لیکن ہار مقدر تھی۔


ہم اپنے ماں باپ، بہن بھائی اپنا دیس چھوڑ کے کس لئے آتے ہیں میرا دل تڑپتا ہے میں نے کیا پایا ایک ایسا شخص جو میرے ساتھ رہتا ہے ایک چھت کے نیچے اجنبیوں کی طرح“ وہ رو پڑتی اور میں اس کی باتوں پہ اکثر یقین نہیں کرتی تھی سوچتی تھی کہ یہ بہت ڈیمانڈنگ ہے شاید۔ ساحر بہت اچھا انسان ہے ہر آسائش بھی مہیا کی ہوئی ہے۔ بات چیت کرنے میں بھی اچھا ہے فن لونگ ہے۔ پر۔ اس کے ساتھ۔ ”آج تک اس شخص نے کبھی میری تعریف نہیں کی حالانکہ میں دن رات اس کے لئے ایک کر کے دیتی ہوں مگر نہ یہ دن میں میری جانب دیکھ پاتا ہے نہ رات میں“ ”یار وہ تو اچھا خاصا خوش مزاج لگتا ہے“ ”ہاں جی بس دوسروں کے ساتھ“ اور وہ قیامت پتہ نہیں کیسے سہی ہوگی دو عورتوں نے۔

ہاں دو عورتیں۔ ایک بیوی اور دوسری محبوبہ۔ ایک کے ساتھ قانونی رشتہ اور دوسری کے ساتھ دل کا رشتہ۔ نہ ایک خوش نہ دوسری ہی خوش رکھی گئی۔ ”اس نے خود فون کرکے کہا تھا کہ تمھارا شوہر میرے پاس ہے میں نے اس سے انتقام لینے کے لئے تمھیں بتایا ہے تاکہ مجھے چھوڑ کے یہ کسی اور کی زندگی برباد کرنے نہ بیٹھ جائے۔ یہ شخص پچھلے پندرہ سال سے میری محبت کا دم بھر رہا ہے۔ میرے دل اور جسم دونوں سے مستفید ہورہا ہے مگر مجھ سے شادی نہیں کرسکتا۔

یہ کہتا ہے کہ اسے میرے جسم کی اتنی عادت ہے کہ اسے اپنی خوبصورت بیوی تک میں کوئی دلچسپی نہیں۔ مگر یہ مجھے جسم سے آگے بڑھنے نہیں دے رہا۔ میں بھی تمھاری طرح ایک مکمل عورت بننا چاہتی ہوں“ وہ بولتی جارہی تھی اور وہ ایک ہاتھ اپنی کمر پہ رکھ کے بمشکل خود کو کھڑا رکھے ہوئے تھی اپنے مکمل ہونے کا مان آج کس طرح سے کرچی کرچی ٹوٹا تھا لگتا تھا وقت سے پہلے ہی ڈلیوری کے لئے اسے ہسپتال جانا پڑجائے گاپندرہ سال کی والہانہ محبت ہار کے اس نے ایک بیوی کے ہاتھوں میں تھما دی اور بیوی۔

”وہ کہتا ہے اسے میرے جسم میں کوئی دلچسپی نہیں ہے“ پانچ بچے بھی ہوگئے۔ میرا سر چکرا رہا تھا میں نے سوچا تھا میں دوبارہ ساحر کو کبھی نہیں دیکھوں گی بھلے ہی ہم دونوں خاندانوں کی آپس میں دوستی تھی۔ میں بہت تکلیف میں آگئی تھی۔ مجھے اس بات کا بھی ہوش نہیں تھا کہ میری دوست اس قیامت سے کیسے گزری۔ وہ بھی اس حالت میں۔ میں نے دوست کی ہمت کی داد دی کہ اتنے بڑے سانحے سے گزر کر بھی اس شخص کے ساتھ رہ رہی ہے کوئی اور ہوتی تو کب کا چھوڑ کے چلی جاتی مگر میری پیاری دوست نے اپنے ہر قسم کے جذبات کی قربانی دے دی ”مجھے نہیں معلوم تمھیں اتنی بیماریاں کہاں سے لگ رہی ہیں اپنا خیال رکھو۔

مت محسوس کیا کرو دنیا کوبلکہ گولی مارو دنیا کو۔ “ اسے بہت سے فزیکل ایشوز ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اندر کی آگ سلگ رہی تھی جلنا تو تھا نا سب۔ اور ایک دن یونہی جھڑے پتے رولتے خیال آیا کہ جیسا آدھا ادھورا بھی تھا یہ شخص اپنی بیوی کے پاس تھا میری دوست کے پاس۔ اس کے بچے، اس کا گھر۔ سب اس کا۔ اللہ رکھے پر وہ پندرہ سالہ والہانہ محبت۔ اب سوچتی ہوں کہ لوگ محبت کرتے کیوں ہیں۔ دوسروں کی زندگیاں برباد کرنے کے لئے۔

یا پھر ان کے جسموں کو گھن لگانے کے لئے۔ ایک عورت کو تم نے پندرہ سال جسم سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ تمھارا سب تمھارے بیوی بچوں کا۔ اس کا کیا۔ میری دوست کے پاس ایک شوہر کا نام ہے۔ اس کے پاس تو نام بھی نہیں جس نے اپنے سالہا سال محبت کے نام پہ وار دییے۔ وائے محبت! کیا ملا۔ چار دن بیوی ناراض ہوئی پھر سیٹ ہوگئی۔ تمھارا ہنستا بستا گھر بستا رہا۔ اور وہ۔ جس کے دل میں تم بس رہے تھے۔ جس نے تمھاری راتوں کو قرار دیا اور دن کو تمھارے سپنے اپنی جاگتی آنکھوں پر سجائے۔

تم نے اسے کیا دیا بس یہ مان۔ کہ تم اس کے بنا نہیں رہ سکتے اور پھر۔ یہ مان بھی پورا نہ کر پائے۔ میرا سر درد نہیں ختم ہورہا تھا۔ مجھے پتہ تھا یہ سٹریس ہے مگر میں اس سٹریس کا کیا کروں جو دوسروں کی تکلیف دیکھ کے بھی مجھے کچوکے لگاتا ہے۔ اور میری اپنی تکلیفیں۔ مجھے کتنا توڑتی ہوں گی جب میں انھیں زباں تک لا بھی نہیں سکتی۔ میں نے رب سے ہمیشہ بڑے مان سے مانگا۔ اور اس نے مجھے دیا بھی اتنے ہی مان سے۔ اور پھر میں نے اسے دوسروں کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ میری ہتھیلیاں خالی۔ پر میں نے کبھی ان پر خواب نہیں سجائے۔ یہ خوابوں کا خراج بہت مہنگا پڑتا ہے۔ نہ آنکھیں رہتی ہیں نہ خواب۔ بس آنکھوں کے رستے خدا کا خوف بہتا ہے۔ کہ مجھ سے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3