اساتذہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں کیوں داخل کرائیں؟


سرکاری سکولوں سے بھاری مراعات اور تنخواہیں لینے و الے اساتذہ کے اپنے بچوں کا پرائیویٹ یا پبلک سکولوں میں زیرتعلیم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اساتذہ کو سرکاری نظام تعلیم پر اعتماد نہیں ہے بالفاظ دیگر انہیں خود پر اعتبار نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو دیگر سکولوں میں داخل کراتے ہیں تاکہ ان کے بچے معیاری تعلیم حاصل کرسکیں جبکہ عوام کے بچے روایتی تعلیم ہی حاصل کریں۔ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے لئے ملک بھر میں مراعات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اور تنخواہوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے تاکہ وہ دلجمعی سے طلباءکی تعلیم پر توجہ دے سکیں۔ لیکن یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سرکاری سکولوں کے امتحانی نتائج دیگر پرائیویٹ سکولوں کے مقابلے میں کمزور اور ناقابل بیان حد تک کم ہوتے ہیں۔ جب بھی نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے اکثر نجی تعلیمی ادارے سرکاری سکولوں کے مقابلے میں میدان مارتے ہیں جبکہ سرکاری سکول سپلمنٹری کی شرح میں آگے ہوتے ہیں۔

آئین پاکستان کے مطابق بچوں کو ابتدائی تعلیم دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسے بچوں کا بنیادی حق قرار دیا ہے جبکہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا یہ شعبہ صوبوں کو منتقل ہوگیا ہے جس کے بعد اب صوبے اس معاملے میں با اختیار ہیں کہ وہ اپنے لئے تعلیمی پالیسی بناسکتے ہیں۔

اساتذہ، تعلیم اور بچوں کے مابین پائے جانے والے اس خلاءکو پر کرنے کے لئے گلگت بلتستان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایسی پالیسی بنائے ں گے جس کے ذریعے محکمہ تعلیم سے جڑے تمام افسر ان اور ملازمین کے بچے سرکاری سکولوں میں ہی داخل کرائیں گے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے اس حوالے سے دو مرتبہ عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا اور اساتذہ کی یونین ٹیچر ایسوسی ایشن سے بھی درخواست کی کہ اس معاملے میں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔

پاکستان کا تعلیمی نظام غالباً انگریز دور میں متعارف کرائے گئے نظام میں معمولی ترمیم کے ساتھ اب بھی اسی طریقے سے لاگو ہے۔ سرکاری سکولوں اور نجی اداروں میں نصاب کا فرق سب سے اہم ہے۔ ماضی میں درس و تدریس کے ساتھ وہی لوگ منسلک ہوتے تھے جنہیں دیگر کسی بھی شعبے میں قبول نہیں کیا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ گلگت بلتستان سمیت پورے ملک میں اساتذہ کی بھرتیوں کے لئے باقاعدہ نظام موجود ہے جس سے کامیاب ہونے والے ہی بھرتی ہونے کے اہل پاتے ہیں۔

ماضی کے مقابلے میں آج کے اساتذہ باصلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں مگر ان کی اپنے بچوں کے تعلیم کے لئے سرکاری سکول ترجیح میں نہیں ہے۔ اس کے متعدد وجوہات ہیں جن میں ایک سرکاری سکولوں کا روایتی نظام اور نصاب تعلیم بھی ہے جو اب فرسودہ ہوچکا ہے۔ جدید علوم کا خلاءموجود ہے۔ طلباءو طالبات کو ڈاکٹر اور انجینئر کے علاوہ دیگر شعبہ جات کی جانب بھی راغب کرنا پڑے گا۔ ایک جامع نصاب تعلیم کے لئے ماہرانہ کمیٹی بنانے ا ور اسے فعال کرنے کی ضرورت ہے جس کے بعد سرکاری سکولوں کے لئے جدید نصاب تیار ہوسکے گا۔

بعض ماہرین اور اہل علم 18 ویں ترمیم میں تعلیم کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہونے پر تنقیدی نظر رکھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر ہر صوبہ اپنے اپنے لئے الگ الگ نصاب قائم کرے گا تو قومی سوچ اور وحدانیت کی فکر کہاں جائے گی؟ ہر صوبہ اپنے اپنے آباءکی تعریفوں پر مبنی نصاب قائم کرے گا تو کیا وہ ملکی سطح پر قوم کی خدمت کرسکے گا؟ جدید نصاب کا معاملہ پنجاب سمیت کسی بھی صوبے میں قائم نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ اس کے لئے وفاق کے تمام اکائیوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کے یونینز کو چاہیے کہ اس بارے میں جامع رپورٹ حکومت کو پیش کریں۔

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی جانب سے تعلیم کی بہتری کے لئے اس سوچ کو یقینا سراہا جانا چاہیے کہ انہوں نے تعلیم اور محکمہ تعلیم میں اصلاحات لانے کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن اصلاحات صرف اساتذہ، افسر ان یا ملازمین کے بچوں کو سرکاری سکول میں داخل کرانے سے ممکن ہوتی تو یہ پالیسی شاید بہت پہلے بن چکی ہوتی ہے۔ یہ خوشنما نعرہ عملی طور پر کھوکھلا ہے جس میں کوئی وزن نہیں ہے۔ اگر سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم کو بہتر کیا جائے تو اساتذہ اپنے بچوں کو خود سرکاری سکولوں میں لے کر آئیں گے۔ اگر ایک استاد چاہتا ہے کہ اس کا بچہ آکسفورڈ، گابا، آفاق یا کوئی اور نصاب پڑھانا چاہتا ہے تو کیا ڈنڈے کی زور پر اس سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا نصاب پڑھایا جاسکتا ہے؟

حال ہی میں وفاقی حکومت نے ملک بھر سے دوسالہ بی اے کا نظام ختم کرکے چارسالہ بی ایس لاگو کردیا ہے۔ یہ قدم جدید اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ قدم بقدم چلنے کی ایک کاوش ہے مگر وہ لوگ کہاں جائیں جو دیگر شعبوں میں روزگار کماتے ہوئے مشکل سے اپنی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ریاست کو سوچنا چاہیے کہ اس اقدام سے ملک میں شرح تعلیم میں اضافہ ہوگا یا کمی ہوگی؟ جن لوگوں کے پاس وسائل ہیں وہ تو آسانی سے چار سالہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں لیکن جن لوگوں کے پاس وسائل نہیں ہے اور روزانہ کی بنیاد پر کماکر اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں وہ کہاں جائیں گے؟

گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں ایسے نجی تعلیمی ادارے موجود ہیں جن کا نصاب فرقہ وارانہ مواد سے بھراپڑاہوا ہے۔ جہاں پر دیگر فرقوں کے بارے میں اچھے خیالات نہیں پائے جاتے ہیں جہاں پر اکابرین یا بزرگ دین کا تصور صرف اپنے ’فرقے‘ تک محدود ہیں۔ تعلیمی اصلاحات کا سلسلہ اگر اسی سے کیا جائے تو پوری قوم کا مستقبل سنورسکتا ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟

تعلیمی پالیسی کے لئے پچاس سالہ اور کم از کم بیس سالہ اہداف مقرر کردئے جاتے ہیں اور سالانہ ان اہداف کے حصول کی نگرانی کی جاتی ہے۔ کچھ دہائی قبل جو ممالک تعلیمی لحاظ سے دیگر ملکوں سے بہت پیچھے تھے اپنے مستقبل کے معماروں کا مستقبل سنوارنے کے لئے انہوں نے طویل المعیاد اہداف مقرر کردئے اور سالانہ ان کی نگرانی شروع کردی اور رفتہ رفتہ وہ تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتے گئے۔

تعلیمی نظام کا ایک اور خلاءامتحانی نظام میں موجود ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تمام طلباءو طالبات ایک ہی ذہنیت کے مالک نہیں ہوتے ہیں۔ ہر طالبعلم کا ذہن الگ الگ ہوتا ہے بعض طلباءمیں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ سالانہ نصاب کو چند مہینوں میں مکمل کرسکتے ہیں لیکن انہیں دیگر طلباءکے ساتھ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اب جو طالبعلم چھ ماہ میں کورس مکمل کرسکتا ہے اس کو سال پوراکروانا کیسی روایت ہے؟

تعلیمی نظام میں نقائص کی بھر مار ہے جن کو دو رکرنے کے لئے اعلانات اور فیصلے نہیں بلکہ پالیسیاں بنانی پڑیں گی۔ اگر اساتذہ کے بچوں کو سکول میں داخل کرانے کے اعلان سے نظام ٹھیک ہوتا تو وزیراعلیٰ کو خصوصی ہار پہنانا فرض بنتا لیکن معاملہ اتنا آسان نہیں ہے۔ جو وزیرتعلیم سالانہ ایجوکیشنل کانفرنسز میں شریک ہوتا ہے وہ اپنے صوبے میں کسی تعلیمی کانفرنس میں شریک ہی نہیں ہوتا تونظام تعلیم میں تبدیلی کیسے ممکن ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).