت اورریاست کا علاج پالیسی سازی اور قانون سازی کی بجائے دم درود اور جذباتی نعروں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی نا اہلی کو میڈیا کے زور پر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرپشن کرپشن کا شور مچا کر خود کو بچانے اور مخالفین کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پشتون، بلوچ، سندھی عدم تحفظ اور پنجاب کے محنت کش اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ الیکٹرانکس اور پرنٹ میڈیا میں اب بھی صرف اشرافیہ اور حکمرانوں کی اقتدار اور مفادات کی جنگ اورمحلاتی سازشوں کی داستانیں زور و شور سے جاری ہیں۔

تمام ہمسایہ ممالک ہم سے غیرریاستی عناصر کی مداخلت کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں۔ دوسری طرف چین جن کو ہمارے حکمران مسیحا کے روپ میں دکھاتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر امریکہ ہمارا دشمن بن جائے تو کوئی پرواہ نہیں چین ہماری مدد کرے گا، مگر ان کا یہ حال ہے کہ وہ صرف اپنی مفادات کے لئے کام کرتے ہیں اور ان کی تمام سرمایہ کاری عوام کے سامنے کوئی بھی نہیں لاتے ہیں کیونکہ ان کی تمام سرمایہ کاری میں پاکستانی عوام کے لئے نہیں بلکہ حکمران طبقہ کے لئے کمیشن اور باقی تمام چین والے لے جاتے ہیں۔ ہمارا نظریاتی دوست ملک سعودی عرب بھی ہم سے نالاں ہے۔ اب وہ بھی ہمارے خرچے اور نخرے برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ حکمران اور اپوزیشن دونوں عوام دشمن ہوں تو عوام کے مفادات، حقوق اور ریاست کی ترقی کی بات پھر کون کریں گے۔

پاکستان کی تمام برائیوں اور پستیوں کے ذمہ دار اسٹبلشمنٹ، ان کے آلہ کار جاگیردا رسیاستدان اور مذہبی فرقہ وارانہ جماعتوں کے لیڈر ہیں۔ جو ملک میں عوام کی بنیادی ایشوزکوالٹی ایجوکیشن، صحت، صنعتیں اور روزگار و ترقی کی بجائے نان ایشوز پر عوام کو مصروف رکھے ہوئے ہیں۔ میڈیا، عدلیہ، انتظامیہ مکمل طور پر ان کے دست نگر ہیں۔ متبادل آواز، قیادت کی ازحد ضرورت ہے جوعوام کو بیدارکرکے مشترکہ طورپر بنیادی ضرورتوں اورایشوزکے لئے آوازاٹھائے اورملک میں امن، استحکام، ترقی کے لئے کام کرے اور بین الاقوامی اعتماد کو بحال کرکے حکمرانوں کو مجبورکرے کہ غیر ریاستی عناصر کے خلاف اقدامات اٹھائے اور غیر پیداواری اخراجات کا خاتمہ کرکے عوام کی بنیادی ضرورتوں پر خرچ کرے۔

عوام دوست، انسان دوست، حقیقی محنت کشوں کی تنظیمیں اورسیاسی پارٹیاں تقسیم در تقسیم ہیں۔ عناد، ذاتی مفادات، شہرت، لیڈرشپ، اور انٹرپریٹیشن کی وجہ سے آپس میں الجھے ہوئے ہیں اورکسی قسم کی مشترکہ جدوجھد یا متبادل قیادت لانے میں ناکام ہیں۔ اور اسی طرح ان کے کارکن بھی بے بس تماشائی، مایوس یا مجبور ہیں۔

گو کہ ہر کارکن انفرادی طور پر خود سے زیادہ کام کررہے ہیں۔ اسی طرح ان چھوٹی پارٹیوں اور تنظیموں کے لیڈرشپ بھی انفرادی طور پر انتھک محنت کررہے ہیں مگر ان کی توانائی اور محنت کا ثمر بھی آخر کار سرمایہ داروں، حکمرانوں کے مفاد کے لئے استعمال ہو جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).