سائنس مردہ باد!


آؤ کبوتر اڑائیں۔ یہ طنز نہیں، دعوت ہے۔ کبوتر امن کی بھی تو علامت ہے۔ سائنس مگر کس چیز کی علامت ہے؟ بات بڑے مبہم انداز میں ہو رہی ہے۔ تھوڑی شاعرانہ بھی مگر شاعری کرنا اور فلسفہ بگھارنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ سائنس مردہ باد! اس لئے کہ سائنس نے انسان کو چاند پر پہنچنے کی جھوٹی کہانی سنا کر مبہوت کر دیا۔ آج تک لوگ عقیدے کی طرح یہ بات سینے سے لگائے بیٹھے ہیں کہ 1969 ء میں انسان چاند پر گیا تھا۔

پچھلے پیراگراف میں ہم نے مذاق کیا ہے۔ ہمیں عرف عام میں سازشی نظریات ( Conspiracy theories) کا کوئی خاص شوق نہیں۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں اگر انسان چاند، مریخ، مشتری وغیرہ پر پہنچ جائے اور بلکہ وہاں رہنا بھی شروع کر دے۔ ہمارا مسئلہ اس مضمون میں کچھ اور ہے، مگر بات شروع کرنے سے پہلے ایک مرتبہ زور سے نعرہ بلند کیجئے۔ سائنس مردہ باد!

دراصل ہم سائنس پر نہیں عقیدے پر بات کرنا چاہتے تھے۔ عقیدہ ہمیشہ ہی عقل کے بجائے دل کا معاملہ ہوا کرتا ہے۔ عقیدہ محبت کا معاملہ ہوتا ہے، جب کہ اصولی طور پر سائنس کوئی عقیدہ نہیں ہے بلکہ عقل، محسوس اور منطق پر مبنی علم ہے۔ سائنس میں جذبات کو کوئی گنجائش نہیں۔ سائنس میں پسند ناپسند کا کوئی معاملہ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ سائنس تو اصولی طور پر معروضی (Objective) ہے۔ اگر ایسا ہی ہے اور ظاہر ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے اصولی طور پر، تو پھر کسی کو بھی سائنس مردہ باد کے نعرے پر ناراض نہیں ہونا چاہیے۔

کسی کو بھی سائنس کے تبرے پر برا نہیں ماننا چاہیے، اس لئے کہ سائنس تو کوئی عقیدہ ہے نہیں۔ پھر سائنس کے دشمنوں کو جاہل، انسانیت کا دشمن وغیرہ قرار دینا بھی غیر سائنسی رویہ ہوا۔ اصولی طور پر تو ایسے میں سائنس کو حق ماننے والوں کو ایسا نعرہ لگانے والے سے نعرے کی سائنسی دلیل مانگنی چاہیے۔ مگر ہمارے نعرے پر ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ آپ اتنے جلال میں، اتنے غصے میں کیوں آ رہے ہیں یہ پڑھ کر؟ اس کی سیدھی سادی وجہ جو ہم کو علم نفسیات کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے سائنس کے ساتھ بھی بالکل ویسے ہی جذبات منسلک کر لئے ہیں جیسے جذبات مذہب کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے بارے میں تو ہر نوع کی منفی باتیں اب لوگ برداشت کر ہی لیتے ہیں مگر سائنس کے بارے میں ایک لفظ بھی الحاد کے درجے پر فائز کر لیا گیا ہے۔

”جمہوریت دنیا کا سب سے گھٹیا نظام حکومت ہے، بادشاہت اس سے بہتر اور برتر نظام ہے“ یہ جملہ پڑھ کر آپ کو غصہ آیا؟ نہیں؟ ایک مرتبہ پھر یہ جملہ دل لگا کر پڑھیے۔ ”جمہوریت دنیا کا سب سے گھٹیا نظام حکومت ہے، بادشاہت اس سے بہتر اور برتر نظام ہے۔ “ برا لگا؟ چلئے اس ذہنی وزرش کو اور آگے بڑھاتے ہیں۔

”سرمایہ داری نظام حکومت سب سے ناکام نظام معیشت ہے۔ اس کو بدل دینا چاہیے، بینک بند کر دینے چاہئیں اور شیئر بازار پر تالا ڈال دینا چاہیے۔ “

”ٹیکنالوجی ایک عذاب سے کم نہیں، موبائل فون پر پابندی لگا دینی چاہیے، کمپیوٹر اور ٹی وی توڑ دینے چاہئیں۔ “

برا لگا؟ نہیں؟ راقم یہاں پر ایک بات کی وضاحت کر دے کہ وہ ضروری نہیں کہ ان باتوں پر ہی یقین رکھتا ہو جو اس نے تحریر کی ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ سائنس، جمہوریت، سرمایہ داری نظام، ٹیکنالوجی وغیرہ جیسے نظریات اب دراصل نظریے کی چیزوں کے بجائے عقائد بن چکے ہیں۔ ایسے عقائد جن پر سوال اٹھانا ہی الحاد ہے، ایسے عقائد جن کی دن رات پرستش ہوتی ہے۔ ”ترقی مردہ باد، ترقی مردہ باد، ترقی مردہ باد! “ کیسا لگا؟

سائنس، ٹیکنالوجی، ترقی، آزادی اظہار، جمہوریت، سرمایہ داری۔ یہ سب اب اصل میں جدید دنیا کے لئے عقائد ہیں۔ دنیا کی جمیع اکثریت ان پر ایمان لا چکی۔ پرانے عقائد یعنی مذہب، مسلک، دین، دھرم وغیرہ۔ اب دوسرے درجے کے عقائد میں شمار ہوتے ہیں، لوگ ان پربھی جذباتی ہو جاتے ہیں مگر ظاہر ہے ان پر جذباتی ہونا تو بنتا ہے کیونکہ عقیدہ تو جذبات سے منسلک ہی ہوتا ہے مگر سائنس، ٹیکنالوجی، جمہوریت وغیرہ پر اتنے جذبات یہی ثابت کرتے ہیں کہ یہی اب انسانوں کے ایک بڑے طبقے کے حقیقی عقائد ہیں۔ یہ موضوعات اب Taboo کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ ”ترقی مردہ باد“ کا نعرہ اب ایسا ہے جیسے آپ incest پر بات کر رہے ہوں بلکہ اس سے بھی بڑا Taboo پر۔

سائنس، ٹیکنالوجی، جمہوریت وغیرہ اب کچھ بھی معروضی نہیں۔ صریحاً ذاتی اور جذباتی معاملات ہیں، لوگ اب ان ”بتوں“ کی ہی پوجا کرتے ہیں، ان کی آرتی اتارتے ہیں، انہیں اپنے گھروں میں لگاتے ہیں، انہی سے مرادیں مانتے ہیں اور انہی سے امیدیں لگاتے ہیں، اب ان پر غور ناممکن ہے۔ اب معروضیت ناممکن ہے، اب صرف اِن کی جے جے کار ہی ممکن ہے، اب بس ان کے لئے زندہ باد کا نعرہ ممکن ہے۔ اسی لئے چلئے ایک ذہنی ورزش کے ہی طور پر نعرہ بلند کیجئے۔ سائنس مرد ہ باد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).