کیا ہری لعل کی بیٹیاں ہماری بیٹیاں نہیں؟


بیٹی ایک نعمت اور خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ بیٹی سے بڑھ کر باپ کے لئے پیارا اور خوبصورت رشتہ اور کوئی نہیں۔ رسولؐ خدا نے تو دشمن کی بیٹی کا بھی کھڑے ہو کر نہ صرف استقبال کیا، بلکہ ان کے لئے اپنی چادر بھی زمین پر بچھا دی۔ ہمارے ہاں خوبصورت روایتیں رہی ہیں، کہ بیٹی کے گھر سے کچھ لینا نہیں اور خالی ہاتھ بیٹی کے گھر جانا نہیں، اور بیٹی کا سوال ضرور پورا کرنا ہے۔ غرض کہ بیٹی نہ صرف نہایت قابل احترام، بلکہ ماں باپ کی آن بھی ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے اور خاص کر گاؤں دیہات میں آج بھی اگر کبھی کسی کی لڑکی گھر سے بھاگ جاتی، یا بھگا لی جاتی ہے، تو اس لڑکی کے والدین کے لئے اس سے بڑھ کر دکھ اور شرمندگی کی بات اور کوئی نہیں ہوتی۔ ایسے خاندان اور خاص کر والد کے لئے باقی ساری عمر وہاں منہ چھپا کر رہنا مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسے میں کئی واقعات میں والدین صدمے سے چل بستے ہیں، خود کشی کر لیتے ہیں، یا پھر وہ جگہ ہی چھوڑ دیتے ہیں، جہاں کبھی وہ برسوں سے اور کبھی تو پرکھوں سے رہ رہے ہوتے ہیں۔

گھوٹکی سندھ کے علاقے دھہڑکی کے غریب ہندو باپ ہری لعل کے ساتھ بھی یہی صورتحال ہے۔ عین ہولی کے تہوار والے دن ان کے گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ان کی دو نو عمر بیٹیاں گھر سے غائب ہو گئیں۔ بعد میں پتا چلا کہ لڑکیاں براستہ درگاہ بھرچونڈی شریف اسلام کی آغوش میں پہنچ چکی ہیں، جہاں نور ایمانی سے منور ہونے کے فوراً بعد صفددر اور برکت نام کے دو صالح مومنین نے انہیں اپنے عقد میں قبول کر لیا ہے۔ اس واقعے کی تصدیق ایک ویڈیو کی صورت میں ہو چکی ہے۔

جس میں دونوں لڑکیاں اپنے مومن شوہروں کے بیچ میں پھنسی بیٹھی ہیں، اور عین شرعی طریقے سے لوگوں کی موجودگی میں اپنے شوہروں کے گلے میں باہیں ڈال کر ان کو لڈو بھی کھلا رہی ہیں۔ دونوں نوجوان شکل سے ہی انتہائی معصوم اور پابند صوم و صلواٰت لگتے ہیں۔ ہاں بدخواہوں کی نظر میں وہ ضرور اچکے ہوں گے، وہ تو یہ بھی کہیں گے کہ یہ سب ڈرامہ اپنے گھٹیا سفلی جذبات کی تسکین کے لئے کیا جا رہا ہے، لیکن اس طرح کے دین دشمن تو ہر جگہ ہو سکتے ہیں، جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ اسلام کا بول بالا ہو۔

اللہ کے کرم سے بھر چونڈی کے میاں مٹھا اس طریقے سے سینکڑوں ہندو ناریوں کے دل میں اسلام کی شمع روشن کر چکے ہیں۔ اس کے بعد سے ملک میں مبارک، سلامت کا شور ہے اور لڑکیوں کی استقامت کی دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔ ویسے یہ بات کچھ حیران تو کرتی ہے کہ اسلام کا ٹھاٹیں مارتا سمندر صرف نو عمر ہندو لڑکیوں کے سینے میں ہی کیوں موجزن ہوتا ہے، لیکن یہ سوال اٹھاتا کوئی نہیں ہے۔ غریب ہندو خاندان اور ان کے ساتھ کچھ راندہ درگاہ مسلمان، جن کو حقارت سے لبرل بھی کہا جاتا ہے، کچھ شور شرابا ڈال رہے ہیں۔

لیکن امید ہے ملک میں اسلام کا بول بالا ہو کر ہی رہے گا۔ لڑکیوں کے باپ ہری لعل نے انصاف نہ ملنے کی صورت میں خودکشی کی دھمکی دی ہے۔ کیا یہ وقت نہیں کہ ہم اکثریتی مسلمان لوگ کچھ دیر کے لئے ہری لعل کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں، کہ خدا نخواستہ اگر ہم میں سے کسی کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پیش آجائے، تو کس قدر کرب اٹھانا پڑے گا، کیسی اذیت ہوگی، یہ سوچ کر کہ ہماری بیٹی جس کی عمر صرف تیرہ یا چودہ سال ہے، کسی جنسی بھیڑیے کے پاس ہے۔

اور وہ پوری آزادی سے اس کا استحصال کر رہا ہے۔ اس عمر میں معصوم بیٹیاں اپنی زندگی کے فیصلے کیسے لے سکتی ہیں۔ کیا ہمیں ہری لعل جیسے مظلوموں کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ جب سرحد پار سے اسی سے ملتے جلتے واقعات کی خبریں ملتی ہیں، جہاں مسلمان لڑکیوں کی ہندووں سے ذبردستی شادیاں کروا دی جاتی ہوں یا گھر واپسی کے نام پر مسلمانوں کو جبری مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہو، تو ہم درد سے بلبلانے لگتے ہیں۔

اگر ایک چیز سرحد کے اس پار غلط ہے تو یہاں آ کر ٹھیک کیوں ہو جاتی ہے۔ کیا یہ اقلیتی برادریوں کے لوگ ہماری ذمہ داری نہیں۔ اور کیا اسلام کے نام پر اپنی جنسی ہوس پوری کرنا اسلام کی توہین نہیں؟ اگر یہ جنسی ہوس پوری کرنا نہیں تو کیا کسی کے پاس کوئی ایسے اعداد و شمار موجود ہیں کہ کہیں پر کسی ہندو نو مسلم کو کسی مسلمان نے اپنی فرزندی میں لیا ہو؟ اگر اقلیتی فرقے کے لوگ آپ کی عام معاشرتی زندگی میں چوڑے چمار ہی رہتے ہوں، اور ان کو اپنی بیٹی دینے کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا ہو، تو ان کی بیٹی سے اتنا التفات کیوں؟

یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پچھلے کئی برسوں میں ہزاروں ہندو لڑکیاں اسی طرح سے اٹھائی جا چکی ہیں۔ ہزاروں خاندان یہاں سے بھارت جا چکے ہیں۔ ہزاروں جانے کی تیاری میں ہیں۔ خدارا ہندووں، سکھوں اور عیسائیوں کی بیٹیوں کو بھی اپنی بیٹیاں سمجھیے۔ اسلام کے پردے میں ان کی بیٹیاں ہتھیانے سے اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہو رہی۔ باہر کی دنیا میں ایسے واقعات ہمارے وطن کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ ہری لعل کی بیٹیاں ہماری بیٹیاں ہی ہیں۔ آئیے اپنی بیٹیوں کے لئے آواز اٹھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).