لیکن ہار مقدر تھی۔


گرم سرد موسم، لاہور کی محبتوں اور وسعتوں سے بھرپور ہم دونوں نے شاید یک دم بڑھاپے میں قدم رکھ دیا۔ پتہ نہیں کیوں۔ اس میں بھی لاہور کے پانی کا ہی کوئی مسئلہ ہوگا یاپھر لاہور کی وسعتوں کا جو کہیں اور نہیں۔ رقبے کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک میں بھی نہیں اوریہ جو لاہور سے محبت ہے بحث شاید یہ تھی کہ مرد کچھ بھی کرسکتا ہے اور میں اسے سمجھا رہی تھی کہ نہیں ایسا بھی نہیں ہے آخر گھر میں اگر اتنی خوبصورت، سلیقہ شعار بیوی ہو تو کوئی باہر کیوں دیکھے گا اور وہ پھر اسی بات پہ مصر تھی کہ ”میری جان!

تو بہت معصوم ہے تجھے پتہ نہیں یہ مرد کیا کیا کرتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں سو کسی مرد کا کوئی اعتبار نہیں خصوصاً شوہر کا تو بالکل نہیں“ اور میں شوہروں کی معصومیت پر ایک لمبا چوڑا لیکچردیتے دیتے چپ ہی ہوگئی کیونکہ وہ میری اس بحث سے شاید تنگ آگئی تھی یا اس کے اندر پکتا ہوا لاوا باہر نکلنے کو بیتاب تھا۔ کتنا پک چکا تھا سب۔ اس کی شکایتوں سے بھری آنکھیں اور ایک حسین ترین چہرہ خزاں کے روندے ہوئے پتوں کی طرح انتہائی پژمردہ ہوگیا۔

خودکار خیالات پہ مبنی میرا تفصیلی لیکچر کسی نالی میں گر کر مجھے منہ چڑا رہا تھا کہ پٹی صرف تمھاری آنکھوں پہ نہیں لگی ہوئی بلکہ ایک گرہ ہے جو تمھارے دماغ میں بھی لگی ہوئی ہے۔ خوش گمانی ایک بہت بڑی نعمت ہے مذہب بھی اس کی ترویج کرتا ہے مگر جس تعفن زدہ معاشرے میں ہم رہتے ہیں جہاں لوگ ایک چہرے کے نیچے کوئی ڈیڑھ سو گدھ دبائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ مطلب پرستی کے وجود میں لپٹی مردہ انسانیت کسی کا بھلا سوچ ہی نہیں سکتی۔

اتنی عمر ہوگئی لوگوں کے اصلی روپ سامنے آتے رہے لیکن نوع انسانی کی مجبوری کہ آنکھیں بند کرنی پڑتی ہیں بہت سے رشتوں کی بقا کے لئے۔ بعض لمحے صرف آگہی کے ہوتے ہیں میں اس ملک میں اپنی سب سے پہلی دوست کے ساتھ رونما ہونے والے سانحے کے زیر اثر تھی میرے ہاتھ شل، زبان گنگ اور کانوں سے واقعتاًُ دھواں نکل رہا تھا میں اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ساحر ایسا کیسے ہوسکتا ہے اور حقیقتاً میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں دوبارہ کبھی اس شخص کا چہرہ بھی نہ دیکھوں اس وقت میری تمام تر ہمدردیاں، محبتیں اور آنسو اپنی دوست کے ساتھ تھے میرا دل زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا اتنی زور سے کہ پورے کمرے میں صرف اس کی آواز تھی اور مجھے کچھ اور سنائی ہی نہیں پڑرہا تھا ”پر تم وہاں پہنچیں کیسے؟

تمھیں بتایا کس نے آخر؟ دس منٹس میں پورے گھر کی گراسری کر کے، بلنگ کرا کے، ٹرالی میں ڈال کے پھر گاڑی میں رکھا، گاڑی سٹارٹ کرکے ٹائم دیکھا تو پورے تین منٹس ایکسٹرا لگ گئے۔ افسوس کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ پچھلے دنوں اک دوست نے بتایا کہ وہ بچوں کے سکول کے باہر 1 : 30 پہ گاڑی پارک کردیتی ہے جبکہ چھٹی 3 : 30 پہ ہوتی ہے۔ مجھے لگتا ہے مجھے ہی کوئی سائیکلاجیکل ایشو ہوگیا ہے ہر منٹ قیمتی لگتا۔ اف۔ دنیا زندگی انجوائے کررہی ہے اور میں گھڑی کی سوئیوں پہ فوکس ہوں بس۔

اک منٹ بھی ضائع نہ ہونے پائے اور اس بھاگم دوڑ میں جو اتنے سال پیچھے ہوتے جارہے ہیں مجھے ہوش ہی نہیں آرہا شاید یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ میں یہی چاہتی ہوں کہ وقت پر لگا کے اڑے اور کبھی میرے پاس منہ اٹھا کے کھڑا ہوا یہ نہ پوچھے اب میرا کیا کروگی“ مجھے اس نے خود کال کی تھی ”اس کی آنکھوں کے ساتھ آواز بھی ڈبڈبا گئی“ کس نے ”پتہ نہیں کیا انکشاف کرے گی یہ لڑکی“ وہ ایک فلیپینو لڑکی تھی اس کے ایکسنٹ سے صاف پتہ چل رہا تھا۔

بچے بہت تنگ کررہے تھے اوپر سے میری طبیعت بھی شدید خراب تھی اسی چیخ و پکار میں اس کی آواز رندھ چکی تھیساحر شادی سے دس سال پہلے کینیڈا آیا تھا وہ عمر جو کمانے کے ساتھ ساتھ دل لگانے کی بھی تھی اور پھر دل لگ گیا۔ محبت تو کہیں بھی کسی سے بھی ہوسکتی ہے یہ صورتیں اور نیشنلٹی کب دیکھتی ہے اور پھر اکثر تو مذہب بھی نہیں دیکھتی۔ اور اس افیئر کے دس سال تک وہ اپنے گھر والوں کو اس لڑکی سے شادی کے لئے منا نہیں پایا بلکہ الٹا گھر والوں کی پسند سے زبردستی شادی کر لی ”پتہ نہیں، اس کے دل میں کیا ہے اسے میں اچھی ہی نہیں لگتی“ اور میں اپنی اتنی خوبصورت دوست کی تکلیف دیکھ کے تڑپ جاتی ”تم اتنی پیاری ہو۔

پہلی نظر میں تو ماڈل ہی لگتی ہو“ پر یہ جو دلوں میں کوئی اور بس جاتے ہیں اور میں اکثر سوچتی تھی کہ پھر ایسے لوگ شادی کسی اور سے کیوں کرتے ہیں۔ کتنے برس تو مجھے یہ ہی سمجھ نہ آئی کہ لوگ شادی ہی کیوں کرتے ہیں۔ میں ایم اے انگریزی پاس۔ بولڈنیس سے ہمارا سلیبس شروع ہوتا تھا اور انسانی سوچ، روئے، سائیکالوجی، سماجیات اور جسمانیات کون سا پہلو تھا جسے ہم نے پڑھا نہیں تھا۔ سینٹرل سپیرئر سروسز کے خواب آنکھوں میں سجائے۔

یہ تک نہیں پتہ کہ لوگ شادی کرتے کیوں ہیں ”ماں نے زبردستی شادی کرادی تھی اس کی اگر یہاں کی لڑکی سے کرتا تو پھر اتنے بڑے کنبے کے اخراجات کون اٹھاتا“ اور میں اپنی لایعنی سوچوں سے ایک دم باہر آگئی ”اور شادی کے بعد۔ محبت کا کیا بنا“؟ ”قائم رہی“ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں موسم ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اکثر لوگ ایسے موسم میں ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ”مجھے بہت ڈپریشن ہوتا ہے“ ”تم تو پانچ ٹائم نماز بھی پڑھتی ہو“ ”میرے دل کو سکون نہیں آتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3