شمالی علاقوں کی بس سروس ناٹکو میں کرپشن یا ناہلی؟


اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن (NATCO) حکومت پاکستان کا وہ بہترین ادارہ ہے جو غریب عوام کو سفر کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لئے دن رات کام کرتا ہے جو کہ کراچی سے لے کر گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں تک پھیلا ہوا ہے اور عرصہ دراز یہ ادارہ اپنے فرائض معمول سے کہیں زیادہ بڑھ کر انجام دیتا آ رہا ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کے دوسرے شہروں سے آنے والے سیّاحوں نے تسلیم کیا ہے بلکہ بیرونِ ملک سے گلگت بلتستان کی حسین و جنّت نظیر وادیوں کی سیروتفریح کے لئے آنے والے سیاح اور کوہ پیما بھی ناٹکو بس سروس کی تعریف کیے بنا رہ نہیں سکتے ہیں۔

لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہاں سے آگے میری تحریر کا رخ کچھ یوں بدلتا ہے دنیا میں کوئی بھی سرکاری یا نجی ادارہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اس ادارے میں کام کرنے والے ملازم ایماندار، سچے، کرپشن سے پاک اور اپنے ادارے سے وفادار نہ ہوں۔ میں اپنی کہانی اپنے ہی زبانی اپنے قارئین کو سنانے لگا ہوں۔ میں گلگت بلتستان کا پشنی باشندہ ہوں۔ اِن دنوں میں ایبٹ آباد میں جاب کر رہا ہوں۔

چند روز پہلے کی بات ہے، میرے پاس کراچی سے چند قریبی رشتہ دار مہمان آئے تھے جنہوں نے میرے ہاں تین چار روز قیام کے بعد گاؤں (ضلع غذر) چلے جانا تھا۔ چونکہ مہمانوں میں خواتین اور بچے شامل تھے خواتین میں سے دو کی عمریں تقریباً 70 سے 80 سال کے درمیان ہے اور انہی میں سے ایک خاتون شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ بھی ہے۔ میرا یہ سب کچھ لکھنا آپ کو عجیب ضرور لگ رہا ہوگا۔ لیکن یہ میں نے اس لئے ضروری سمجھا کہ لوگوں کے سامنے ناٹکو میں کام کرنے والے اُن چند لوگوں کا چہرہ بے نقاب ہو جو جھوٹ، لاپرواہی، دھوکا، فریب، بد اخلاقی اور بد سلوکی کی وجہ سے نہ صرف غریب عوام کو تکلیف پہنچاتے ہیں بلکہ وہ متعلقہ ادارے کی بھی ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔ اور اُن کی وجہ سے اس ادارے میں کام کرنے والے ایماندار اور خوش اخلاق ملازمین کی خدمات بھی خاک میں مل جاتی ہیں۔

میرے خالہ زاد بھائی ظفر اقبال مورخہ 8 فروری 2019 بروز جمعہ مذکورہ بالا مسافروں کے لئے راولپنڈی سے گاہکوچ غذر کے لئے ٹکٹس لینے ناٹکو بکنگ آفس پہنچ گئے اور مورخہ 11 فروری 2019 بروز سوموار شام 4 بجے کی بس نمبرGLTA۔ 5834 کی سیٹ نمبر 13، 14، 15 اور 16 ( 4 سیٹوں ) کے ٹکٹس کٹوائے اور یہ بس انتظامیہ کے ساتھ طے کرلیا تھا کہ یہ چاروں مسافر ایبٹ آباد سے بٹھیں گے۔ حسب معمول ان کا فون نمبر بھی انتظامیہ نے رجسٹر پر لکھ لیا گیا اور کہا گیا کہ بس انتظامیہ آپ سے رابطہ کرے گی۔

راولپنڈی ناٹکو کی بے حسی، نا اہلی اور لاپرواہی کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ رابطہ کرنا تو دور کی بات، یہاں تو آفس کا نمبر جو ٹکٹ پر درج ہے ( 0519334556 ) اس پر لگاتار کال کرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ اب چونکہ وقت بہت کم تھا اور مریض بوڑھی خواتین اور بچوں کے لئے شاہراۂ قراقرم پر دشوار اور طویل سفر اور اوپر سے ناٹکو والوں سے کوئی رابطہ نہ ہونا یہ سب پریشانیاں بڑھتی جارہی تھی۔

ہم نے اِدھر اُدھر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطہ کرکے اُسی بس میں موجود کنڈکٹر کا نمبر ڈھونڈ لیا اور ان سے رابطے سے پتہ چلا کہ گاڑی اس وقت حسن ابدال سے آرہی ہے۔ اس کے بعد کنڈکٹر نے بھی کال نہیں اٹھائی۔ تقریباً دو گھنٹے بعد کنڈکٹر نے ہماری کال اُس وقت اٹھائی جب ہم نے گاؤں میں موجود ناٹکو کے ملازم جناب نذر بھائی سے رابطہ کیا جن کا تعلق اشکومن بارجنگل سے ہے۔ ان سے گزارش کی کہ آپ مہربانی کرکے کسی طریقے سے کنڈکٹر  یا ڈرائیور سے رابطہ کریں اور پوچھیں کہ بس اس وقت کہاں پہنچی ہے کہیں ہمارا سٹاپ کراس کرکے آگے نکل تو نہیں گئی۔

اس دوران مسافر خواتین اور بچے جس قدر پریشانی اور تکلیف میں تھے وہ میرا رب اور میں جانتا تھا۔ نذر بھائی سے رابطے ے کے فوراً بعد کنڈکٹر نے ہماری کال ایک دم سے اٹھائی جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ انہیں نذر بھائی نے ہماری کال اٹھانے کی سفارش کی تھی۔ لیکن کیا! جس وقت کنڈکٹر سے رابطہ ہوا تھا تب تک گاڑی ہمارے سٹاپ سے تقریباً ایک کلومیٹر آگے نکل چکی تھی۔ ہم نے گاڑی رکوائی اور خواتین اور بچوں کو لے کر ٹیکسی بُک کرکے بس تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

ارے! یہ کیا؟ آسمان سے گرے اور کھجور میں اٹکے،کنڈکٹر کا ہماری کال کا جواب نہ دینے کی وجہ یہاں واضح ہوجاتی ہے۔

جن چار سیٹوں کے ٹکٹس ہمیں دیے گئے تھے وہ چار کے چار پہلے سے ہی بھری پڑی تھی اس کے علاوہ بس میں اور کوئی نشست خالی نہیں تھی۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ناٹکو بکنگ آفس راولپنڈی میں ایک سیٹ کے لئے دو مسافروں کے نام ٹکٹیں کٹتے ہیں۔ اگرنہیں تو اس کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مسٹر کنڈکٹر راستے سے فالتو سواریوں کو بٹھاکر ان سے غیر قانونی طور پر کرایہ وصول کرکے اصل سواریوں کو چکما دے کر نکل جاتا ہے۔

ان کا ہماری کال کا جواب نہیں دینا بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔ اُدھر ڈرائیور صاحب کو اس حد تک جلدی تھی جیسے اُنکے پیچھے پولیس لگی ہوئی ہو۔ ابھی مریض خواتین بوڑھی مائیں بس کے بیچ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان کھڑی کھڑی چکرارہی ہیں اور ڈرائیور بس کو فُل سپیڈ میں بھگائے جارہا ہے۔ ہم نے سواریوں کو بٹھاکر واپس جانا تھا جبکہ ہمیں بھی اسی کشمکش میں ساتھ لے کر تقریباً ایوب میڈیکل کمپلیکس کے قریب پہنچادیا۔ ہم نے بڑی مشکل سے گاڑی روک لی۔ پھر ہم نے ڈرائیور سے کہا کہ جب تک ہماری سیٹیں ٹکٹس کے مطابق نہیں ملیں گی، تب تک گاڑی مارچ نہیں کرے گی۔

یہاں ایک بات سمجھ سے بالاتر تھی ڈرائیور سے پوچھو تو وہ کہتا ہے کہ یہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میرا کام نہیں۔ کنڈکٹر سے پوچھو تو کہتا ہے یہ میرا کام نہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کام آخر ہے کس کا؟ شاید یہ کارنامہ بکنگ آفس میں بیٹھے مُنشی ہی انجام دیتا ہوگا۔ موصوف خود فون تک اُٹھاتا نہیں ہے اور ٹکٹس ایک سیٹ کے دو مختلف مسافروں کے نام پرنٹ کرتا ہے۔ بہرحال اس نے مسافروں کو بڑی تکلیف اور اذیت دے کر ہمارے چاروں سیٹیں خالی کروائی۔

اور ان مسافروں کو جو پہلے سے ہماری سیٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے بڑی مشکل سے پیچھے کونے میں کسی جگہ ایڈجسٹ ہوئے ہوں گے۔ بلآخر سواریوں کو بٹھاکر گاڑی سے اترتے ہوئے میں نے کنڈکٹر سے عاجزانہ طور پر کہہ دیا کہ برائے مہربانی جاگ کر ڈیوٹی کیا کریں آپ کی معمولی سی لاپرواہی کی وجہ سے لوگوں کو کتنی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ یہ کہہ کر میں گاڑی سے اتر آیا۔ اس پر کنڈکٹر غصے سے آگ بگولہ ہوگیا اور ڈرائیور کو اشارہ کرکے گاڑی رکوائی اور آستین چڑھا کر میری طرف بڑھ آیا۔ خیر میں نے کوئی ایسا ردّعمل نہیں اپنایا جس سے خدانخواستہ کوئی ہنگامہ آرائی ہو اور تمام مسافروں کو اس سے متاثر ہونا پڑے۔ اور کنڈکٹر کو شرمندگی کے ساتھ واپس جانا پڑا۔

ہم گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت، پولیس اور خاص طور پر ناٹکو کے اعلیٰ انتظامیہ سے یہ پرزور اپیل کرتے ہیں کہ اس سروس کو غریب عوام، مریضوں، طالبعلموں، تاجروں، پاکستان آرمی اور دوسرے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک بہتر سہولت کا کا ذریعہ بنایا جائے نہ کہ یہ ان سب کے لئے تکلیف اور پریشانی کا سبب بنے۔ اور ساتھ ساتھ ہم یہ مطالبہ کرتے کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا کوتاہیوں کے ذمہ داروں کے خلاف ڈسپلنری ایکشن لیا جائے تاکہ ان کی وجہ سے آئندہ بھی مسافروں کو ایسی تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا نہ پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).