آسان نہیں ہے زخموں کی بخیہ گری کا کام


کسی بھی آدم زاد کو لگا زخم چاہے اس کے بدن کو مجروح کرے یا روح کو اس زخم کی بخیہ گری وہی کر سکتا ہے جو مسیحائی کے ہنز سے آراستہ ہو۔ پسماندہ اور گھٹن زدہ معاشروں میں روزانہ معمول کے ظاہری حادثات میں زخم کھانے والوں کی تعداد شاید پھر بھی کم ہو لیکن ان معاشروں میں روزانہ روح کے زخم کھانے والوں کی تعداد گنی نہیں جا سکتی۔ خصوصا ہمارے معاشرے میں کہ جہاں صنفِ نازک اپنے روح و بدن کے زخم توشاید خود سے بھی چھپانے کو خود داری اور عظمت کا لیبل لگا کر اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے کاتبِ تقدیر کی مرضی پر راضی رہنے کی دلیل سے خود کو مزید زخم سہنے کے لئے ہمت دلاتی ہے۔

عورت کے بنیادی حقوق اور اس کی آزادی کا مسئلہ ہر عہد میں گھٹن زدہ معاشروں میں قابلِ بحث مسئلہ رہا ہے۔ ابن رشد بھی عورت کی آزادی کا حامی تھا۔ اس کے خیال میں عورتیں جملہ علوم و فنون کا اکتساب بخوبی کر سکتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری تمدنی حالت عورتوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنی لیاقت کا اظہار کرسکیں۔ اسی غلامی کا نتیجہ ہے کہ ان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینے کی جو صلاحیت تھی وہ فنا ہوکر رہ گئی۔

چنانچہ اب ہم میں ایک عورت بھی ایسی دکھائی نہیں دیتی جو اخلاقی محاسن سے آراستہ ہو۔ ابن رشد نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے عہد کی زبوں حالی اور غربت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مردوں نے عورتوں کو ”گھر کے مویشی“ اور ”گملے کے پھول“ بنا کر رکھا ہوا تھا۔ ۔ (عام فکری مغالطے۔ جلالپوری۔ تاریخ فلسفہ اسلام۔ ڈی بوئر)

یہاں میں نے اپنی تحریر کا آغاز براہِ راست ڈاکٹر شیر شاہ سید کے تعارف یا کوہی گوٹھ فری ہسپتال یا فیسٹیولا کے علاج کے بارے میں کچھ لکھنے کی بجائے کسی انسان کے روح و بدن کے زخم اور خصوصا صنفِ نازک کی لاچاری کے حوالے سے اسی لئے کیا ہے کہ اپنی اس تحریر میں اسی گھٹن زدہ معاشرے کی عورت کو درپیش ان مسائل کو بیان کرنا ہے کہ جن کا کرب یا تو وہ عورت جانتی ہے جو یہ سب کرب سہہ رہی ہے یا وہ طبیب جانتا ہے کہ جس کے پاس انسانی بدن کے زخم مندمل کرنے کا مرہم تو موجود ہوتا ہے لیکن ایک جاہل معاشرے کے طفیل روحِ انسانی کو لگائے گئے زخموں کا شاید اسے کوئی اکسیر مرہم نہیں ہوتا۔

ایسے میں کچھ طبیب ایسی خداداد صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بیمار مریض کے ساتھ ساتھ اپنے بیمار معاشرے کی ذہنی صحت کی بھی کوئی سبیل ڈھونڈے، ایسے ہی دردمند طبیبوں میں ایک معتبر نام ڈاکٹر شیر شاہ سید کا ہے۔ ایک ایسا نام جس نے اسی معاشرے میں جنم لیا، بچپنے سے معاشرتی نا انصافیوں اور خصوصا عورت کے حق میں حد درجہ منافقت اور غیر انسانی رویئے کو عام دیکھا تاہم گھر کی فضا میں اسے اپنی ماں کی صورت ایک بہت قابل اور، زیرک اور پرعزم عورت کی داستان بھی صفحہِ زیست سے پڑھنے کو ملی۔

بیسویں صدی کے وسط میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ پاکستان ہجرت کر کے آنے والی ایک متوسط مگر خوددار گھرانے کی بائیس چوبیس سالہ لڑکی جو کہ کم عمری میں بیاہی جانے اور چار بچوں کی پرورش کی ذمہ داری نبھانے کے باوجود ذہنی طور پر اتنی زیرک اور قابل ٹھہری کہ شوہر کی اجازت اور تعاون سے پہلے میٹرک کیا اور پھر میڈیکل کی تعلیم پا کر 50 کی دھائی میں بطور لیڈی ڈاکٹر کراچی میں طبی خدمات انجام دینے لگی۔ جو کہ اس دور میں ایسے گھٹن زدہ معاشرے میں ایک متوسط گھرانے کی عورت کے لئے بالکل ناممکن بات تھی مگر یہ ماننا پڑے گا کہ جس گھرانے کا حاکم یعنی گھر کا مرد باشعور، باہمت اور جری ہو تو معاشرہ اپنی پسماندہ روایات کے ساتھ کبھی ایسے گھرانے پر غالب نہیں آ سکتا۔ اور پھر ایسے ہی گھرانے کی عورت کی گود میں پلے ہوئے مرد و زن اپنے معاشرے میں پھیلے ہوئے جہالت کے اندھیروں کو کم کرنے میں روشن ترین چراغ ثابت ہوتے ہیں۔ اور ایسی ہی باہمت ماؤں کی گود کے پالے، آنے والے وقت کے شیر شاہ سید ثابت ہوتے ہیں۔

1950 کی دھائی میں ڈاکٹر عطیہ ظفر کے گھرانے میں خاندان کی پہلی لیڈی ڈاکٹر کی صورت اپنے ارد گرد کے معاشرے کے دکھی، نادار، غریب و پسماندہ گھرانوں کے زخمی بدن اور زخمی روحوں کے کرب کو محسوس کرنے اور ان کے لئے چارہ گری کا سامان کرنے کی جو تحریک شروع ہوئی اس تحریک مزید جِلا دینے کے لئے اس پرعزم خاتون کی تمام تر اولاد نے طب کے شعبہ کواپنایا اور یوں ایک سے آٹھ چراغ اور ان سے اب تک چالیس سے زائد چراغ اس گھرانے میں روشن ہو چکے ہیں۔

ان روشن چراغوں میں سے تذکرہ یہاں اس کا ہے جس کا قلم فقط بدن کی شفا کے لئے دوا کے نسخے ہی نہیں لکھتا بلکہ روح کی شفا کے لئے ایسے افسانے بھی تخلیق کرتا ہے جو بیمار معاشرے میں پائی جانے والی ان بیماریوں کو بیان کرتے ہیں جن کے باعث روزانہ نہ جانے کتنی روحیں مجروح ہوتی ہیں مگر ظالم معاشرے کے بے حس لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔

ڈاکٹر شیر شاہ کے افسانے پر ادبی زاویوں سے تنقید تو شاید وہ ہی زیادہ بہتر طور پر کر پائیں جنہوں نے ادب شناسی میں باقاعدہ سند حاصل کی ہو۔ البتہ بحیثیت قاری اور اردو ادب کی ایک ادنی طالب علم کی حیثیت سے اگر مجھے یہاں چند ناقدانہ سطور لکھنے کی اجازت ہو تو بس اتنا ہی بیان کروں گی کہ ڈاکٹر شیر شاہ اپنی پیشہ ورانہ طبی مصروفیات میں سے بمشکل وقت نکال کربھی جب اس معیار کا افسانہ لکھ پا رہے ہیں کہ عام قاری اس کو پڑھ کر وہ کرب اوردرد محسوس کرتا ہے جو کسی بھی بے حس معاشرے کی نوحہ کنائی میں موجود ہوتا ہے تو یقین مانیے ڈاکٹر شیر شاہ سید اس دور کے اور اس معاشرے کے منشی پریم چند ہیں۔

فرق صرف یہ ہے کہ اس موجودہ معاشرے کا پریم چند پیشے کے اعتبار سے طبیب ہے لہذا وہ ایک ایسا بخیہ گرہے کہ جس کے ہاتھ میں جب آلاتِ جراحی ہوں تو وہ انسانی بدن کے زخموں کی بخیہ گری کر دکھائی دے اور جب انہی ہاتھوں نے تخلیقی مقاصد کے لئے قلم اٹھایا ہو تو وہ اپنی پر درد تحریروں سے روح کے زخموں کی بخیہ گری کا کام لے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید زمانہِ طالب علمی سے ہی افسانہ نگاری کی طرف مائل تھے۔ علم سے محبت اور کتاب دوستی کو والدین سے ورثہ میں پایا۔ بقول ان کے ”انہوں نے اپنے بچپن ہی سے اردو ادب کی اہم کتب کا وسیع ذخیرہ پڑھ لیا تھا۔ “ ان کی تحریر میں بھی سادہ الفاظ میں بیان کردہ داستان سے وہی کرب اور دکھ جھلکنے لگا جو سادگی، کرب اور دکھ ہمیں منشی پریم چند کے افسانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ پریم چند کا قلمی جہاد بھی اصلاح ِ معاشرہ کی نیت سے معاشرے کے مظلوم اور دکھی طبقے کی روزمرہ زندگی کی ان مسائل سے متعلق تھا جو مسائل ان کی خود ساختہ رسم پرستی اور آبا پرستی کے باعث معاشرے سے ختم کرنا قدرے مشکل تھے۔ انہوں نے ہندو معاشرے کی قبیح رسوم پر قلم اٹھایا اور بیوہ عورت کے مسائل، بے جوڑ شادی، جہیز کی لعنت اور چھوت چھات جیسے موضوعات پر افسانے لکھے۔ اس دور میں وہ ایک مصلح کی حیثیت سے اپنے معاشرے کو احترام ِ انسانیت اور مشرقی و مغربی تہذیب کے فرق اور اخلاق اقدار کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید کا افسانہ بھی ایسی ہی معاشرتی آگہی کے لئے فکری جہاد کی دعوت دیتا ہے۔ احترامِ انسانیت کا جذبہ ڈاکٹر شیر شاہ کے افسانے میں مذہبی، لسانی یا تہذیبی رعونت کے کھوکھلے نعروں کو شکست دیتا ہوا براہِ راست یہ اعلان کرتا دکھائی دیتا ہے کہ سچائی، دیانت داری اور خود داری کے اوصاف کسی بھی قوم، کسی بھی نسل، کسی بھی تہذیب اور کسی بھی مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والے شخص میں بکمال پائے جا سکتے ہیں۔ شرط فقط یہ ہے کہ وہ شخص اپنے انسانیت کے مقام کو پہچان لے۔

2004 کے کشمیر کے زلزلے سے وابستہ ان کے افسانوی مجموعے ”دل میرا بالا کوٹ“ میں بہت دیانتداری سے خامہ فرسائی کی ہے۔ ڈاکٹر شیر شاہ نے زلزلہ زدہ پسماندہ علاقوں کے کم پڑھے لکھے بلکہ ان پڑھ متاثرہ افراد کے علاج کے دوران بھی ان میں دیانت داری اور خود داری کے وصف کو دیکھا تو اسے اپنے افسانوں میں خالص لفظوں میں بیان کیا یقینا ایسی لگن، خلوص اور بے باک جرات بہت سے ادیبوں میں نہیں ہوتی۔

کہتے ہیں کہ لکھاری کا قلم اس کی روح کا عکس اور اس کی سرشت کا ترجمان ہوتا ہے۔ اگر لکھاری کی سرشت میں بال برابر بھی رعونت پائی جائے تو وہ رعونت خفیف ہی سہی لیکن اس کی تحریر سے ضرور چھلکتی ہے۔ لیکن ڈاکٹر شیر شاہ کی تحریروں میں ایک منکسر المزاج راوی دکھائی دیتا ہے جو واقعہ بیان کررہا ہوتا ہے اور اس کے بیان میں قابلِ تعریف فرد صرف وہی ہوتے ہیں جو اعلی اخلاقی اقدار کے حامل ہوں اور قابلِ مذمت افراد صرف وہی قرار پاتے ہیں جو استحصال اور بددیانتی کے مقلد ہوں۔ یقینا اعلی اخلاقی اقدار اسی قرینے سے پرکھ کر وہی بیان کر سکتا ہے جس کو بچپنے سے اس کی تعلیم گھر سے ملی ہو۔

اپنی تحریر کا اختتام ا الفاظ پر کروں گی کہ شیخ سعدی نے کہا تھا ”نادان ڈھول کی طرح ہوتے ہیں۔ بلند آواز مگر اندر سے خالی۔ “ گویا ظرف کے بھرے ہونے اور عاقل ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انسان ادبی اور اخلاقی طور پر قد آور شخصیت بن کر دکھائے۔ جیسے جیسے وہ اپنی قابلیت، اخلاق اور انسانی اقدار میں ترقی پائے گا اسی قدر اس کی منکسر مزاجی بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ اور یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ انسان کا درویش مزاج ہونا کسی بھی ظاہری خدوخال سے لازم و ملزوم نہیں، بہت سے نادان ایسے ہوتے ہیں جو ظاہری خدوخال اپنا کر اپنے درویش ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہوتے ہیں۔

لیکن حقیقی درویش کی دنیا ہی الگ ہوتی ہے۔ ایک حقیقی درویش کا ظاہری لبادہ نہیں بلکہ اس کا عمل اس کی (درویشی کی) گواہی دے رہا ہوتا ہے۔ ایسے درویش کی نہ صرف گفتگو عام فہم ہوتی ہے بلکہ اس کی تحریر بھی تشبیہات، استعارات اور دیگر ادبی لوازمات کی میزان میں پرکھے جانے کی محتاج نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کے افسانوں کو بھی اردو ادب کے افسانوں میں ایسا ہی علو مقام حاصل ہے کہ یہ افسانے بیمار معاشرے کو اخلاقی شفا دینے کے لئے بطور نسخہ تخلیق کیے جاتے ہیں۔ لہذا سادہ الفاظ میں اعلی اخلاقی زندگی کی تمام تر حکمتیں ان میں بطور نسخہ پیش کر دی جاتی ہیں اور یہی ڈاکٹر شیر شاہ سید کے تخلیق کردہ افسانوں کا اصل حُسن ہے۔

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).