گلوبل ٹیچر پرائز


گلوبل ٹیچر پرائز کی تقریب کا انعقاد پہلی مرتبہ سال 2015 ء میں ہوا جس کے بعد سے یہ تقریب ہر سال باقاعدگی سے منعقد ہوتی ہے۔ پہلے مرحلے میں دنیا بھر کے اساتذہ سے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں جس کے بعد 40 کے قریب درخواست گزاروں کو شارٹ لسٹ کیا جاتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں ان 40 استاتذہ میں سے صرف 10 نام فائنل کیے جاتے ہیں۔ اور آخری مرحلے میں ان دس ناموں میں سے ایک نام کا چناؤ کیا جاتا ہے اور اسے دنیا کا بہترین استاد ہونے کے اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔

گلوبل ٹیچر پرائز سال 2019 ء کی تقریب 23 اور 24 مارچ کی درمیانی شب دبئی میں منعقد ہوئی جس میں مشرقی افریقی ملک کینیا کے ریاضی اور فزکس کے استاد کو دنیا کا بہترین استاد قرار دے دیا گیا۔ کینیا کے انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے 36 سالہ پیٹر تبیچی کو دنیا کا بہترین استاد اس لیے قرار دیا گیا کہ وہ اپنی تنخواہ کا 80 فیصد حصہ بے گھر بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرتے ہیں۔

سال 2019 ء کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے والے 40 اساتذہ میں سے الحمدللہ ایک بھی پاکستانی استاد شامل نہیں تھا۔ تاہم مجموعی طور پر مسلم امہ میں سے متحدہ عرب امارات سے راشد ہاشم، فلسطین سے خاتون رانا زیادہ، اور اردن سے جریری نامی خاتون کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے جو کہ 40 ناموں میں شامل تھے مگر اللہ جو کا اللہ کا حکم، فائنل کیے گئے 10 ناموں میں مسلم امہ کے یہ تین عظیم نام بھی باقی امہ سے جا ملے۔ اور یوں اتحاد بین المسلمین پھر سے قائم ہو گیا۔

گلوبل ٹیچر پرائز کے فاتح سیاہ فام پیٹر تبیچی کا کہنا تھا کہ یہ اعزاز ان کی ہی نہیں بلکہ افریقہ کے ان تمام اساتذہ کی خدمات کا اعتراف ہے جو مشکلات کے باوجود تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

اب کچھ ذکر اپنوں کا۔ ہمارے معاشرے میں استاد کا درجہ بڑا بلند ہے۔ دین اسلام نے معلم کی جو فضیلت بیان کی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہماری نسلیں اس سوچ کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں کہ ایک استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے، اور اس کے سائے تک کا بھی احترام لازمی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ شریر اور بد تہذیب لوگ اساتذہ کا احترام نہیں کرتے جو کہ ایک اسلامی معاشرے کے لیے باعث تشویش بات ہے۔ ہمارے ہاں عزت و احترام کے بعد اساتذہ کا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہو سکتا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور فرقہ واریت کی لہر کا اثر ان پر سب سے زیادہ ہوا ہے کیونکہ انہوں نے تقریباً ہر فرقے اور کلاس کے بچوں کو تعلیم دینا ہوتی ہے اور معاشرے میں برداشت اور رواداری کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کئی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانا ہوتا ہے جو کہ ایک انتہائی حساس اور پیچیدگی والا معاملہ ہے۔

تاہم ان مسائل کے ہوتے ہوئے پاکستان جیسے ملک میں اساتذہ کو کم از کم غربت کے مسائل لاحق نہیں ہیں، استاد چاہے اسکولوں سے متعلق ہوں یا کالجز سے وابستہ لیکچرار ہوں یا کسی یونیورسٹی سے منسلک پروفیسرز صاحبان۔ یہ بات تو طے ہے کہ ان کو کھانے کے لالے نہیں پڑے ہوئے۔ یہ بات سچ ہے کہ ہر انسان فطری طور پر بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتا ہے لیکن جب آپ ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہوں جس میں عالمی معیار کے مطابق 70 فیصد آبادی غریب ہے، اور پھر وہ 70 فیصد جو آپ کے علاوہ ہے، یعنی آپ اس میں شامل نہیں ہیں۔ تو آپ کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے اور اس غربت کے سد باب کے لیے اپنا کردار رضاکارانہ طور پر ادا کرنا چاہیے۔

مذکورہ بالا حالات کے تناظر میں  موٴرخہ 26 مارچ کو پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایل اے ) کی جانب سے فیصلہ کن دھرنے کا بینر ملاحظہ کریں :

”محکمہ ہائیر ایجوکیشن کی ظالمانہ پالیسیوں اور بے حسی کے خلاف

کالج اساتذہ سراپا احتجاج

مطالبات:

سروس اور پے پروٹیکشن کا نفاذ

ڈیڑھ سال سے تعطل کا شکار ترقیوں کا اجراء

خیبر پختونخوا کی طرز پر پانچ درجاتی فارمولے کا اجراء ”

لیں جی۔ معاشرے کے لا تعداد مسائل میں سے ابتدا میں تحریر کردہ چند بنیادی مسائل کا حل اسی بینر میں موجود ہے۔

آپ آج دھرنے میں تشریف لے جائیں، وہاں احتجاج میں شامل کسی بھی پروفیسر صاحب سے گفتگو کر کے دیکھ لیں، آپ کو ایسا لگے گا کہ پروفیسر صاحب اکیلے ہیں جنہوں نے معاشرہ سر پر اٹھا رکھا ہے اور یہ کہ معاشرے کی ترقی کے وہ اکیلے ضامن ہیں، اگر ان کا دست شفقت اٹھ گیا تو معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا، کیڑے پڑ جائیں معاشرے کو۔ پلاننگ کمیشن کے سروے کے مطابق اس ملک کے تقریباً 8 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کو دو وقت کی روٹی بمشکل نصیب ہوتی ہے۔

اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کی رپورٹ کے مطابق ملک میں پھیلی اس غربت کی سب سے بڑی وجہ تعلیم سے محرومی ہے۔ غربت کے خاتمے اور تعلیم کی اس محرومی کو دور کرنے کے لیے پروفیسرز صاحبان کیوں نہیں نکلتے؟ میں لاہور میں w کیٹیگری کے حامل بہترین کالج کا طالب علم رہا ہوں، کلاسز میں طلباء کو کیوں ان مشکلات سے متعلق آگاہ نہیں کیا جاتا جو معاشرے کی اکثریت کے بنیادی مسائل میں سے ہیں؟ پروفیسرز صاحبان کے یہ اتحاد اس مسکین کے لیے سڑکوں پر کیوں نہیں نکلتے جو 10 گھنٹے فیکٹری میں خون پسینہ بہا کر حکومت کی جانب سے لازمی کی گئی کم سے کم تنخواہ 15000 ہزار کا بھی مستحق قرار نہیں پاتا؟

سرکاری کالجز کے ان پروفیسرز صاحبان کو اب ایچی سن یا نمل یونیورسٹی کا کوئی پروفیسر آ کر بتائے گا کہ ان کے پاس بچے کن حالات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کے گھریلو مسائل کیا ہیں، وہ کیوں نہیں پڑھ پاتے؟ کتنے قابل رشک ہیں کینیا کے پسماندہ ترین علاقوں سے تعلق رکھنے والے غریب و غربا کہ ان کے پاس پیٹر تبیچی جیسے استاد موجود ہیں جن کا مقصد حیات فلاح معاشرہ ہے نہ کہ اپنی ذات۔ اور کتنے بدبخت ہیں ایٹمی طاقت کی حامل ریاست کے سب سے خوشحال صوبے کے سب سے بدحال لوگ جن کے پاس ایسے استاد ہیں جو نفسا نفسی کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔

ادھر کافر اساتذہ کے درمیان مقابلے ہو رہے ہیں کہ اخلاقی برتری میں کون سب سے آگے ہے۔ اور اِدھر ہمارے اساتذہ ہیں جو آج سڑکوں پر نکل کر حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ ان کی تنخواہیں اور مراعات بیوروکریٹس جتنی کیوں نہیں؟ کوئی صحافی سوال کرے گا تو کہا جائے گا کہ آپ بتائیں حامد میر، شاہزیب خانزادہ، محمد مالک اور رؤف کلاسرا کتنی تنخواہ لیتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی ہال کے سامنے کیا روح پرور مناظر ہوں گے جب خوش نما لباس زیب تن کیے پروفیسرز صاحبان اپنی لش پش کرتی گاڑیوں میں سے اتریں گے اور اس وقت صوبہ پنجاب کو درپیش سب سے بڑے مسئلے کے حل اور غربت کی چکی میں پسے عوام کے وسیع تر مفاد کے لیے حکومت سے اپنی رکی ہوئی ترقیوں اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کریں گے جبکہ فٹ پاتھس پر صبح سے کھڑے روزگار کی تلاش میں ہلکان ہو رہے مزدور ان کو حیرت زدہ آنکھوں سے تک رہے ہوں گے۔

بلاشبہ استاد کا منصب بہت اعلیٰ ہے۔ اور اس منصب کا پاس رکھنا جتنا ضروری ہے اتنا ہی مشکل ہے۔ استاد قوم کے معمار ہوتے ہیں، لیکن یہ کیسے معمار ہیں جو خود تو تعمیر و ترقی کے خواہاں ہیں مگر ریت کی دیواروں پر اٹھنے والی قوم کی بنیادیں ڈھے جانے کی انہیں کوئی فکر نہیں۔ یہ کیسی فکر یہ کیسی سوچ ہے جو خود تو بہتر سے بہتر کی تلاش میں گھر سے نکل پڑتی ہے لیکن جب ان مظلوموں کی بات آتی ہے جن کی بہتری مجموعی طور پر معاشرے کی بہتری کی ضامن ہے اس پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔

اساتذہ معاشرے کا ایک با عزت اور قابلِ احترام طبقہ ہے۔ اور یہ چیز معاشرے کے مزاج میں شامل ہے کہ معاشرہ ان کو عزت بخشتا ہے۔ لہٰذا ان کو بھی چاہیے کہ معاشرے کو ساتھ لے کر چلیں۔ یہ استاد کا منصب کب سے اتنا کم قیمت ہو گیا کہ اس کی ویلیو میں اضافے کے لیے گریڈ اپ کرنے تک کی نوبت آ گئی؟ خدارا، اپنا ہی نہیں اس معاشرے کا بھی کچھ سوچیں۔ سیاستدانوں اور افسر شاہی کے ستائے لاچار عوام کی دادرسی کریں اور ان کے زخموں پر مرہم لگائیں نہ کہ ان کو مزید کریدیں۔ اللہ آپ کی عزت و توقیر اور توفیقات میں اضافہ فرمائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).