ای کامرس: آپ انٹرنیٹ پر اپنا کاروبار کیسے کر سکتے ہیں؟


آن لائن کاروبار کو پاکستان میں تیزی سے حاصل ہوتی مقبولیت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔نہ دوکان کرائے پر لینے کی پریشانی اور نہ ہی پگڑی دینے کا جھنجھٹ۔

بس گھر بیٹھے اپنا آن لائن سٹور بنائیے، اسے مختلف مصنوعات سے بھرئیے اور پھر دنیا جہاں میں ڈیلیوری کے ذریعے اپنے گاہکوں کو ان کی من پسند اشیا فروخت کیجیے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی صارفین انٹرنیٹ پر پیسے کیسے کما سکتے ہیں؟

پاکستان کا آن لائن ’لنڈا‘ بازار

برطانیہ میں ’حلالہ‘ کا آن لائن بزنس

آن لائن

پیسے وصول کرنے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ یہ کارڈ کے ذریعے بھی ممکن ہے اور موبائل بینکنگ کا استعمال بھی ہو سکتا ہے اور اگر یہ سب نہیں تو کیش آن ڈیلیوری یعنی ڈیلیوری کے وقت قیمت وصول کرنے کا آپشن تو کہیں نہیں گیا۔

یہ کیسے ممکن ہے؟

اس سوال کا جواب مشکل نہیں اور اسے سمجھنے کے لیے ہمیں کاروبار کے اس جدید طریقے کو سمجھنا ہو گا۔

اس سلسلے کی پہلی قسط میں ہم نے کونٹینٹ کے ذریعے پیسے کمانے کو سمجھنے کی کوشش کی۔

آج دوسرے حصے میں ہم کمائی کے آن لائن ذریعے یعنی ای کامرس یا انٹرنیٹ کے ذریعے خرید و فروخت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

سکوپ کیا ہے؟

ڈیجیٹل سٹریٹجسٹ اور پاکستان میں گوگل کے سابق نمائندے بدر خوشنود کہتے ہیں کہ ‘ایک چھوٹا کاروبار، ون مین شو، اگر اچھے طریقے سے منصوبہ بندی کرے تو کم از کم مہینے میں لاکھ، دو لاکھ یا اس سے زائد قیمت کی مصنوعات آن لائن فروخت کر سکتا ہے۔’

یہ تو بات تھی ماہر کی مگر ہم نے ملاقات کی اسلام آباد میں لویزا بشارت سے جنہوں نے چار سال کی ڈگری کرنے کے بعد حسب معمول ایک دفتر میں ملازمت شروع کی مگر جلد ہی ان کو احساس ہوا کہ یہ کام ان کے بس کا نہیں اور ان کی قسمت میں اپنا کام کرنا لکھاہے۔

لویزا کہتی ہیں کہ ’مجھے اس کا نتیجہ جو ملا ہے وہ نسبتاً میرے پرانے کام سے زیادہ بہتر تھا۔ اس طرح سے کہ کم وقت میں مجھے اس سے زیادہ منافع ہوا ہے۔’

دوسرے لفظوں میں صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کی نوکری سے بہتر پیسہ وہ اپنے آن لائن کاروبار کے ذریعے کما رہی ہیں جس میں وہ اپنی مرضی اور خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے وقت صرف کرتی ہیں۔

آن لائن

اگر آپ ایک سال قبل سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں کم از کم چھ سو سے سات سو ملین ڈالرز کی آن لائن ٹرانزیکشن ہوئی ہیں۔

بدر خوشنود کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال ‘انڈسٹری کا جو تخمینہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس سال ایک ارب ڈالر کی سیل سے زیادہ کر جائیں گے۔’

کامیاب آن لائن بزنس کیسے چلا سکتے ہیں؟

آپ جب کوئی بھی دکان یا کاروبار کھولتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو لوگوں کو بتانا پڑتا ہے کہ آپ کا یہ کاروبار فلاں جگہ پر کھلا ہے اور اس میں کیا کیا دستیاب ہے۔

اس مقصد کے لیے آپ سڑکوں پر اشتہارات لگواتے ہیں گھروں میں پمفلٹس تقسیم کرواتے ہیں یا اگر آپ کے پاس زیادہ پیسہ ہے تو ٹی وی یا ریڈیو پر اشتہارات بھی چلوا دیتے ہیں۔

بالکل اسی طرح آن لائن ای کامرس کی ویب سائیٹ کھول کر آپ دنیا بھر کے لوگوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے آپ ایک ڈومین خریدتے ہیں جو کہ آپ کی ویب سائٹ ہے۔ اگر آپ یہ سب نہیں کرنا چاہتے تو سادہ سا حل یہ ہے کہ آپ فیس بک پر اپنا پیج بنائیں اور اس کے ذریعے فیس بک پر موجود صارفین تک رسائی حاصل کریں۔ فیس بک آن لائن کاروبار کرنے والوں کے لیے پہلے سے تیار شدہ پیجز کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

فیس بک پر اپنا ای کامرس کا کاروبار شروع کرنے کا مطلب ہے کہ آپ ایک مشہور شاپنگ سینٹر میں اپنی دکان کھول رہے ہیں جہاں پر ایک بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں یا آتے جاتے ہیں اور آتے جاتے وہ آپ کے کاروبار کو بھی دیکھ سکتے ہیں جسے فیس بک کی زبان میں امپریشن کہتے ہیں۔

آن لائن

آپ نے اپنی ویب سائٹ یا سوشل میڈیا پیج بنا لیا اب اگلا مرحلہ ہے اس پر آپ کیا مصنوعات پیش کریں گے۔ آپ لویزا بشارت کی طرح صابن کی فروخت کرنا چاہتے ہیں یا کپڑے بیچنا چاہتے ہیں یا آپ کے خیال میں آپ کے پاس بہت ہی منفرد چیز ہے جو آپ تیار کرکے بیچ سکتے ہیں۔

فروخت کے بعد وصولی کے ممکنہ طریقے

اس مقصد کے لیے آن لائن بہت سارے بنے بنائے پلیٹ فارمز موجود ہیں بس آپ کو ماہانہ فیس ادا کرنی ہو گی۔ ایس کرنے سے نہ صرف اشیاء کی نمائش بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ پیسوں کی وصولی کا بھی ایک بنا بنایا نظام ملتا ہے۔

ان مشہور پلیٹ فارمز میں شاپیفائی اور وو کامرس بہت مشہور ہیں۔ مگراس کے علاوہ بہت سارے دوسرے پلیٹ فارمز بھی دستیاب ہیں جن کو استعمال کر کے آپ باآسانی اپنی اشیاء کو آن لائن فروخت کر سکتے ہیں۔

اور اگر یہ نہیں تو فیس بک تو بہرحال موجود ہے ہی جس نے یہ کام بہت آسان کر دیا ہے۔ یہ نا صرف آپ کو پیسوں کی لین دین کا نظام فراہم کرتا ہے بلکہ آپ کی مصنوعات کی بہتر انوینٹری یعنی کے ان کی مقدار اور تعداد کے بارے میں بھی آپ کو مدد فراہم کرتا ہے۔ یعنی یہ آپ کے ساتھ دوکان پر موجود مددگار کے طور پر کام سرانجام دیتا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ ویب سائٹ اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق بنوائی اس کے بعد اس میں آن لائن پیمنٹ کا نظام بھی بنوائیں۔

پیسے کیسے آئیں گے؟

یہ سب سے اہم سوال ہے کیونکہ آپ یہ سارا کام پیسے کمانے کے لئے ہی تو کر رہے ہیں۔

پیسے وصول کرنے کا سب سے آسان طریقہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے یعنی آن لائن پیمنٹ ہے تاہم مسئلہ یہ ہے کہ کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے پاس ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ نہیں۔

آپ گاہکوں سے پیسے اپنے اکاؤنٹ میں بھی وصول کرسکتے ہیں جس کے لیے انہیں آن لائن بینکنگ یا اے ٹی ایم سے رقم آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنا ہوگی۔

آن لائن

ایک اور طریقہ موبائل کے ذریعے رقم کی وصولی کا ہے۔ موبائل کمپنیاں اپنے کریڈٹ کے نظام کے ذریعے پیسوں کے لین دین کا نظام چلا رہی ہیں جیسا کہ پاکستان میں ٹیلی نار کا نظام ‘ایزی پیسہ’ ہے یا جیز کا نظام ‘جیز کیش’ ہے۔

کیش آن ڈیلیوری

دنیا بھر میں بہت سارے لوگ آن لائن شاپنگ کرنے سے کتراتے ہیں۔ جو چیز وہ آرڈر کرنا چاہتے ہیں وہ اس شکل اور رنگ یا کوالٹی میں نہیں ڈلیور کی جاتی جیسی ویب سائٹ پر موجود تصویر میں نظر آتی ہے۔ اور پاکستان میں جہاں ڈیجیٹل لٹریسی بہت کم ہے ایسی لوٹ مار کے واقعات بہت زیادہ ہیں اور ان کی دادرسی کا کوئی مناسب اور موثر نظام موجود نہیں۔

آپ نے پیسے ادا کر دیے تو وہ واپس مشکل سے ہی ملیں گے۔

پاکستان میں کیش آن ڈلیوری کا نظام بہت مقبول ہے۔ جس میں آپ اپنے گاہکوں سے آرڈر وصول کریں ان کا دیا گیا آرڈر پیک کریں اور اسے ایک ڈیلیوری یا کورئیر کمپنی کے ذریعے گاہک تک پہنچائیں۔ گاہک اسے وصول کر کے رقم ڈلیوری یا کورئیر کمپنی کو ادا کرے گا جو اس میں سے اپنے واجبات کاٹ کر آپ کو آپ کی رقم ادا کر دیں گے۔

اس مقصد کے لیے آپ کو ان کورئیر کمپنیز کے ساتھ کیش آن ڈلیوری کا اکاؤنٹ کھولنا پڑے گا۔ یہ ایک بہت سادہ سا عمل ہے جس میں آپ ڈیلیوری کمپنی کے پاس جاکر انہیں اپنا بینک اکاؤنٹ نمبر دیتے ہیں اور اپنا پتا ان کو فراہم کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر وہ آپ سے آپ کے آرڈر وصول کرتے ہیں۔ جن پر رسید چسپاں ہوتی ہے۔ جس میں آپ نے ڈیلیور کی جانے والی اشیاء کی قیمت اور ڈلیوری کے چارجز شامل کیے ہوتے ہیں۔ بہت سارے آن لائن کاروبار کرنے والے ڈیلیوری کی قیمت اشیاء کی قیمت میں شامل کرکے بتاتے ہیں جب کہ بہت سارے لوگ قیمت علیحدہ بتاتے ہیں اور ڈلیوری کے چارجز علیحدہ بتاتے ہیں۔

پاکستان پوسٹ بھی کیش آن ڈلیوری کی سہولت فراہم کرتا ہے اس کے علاوہ ٹی سی ایس کورئیرز، لیپرڈز کورئیرز اور ایم این پی کورئیرز نمایاں کمپنیاں ہیں جو یہ سروس فراہم کرتی ہیں۔ حال ہی میں مشہور ٹرانسپورٹ کمپنی ڈیوو نے بھی کیش آن ڈلیوری کا نظام شروع کیا۔

ای کامرس کون شروع کر سکتا ہے؟

ای کامرس ہر وہ شخص شروع کر سکتا ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ فروخت کرنے کے لیے موجود ہے ۔

بدر خوشنود کہتے ہیں کہ ‘خاص طور پر چھوٹے کاروبار جو اپنی مصنوعات ایک دوکان میں رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں مگر وہ اس کو فروخت نہیں کر پا رہے اور ان کے پاس ذخیرہ پڑا ہوا ہے تو ای کامرس گاہکوں تک پہنچنے کا تیز ترین ذریعہ ہے ۔’

و ہ کہتے ہیں کہ ‘اس کی بنیاد پر ترقی کر جا سکتی ہے ۔اور اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے لیے آپ کو کوئی دوکان ہی نہیں چاہیے۔ آپ کو صرف پراڈکٹ بنانی ہے، کوالٹی کا خیال رکھنا ہے۔ اور صحیح گاہکوں کو ٹارگٹ کرنا ہیں۔’

ڈیجیٹل مارکیٹنگ کیسے ہو؟

مارکیٹ میں دوکان کے مقابلے میں ایک شاپنگ سینٹر میں دوکان کا موازنہ سمجھنے کے بعد اب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کیسے فیس بک ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جس پر پاکستان سے پونے چار کروڑ لوگ موجود ہیں۔ دوسری جانب گوگل بھی ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے جس پر آپ اشتہار بازی کر سکتے ہیں۔

بالکل اسی طرح جیسے آپ ایک دوکان کے لیے بینرز، پوسٹرز یا پمفلٹس وغیرہ چھپواتے ہیں بالکل اسی طرح آپ فیس بک اور گوگل پر اپنی اشیا کی تشہیر کر سکتے ہیں۔

آن لائن

اس ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنے صارفین کو محدود کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ اپنی مصنوعات کو صرف پشاور، لاہور اور کراچی میں فروخت کرنا چاہتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ صرف ان خواتین تک پہنچے جن کی عمر بیس سے چالیس سال کے درمیان ہوں تو یہ ممکن ہے ۔

رہنما اصول کیا ہیں؟

اس معاملے میں سب سے بڑا رہنما اصول یہ ہے آپ اپنے پیغام کو کتنا موثر بنا سکتے ہیں۔ اس کو ایسا ہونا چاہیے کہ اگر انٹر نیٹ پر آپ خود یہ دیکھ رہے تو یہ آپ کو بھلا لگے۔

اس کے بعد باری آتی ہے مختلف لوگوں کی جو اس کام میں بہت ترقی کر چکے ہیں۔

ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ آپ کی تصاویر بہت خوبصورت ہونی چاہیے بے شک آپ ایک مگ بیچ رہے ہیں یا ایک چمچ بیچ رہے ہیں۔

مگر تصویر حقیقت پسندانہ ہونی چاہیے جس کو دیکھ کر گاہک کوالٹی، رنگ اور سائز کے بارے میں ایک حقیقت پسندانہ رائے قائم کر سکے۔

سب سے بڑا چیلنج

بدر خوشنود کہتے ہیں کہ ‘ہمارا تعلیمی نظام بہت ہی ناکارہ ہے ایمانداری سے کہتا ہوں کہ میں یہیں سے پڑھا ہوں۔ پاکستان کے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سے پڑھا ہوں۔ ہم ایک بہت دقیانوسی اور روایتی سسٹم سے گزر رہے ہیں۔’

اگر کسی صارف نے، نئے کاروبار کرنے والے یا پرانے کاروبار کرنے والے نے ای کامرس پر اپنے کاروبار کو لانا ہو تو وہ بنیادی معلومات اور تکنیکی معاونت کہاں سے حاصل کرے؟

بدر خوشنود کہتے ہیں کہ ‘اس کو بھی حل کرنے کے کچھ طریقے ہیں کہ لوگ کیسے اس کو بہتر کر سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کا ایک پروگرام ڈجی سکِلز اور حکومت پنجاب کا ای روزگار۔ آپ وہاں جا کر آن لائن بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔’

آن لائن

اس کے علاوہ بدر نے تجویز دی کہ ‘ایک سرٹیفیکیشن جو ہر کسی کو میں تجویز کروں گا کہ ضرور اس کے بارے میں پڑھیں وہ گوگل اینالیٹکس ہے۔’

اس کے مدد سے ایک کاروبار اپنی ویب سائٹ بہتر کر سکتا ہے۔

اور گوگل اور یوٹیوب ایک بہت بڑا وسیلہ ہے بلکہ معلومات کا خزانہ ہیں جہاں ہر موضوع اور ٹول کے بارے میں معلومات ہیں اور بہت سارے سوالوں کے جوابات ہیں۔ اور یہ مفت مواد ہے۔’

آخر میں لویزا بشارت کی جانب سے یاد رکھنے والا مشورہ یہ ہے کہ ‘ابتدا میں جب آپ کوئی بھی کام شروع کرتے ہیں تو آپ کو اس طرح سے رسپانس نہیں ملتا۔ لیکن وہ تمام لوگ جو اس طرح کا کام کر رہے ہیں میرا ان کو یہی پیغام ہے۔ کہ وہ اس چیز میں بالکل بھی نہ ہچکچائیں، بالکل بھی اپنا اعتماد نہ کھوئیں۔ اپنے کام میں لگے رہیں، اس کو کرتے رہیں۔ کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو ایک اچھا رسپانس ملتا ہے۔ آپ فوراً اس سے مایوس نہ ہوں۔ آپ متواتر اس پر کام کرتے رہے تو آپ کو نتیجہ ضرور ملے گا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32506 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp