دہشت گردی کو شکست دینا ممکن ہے


دہشت گردی کے بھوت نے پوری دنیا میں دہشت پھیلائی ہوئی ہے۔ اس کو ختم کرنے کی بات تو ہوتی ہے لیکن اس کو ختم کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اس سے مزید دہشت گردی پھیلتی ہے۔ سالوں پر سال گزر رہے ہیں مگر یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا۔

اس کے ختم نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کو ایک مذہب سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جب مذہبی آمیزش ہو تو دنیا خود بخود تقسیم ہوجاتی ہے۔ اس لیے سوچ کا دھارادہشت گردی سے ہٹ کر مذہب کے خلاف ہوجاتا ہے۔ اب مذہب ایسا معاملہ ہے جس میں دخل اندازی سے کبھی بھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ مذہب تبدیلی کوئی آسان کام نہیں۔ اس لیے جب اس الزام کی فضا یہ بنا دی جائے کہ ایک مذہب دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے تو اس مذہب کے ماننے والے کبھی بھی اس بنیاد پر اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے کیونکہ ان کا مذہب تو اس دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا۔

وہ مذہب تو امن اور سلامتی کی بات کرتا ہے۔ اس لیے وہ اسے اپنے مذہب پر صرف ایک الزام کے طور پر دیکھتا ہے اور نظر انداز کر دیتا ہے۔ لیکن جب مذہب پر حملہ کی شکل بنے گی تو پھر مختلف ردعمل ظاہر ہوں گے۔ کچھ خاموش ہوجائیں گے تو کوئی جواب دیں گے۔ پھر جواب میں سختی آئے گی تو وہ کسی بھی حد تک پہنچ جائے گی۔ کئی دوسرے عوامل بھی اثرانداز ہوں گے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اس نام نہاد مذہبی دہشت گردی کو استعمال کریں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ دہشت گردی مزید پھیلے گی۔

اب دوسرے پہلو کی طرف آئیں۔ جہاں یہ فضا ہو کہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہو تو اس کے حقائق یہ پیش کیے جائیں کہ یہ ایک مذہب کی وجہ سے ہے تو ظاہر ہے دیکھنا والا تو مذہب کو ہی برا کہے گا دہشت گردی کو نہیں۔ وہ بغیر تحقیق کیے بغیر مطالعہ کیے وہ اس مذہب کو دہشت گرد سمجھنا شروع کردے گا۔ اس کے نیتجہ میں سوچ یہ بنے گی کہ اس مذہب کے خلاف کوئی بھی کسی قسم کی بھی کارووائی کی جائے وہ درست ہے کیونکہ وہ مذہب ہی دہشت گرد ہے۔ اس کی بنیاد پر بھی پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو اپنی ذات میں ایک بہت بڑی دہشت گردی ہے۔

اس لیے جو یہ فقرہ کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ درست ہے لیکن دہشت گردی کو مذہبی لبادہ پہنایا جائے تو اس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ دہشت گرد ی کو فروغ کئی عوامل کے ساتھ جوڑنے سے ملا ہے۔ پہلے زمانہ میں بھی دہشت گردی ہوتی کبھی علاقائی تقسیم، کبھی نسلی امتیازات، کبھی وسائل و معدینا ت، کبھی دولت اور کبھی مذہبی بنیاد پر بھی۔ ذرائع ابلاغ کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا دائرہ اثر محدود ہوتا تھا۔ ایک وقت اور ایک علاقہ تک۔ پھر وہ واقعہ قصہ پارینہ بن جاتا اور ماضی کے اوراق اس کو لپیٹ لیتے تھے۔ لیکن موجودہ زمانہ میں کوئی واقعہ بھی معمولی نہیں رہتا۔ خاص طور پر لسانی، علاقائی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر ہونے والے واقعات گہرا اثر پیدا کرتے ہیں۔ جلد یا بدیر وہ اثر اپنا نتیجہ ظاہر کرتا ہے۔

اس لیے دنیا کے ارباب اختیار کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ان عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ہو اسے دہشت گردی کے علاوہ کوئی اور لبادہ نہ اوڑھنے دیا جائے۔ اور اس کے خلاف سب اکٹھے ہوجائیں تو اس طرح کے واقعات کم ہونے شروع جائیں گے اور اگر اس واقعہ کرنے والے کے خلاف سخت اقدامات کریں تو پھر بہت جلد ان میں کمی آنی شروع جائے گی۔ مسئلہ ہی اس وقت بنتا ہے کہ جب اس واقعہ کو کوئی لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے۔

مثلاً آج کل کوئی بھی واقعہ ہو اگر اسے کرنا والا مسلمان ہے تو بیانیہ یہ بنتا ہے کہ اسلام دہشت گرد مذہب ہے۔ اس بیان کے دیتے ہی دہشت گردی کو اسلام کا لبادہ اوڑھا کر چھپا دیا جاتا ہے وہ اسی طرح ہی پنپتی رہتی ہے۔ اس اسلام مخالف بیان کو بنیاد بنا کر پھر اسلام کے خلاف دہشت گردی کی جاتی ہے۔ لیکن اسلام کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کو نسلی ولسانی امتیاز کا لبادہ اوڑھا کر دہشت گردی کو چھپادیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے وہ دہشت گردی اسی طرح پروان چڑھتی رہتی ہے۔

اس لیے سب سے پہلے ان لبادوں کو ختم کیا جائے۔ دہشت گردی کو ایک جرم کے طور پر لے کر اس کی ایسی تعریف کی جائے جو ان علاقائی، لسانی، نسلی اور مذہبی لبادوں میں لپٹی ہوئی نہ ہو۔ دہشت گردی کو چھپ کر آبیاری کا موقع نہ دیں اسے سامنے لائیں۔ جب تک دینا میں دہشت گردی کے خلاف ہماری سوچ تقسیم ہے اس کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا رہے۔ ان لبادوں سے بالا ہو کرلائحہ بنانا ہوگا۔ اور کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔ بس دنیا کو ایک قدم اٹھانا ہوگا۔ اپنے درمیان بنے اس فاصلوں کو ختم کرنا ہوگا۔ دہشت گردی کو کبھی موقع نہیں ملے گا کہ وہ انسانیت کے درمیان بنی ان جگہوں میں بیٹھ کر پروان چڑھ سکے۔

ایسا ہوتا ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ نیوزی لینڈ میں ایک اندوہناک واقعہ ہوا۔ ایک لمحہ کے لیے ایسا لگا کہ دنیا میں نیوزی لینڈ جیسا غیر مہذب اور غیر محفوظ ملک کوئی نہیں۔ لیکن اس واقعہ کے بعد جس طرح نیوزی لینڈ کے لوگوں نے ان مذہبی، لسانی، علاقائی اور نسلی لبادوں کو پھاڑ کر درمیانی فاصلے ختم کیے۔ ایسا لگتا ہے نیوزی لینڈ جیسا پیارا ملک دنیا میں نہیں ہے۔ ایک ایسا جذباتی لگاؤ پیدا ہوگیا ہے دل کرتا ہے موقع ملے تو اس سرزمین کو ایک دفعہ لازمی دیکھا جائے۔

جہاں اس ملک کی وزیر اعظم ہاتھ جوڑ کر سیاہ لباس پہن کر سر پر ڈوپٹا اوڑھ کر درمیانی فاصلوں کو ختم کرکے دہشت گردی کو پاوں تلے روندھتے ہوئے مسلمانوں کو گلے لگاتی ہے تو آنکھ سے آنسو نکل آتے ہیں اور ساتھ ہی دل گواہی دیتا ہے اب دہشت گردی آپ اپنی موت مر جائے گی۔ نیوزی لینڈ کی عوام مسجدوں میں پہنچ کر نماز پڑھتے مسلمانوں کے پیچھے حفاظتی لائن بنا کر کھڑے ہوکر دہشت گردی کو پیغام دیتے ہیں کہ اب تمہارے لیے کوئی جگہ خالی نہیں اور اب ہمارے درمیان کوئی مذہبی فاصلہ نہیں جہاں تم اپنی آماجگاہ بنا سکو۔

ریڈیو پر آذان، غیر مسلم خواتین کے سروں پر ڈوپٹے، مسلمانوں کے اظہار یک جہتی کے لیے مختلف قسم اقدامات نے ہمارے سامنے ایک عملی نمونہ پیش کیا کہ اگر ان مذہبی، لسانی، علاقائی اور مذہبی فاصلوں کو ختم کیا جائے اور دہشت گردی کو کوئی لبادہ اوڑھنے نہ دیا جائے تو یہ ختم ہوسکتی ہے۔ سلام ہے جیسنڈا آرڈرن کو جس نے دہشت گردی کے بھوت کو قابو کرنے کا عملی مظاہر ہ کرکے دکھایا۔

سلام ہے جیسنڈا آرڈرن کو جس نے فاصلوں کو ختم کرکے دہشت گردی کی آماجگاہوں کو ختم کیا

سلام ہے جیسنڈا آرڈرن کو جس نے دہشت گردی کو دہشت گردی سمجھا اور اسے چھپانے کی کوشش نہیں کی۔

سلام ہے جیسنڈا آرڈرن کو جس نے ثابت کردیا کہ لیڈر علاقائی، لسانی، نسلی اور مذہبی فاصلوں سے بالا ہوتا ہے

سلام ہے جیسنڈا آرڈرن کو جس نے ثابت کر دیا کہ اگر لیڈر اچھا ہو قوم ہر بڑے سے بڑے سانحہ سے نکل سکتی ہے

سلام ہے نیوزی لینڈ کی عوام کو جنہوں نے دہشت گردی کو ایسی کاری زبر لگائی ہے اگر دنیا اس وار کی اہمیت کو سمجھ جائے تو یہ دہشت گردی دنیا میں چند روزہ مہمان ہے۔ اور اس کی شکست یقینی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).