قاسم علی شاہ کی اونچی اڑان


تعلیم ایک معاشرے کے اجتماعی شعور کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا ایک منظم عمل ہے۔ یہ محض معلومات کے ابلاغ کا نام نہیں بلکہ متعلم کی چھپی ہوئی قابلیتوں کو تحریک دے کر ماضی کی دانش کو مستقبل کی تعمیر میں صرف کرنے کے قابل بنانے کا عمل بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام گوناگوں وجوہات کی بنیاد اپنے اس وظیفہ کی انجام دہی سے قاصر رہا ہے۔ دیگر وجوہات کے علاوہ اس ناکامی کی ایک بڑی وجہ معلم کا کردار بھی ہے۔

ہمارے ہاں سکول، مدرسے، کالجز، اور یونیورسٹیاں تو ہیں مگر تربیت نہیں ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں ٹیچرز و انسٹرکٹرز تو ہیں لیکن حقیقی استاد و معلم نہ ہونے کے برابر ہیں، ایسا نظام تعلیم تربیت و راہنماء کے تقاضے پورے کرنے کی اہلیت سے ہی عاری ہوتا ہے چناچہ تربیت کا فقدان بڑھتے بڑھتے قحط کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس گھمبیر صورتحال سے نبردآزماء ہونے کے لیے لازم ہے کہ تربیت و راہبری کے در وا کیے جائیں۔

قاسم علی شاہ جن کی اونچی اڑان سے اب ایک زمانہ واقف ہے، ایک ایسے معلم ہیں جو ہمارے عہد کے تدریسی مزدوری میں جکڑے اساتذہ کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب کی نہ صرف فکری اڑان بلند ہے بلکہ وہ دوسروں کو اڑنا سکھانے کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی ماضی کی عظیم روایات کا گہرا شعور رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے جدت فکر اور قوتِ عمل کو مہمیز دینے کا کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے۔ ایک بڑا استاد اپنے شاگردوں کو معلومات کے سیلاب میں بہانے کی بجائے انہیں ذہنی رجحان دیتا ہے۔

نوبل انعام حاصل کرنے والے بڑے بڑے اساتذہ و محققین کے ایک بڑے گروپ کا جائزہ لینے کے بعد ایک مبصر نے لکھا تھا کہ کسی سائنسدان کو نوبل انعام پانے کے قابل بنانے والی چیز یہ نہیں ہے کہ اس کو کہیں سے سائنسی معلومات کا بڑا ذخیرہ مل گیا تھا بلکہ وہ چیز جس نے انہیں عالمی اعزاز کا مستحق بنایا وہ صرف اخذ و مطالعہ کا ایک ذہنی رجحان تھا جو کسی بڑے سائنسدان کی صحبت سے ہی اسے ملا تھا۔ اسی چیز نے بالآخر اس کو ترقی کے اعلیٰ مقام تک پہنچایا۔

جناب قاسم علی شاہ بھی کوئی بڑے عالم یا محقق نہیں ہیں بلکہ اپنے ذوق و شوق کے سبب بڑے لوگوں کی صحبت سے فیضیاب صاحبِ فضل شخص ہیں۔ وہ شخص جس نے طویل عرصہ علم و تجربہ میں اپنا حصہ ڈالا ہو، اس کی باتیں سادگی و پرکاری کا امتزاج ہو جاتی ہیں۔ وہ جب بولتے ہیں تو علم حُسنِ ابلاغ کے پروں پر پرواز کرنے لگتا ہے۔ جب تبصرہ کرتے ہیں تو ان کا تبصرہ مطالعہء کتب کا خلاصہ ہوتا ہے۔ شاہ صاحب جب اپنے تجربات بیان کرتے ہیں تو وہ برسوں پر محیط سفر کو منٹوں میں سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔

قاسم علی شاہ جب مشورہ دے رہے ہوتے ہیں تو اس کے پس منظر میں نشیب و فرازِ حیات کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کا ہر لفظ کتاب ہوتا ہے اور ان کی ہر تقریر حاصلِ مطالعہ ہوتی ہے۔ یہی فلسفہ صحبت ِ اکابرین کا حاصل ہے۔ اشفاق احمد، واصف علی واصف، پروفیسر احمد رفیق اختر، بابا جی عرفان الحق و ایسے ہی دیگر بزرگوں کی صحبت کا خلاصہ قاسم علی شاہ ہیں۔ شاہ صاحب نے مذکورہ بزرگوں کی صحبت سے علم نہیں زاویہ نظر کشید کیا، ان کی محفلوں میں مکالمے سے معلوماتِ محض جمع نہیں کیں بلکہ تڑپ اور لگن سمیٹی۔ بلاشبہ صادقین کی صحبت نے ایک ٹیوٹر کو ٹرینر بنا دیا۔ جناب قاسم علی شاہ کی پہلی اڑان ایک استاد کی اڑان تھی جس نے پاس آنے والے طالبعلموں کو نہ صرف تعلیم دی بلکہ خواب دیکھنے کا ہنر بھی سکھایا۔

قاسم علی شاہ کی دوسری اڑان جس میں وہ مسلسل بلندیوں کی طرف محوِ پرواز ہیں، ایک Inspirational اور Motivational Speaker کی ہے۔ پاکستان کے طول و عرض میں متعدد جامعات، کاروباری اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ملنے والی دعوت میں جاتے ہیں اور اپنے علم اور فن کا جادو جگاتے ہیں۔ Motivational Speech اب ایک Genre کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، اس کی ابتداء بیسویں صدی میں ڈیل کارنیگی سے ہوئی تھی۔ امریکہ کا یہ نامور شخص بیسویں صدی کے افق پر موٹیویشنل سپیکر کے طور پر چھایا رہا۔ ہزاروں لوگوں نے ڈیل کارنیگی سے اُمید کا درس لیا اور مایوسیوں کو چھوڑ کر کامیابی و کامرانی کے راستے کو اپنایا۔

پاکستان میں میری دانست میں اس اسلوب کو متعارف کروانے کا سہرا قاسم علی شاہ کے سر ہے جنہوں نے اس میدان میں نہ صرف لوہا منوایا بلکہ دنیا کا ایک منفرد اسلوب بھی متعارف کروایا۔ اس اسلوب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی جڑیں ہماری اعلیٰ تہذیب و اقدار میں ہیں۔ اونچی اڑان کے دیباچے میں عرضِ مصنف کے عنوان کے تحت قاسم شاہ صاحب نے تین بنیادی اصول بیان کیے ہیں۔ 1۔ سچائی 2۔ دیانت 3۔ خوش اخلاقی، اور انہیں ہمارے آقا محسنِ انسانیت ؐ کی سُنت قرار دیا ہے۔ میرے خیال میں یہ تینوں اصول ہر کامیاب انسان کی زندگی کا جزو لازم ہوتے ہیں۔ انہیں سنت نبویؐ سے جوڑ کر قاسم علی شاہ نے ان اصولوں سے برکت بھی اخذ کی ہے جو ہماری تہذیبی زندگی کی اساس ہے۔

راست گوئی، دیانت داری اور خوش اخلاقی ایک پورا اسلوبِ زیست ہے جو کامیابیوں اور کامرانیوں کے دروازے کھولتا ہے۔ حکمت و دانش کے اس سرچشمے کو اپنی روایت میں تلاش کرنا وہ خوبی ہے جس نے شاہ جی کے اسلوب کو بہت دل آویز بنا دیا ہے اور ان کی کتاب اونچی اڑان کا مطالعہ کرتے ہوئے علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے کہ

خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہئی دانشِ فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف

یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اپنی روایت سے جڑا ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ نوعِ انسانی کی اجتماعی دانش سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ قاسم علی شاہ نے مشرق و مغرب کی قدیم و جدید دانش سے اکتسابِ فیض کیا ہے اور حکمت کو مومن کا گمشدہ سرمایہ تصور کرتے ہوئے عقل و دانش کی ہر بات کو اپنے سامعین تک پہنچانے کی کوشش ہے۔

اونچی اڑان میں 37 عنوانات کے تحت حکمت و دانش کے موتی بکھیرے گئے ہیں اور ہر عنوان کے نیچے موضوع کا احاطہ کرنے والے کسی قولِ زریں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جہاں رومی، سعدی اور بایزید بسطامی کاحوالہ ہے وہیں مغرب و مشرق، ایشیاء، افریقہ، یورپ اور امریکہ اور دنیا کی اکثر تہذیبوں کے اہلِ فکر و دانش کے اقوال کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، اسی تنوع سے قاسم علی شاہ کا وسعتِ مطالعہ کے ساتھ ان کے ظرف کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔

جناب قاسم علی شاہ کی یہ خوشہ چینی اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہ کہیں بھی اپنی روایت، اپنی اقدار، اپنے تہذیبی اصولوں کو فراموش نہیں کرتے۔ دانائی کی ہر بات کو انہوں نے اپنی ثقافتی اور تہذیبی تناظر میں رکھ کر دیکھا ہے اور ان کی فکر میں مرعوبیت نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ان کے اسلوب کی ایک اور خوبی ان کی فکر کا روحانی تناظر ہے۔ قاسم علی شاہ اسلام کی صوفیانہ روایت سے مضبوط وابستگی رکھتے ہیں۔ ان کی فکر میں صوفیانہ طرزِ احساس کی بڑی بھرپور جھلک پائی جاتی ہے۔

وہ بے مرشد، بے فیض، بے استاد ہونے کو ناکامی کا ایک اہم سبب سمجھتے ہیں۔ جناب شاہ جی نے اپنی تحریروں میں باربار ان روحانی اقدار کا حوالہ دیا ہے جو اسلامی تصوف کا جوہر ہے۔ اونچی اڑان کا عمومی موضوع بھی کامیابی ہے اس حوالے سے قاسم شاہ صاحب نے کامیابی کا جو پیمانہ بیان کیا ہے وہ ان کی تمام تحریروں کا جوہر ہے۔ ان کے نزدیک کامیابی کسی بھی شعبے میں جو آپ کی افتادِ طبع اور آپ کی فطری صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہو، نکتہ کمال کو چھونا ہے۔ یہ بڑی بنیادی بات ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ربوبیت کا بیان کرتے ہوئے مفسرین نے تربیت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے ”تبلیغ الشئی الی کمالہ بحسبِ استعدادہ الازلی شیاً فشیاً (سیماوی، اصفہانی) “ ترجمہ: کسی شے کا اپنی ازلی استعداد کے مطابق درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے اپنے کمال کو پالینا (ضیاء القرآن)

قاسم علی شاہ نے اونچی اڑان میں اسی معیار کو مدِ نظر رکھا ہے۔ علم دوستی نے انہیں ابلاغ کی قوت سے بھی مالا مال کیا ہے ان کی تحریریں اور تقریریں دیکھ اور سُن کر لگتا ہے کہ برطانوی دانشور شاعر لیم بٹلر ییٹس (W۔ B۔ Yeats) نے درست کہا تھا کہ

”Think like a wise man but communicate in the language of the people۔ “

قاسم علی شاہ صاحب اپنے مطالعے اور فکر کی سنجیدگی کو قارئین و سامعین کی استعداد کے مطابق بیان کرتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں مسکراہٹ کی پڑیا میں لپیٹ کر دوسروں کے تحت الشعور کا حصہ بنا دیتے ہیں ڈیل کارنیگی کا کہناتھا کہ

”Your smile is a message of your goodwill۔ “

قاسم علی شاہ صاحب کا اسلوب ان کے اندازِ فکر اور اطوارِ حیات کا امتزاج ہے اور یہی زاویہء نظر ان کی اونچی اڑان، ان بلند منزلوں کی پرواز سکھاتی ہے جو انسان کو لازوال کامیابیوں اور کامرانیوں کی نوید دیتی ہیں۔ ان کی کتاب پر بہترین تبصرہ مصحفی کا یہ شعر ہے

میں کنگرعرش سے پر مار کے گزرا

اللہ رے رسائی میری پرواز تو دیکھو

قاسم شاہ جی کی اونچی پرواز اب مستند ہو گئی ہے کہ اب تو یہ اڑان کئی دلوں میں کھٹکنے بھی لگی ہے۔ کئی لوگوں کی حسرت حسد بن کر تنقید کے فیشن کا روپ دھار گئی ہے۔ ان ناقدین شاہ جی کی رائے کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے صرف اتنا کہنے کی جسارت کروں گا کہ ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان جو فرق ہے وہ سُننے کا فرق ہے۔ ایک آواز آتی ہے، تم اس کو دروازہ بند کرنے کی آواز سمجھتے ہو اور میں اسے دروازہ کھلنے کی آواز سمجھتا ہوں۔

تفاوت است میانِ شنیدن من و تو

تو غِلق باب و منم فتحِ باب می شنوم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).