چھوٹی چھوٹی قیامتیں


شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنھاں تُوں بھارے ہُو
گلیاں دے وچ پھرن آزُردہ لعلاں دے ونجارے ہُو

 یوں توقیامت کا ایک دن مقرر ہے لیکن ان چھوٹی چھوٹی قیامتوں کا کیا کریں جو آئے دن بنی نوع انسانوں پہ ٹوٹتی رہتی ہیں۔ کبھی دہشت گردی کی صورت میں، کبھی خود کش حملوں کی شکل میں اور کبھی قدرتی آفات کی طرح برس جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں نیوزی لینڈ میں بھی ایک ناگہانی قیامت گزر گئی۔ عنبرین رشید، نعیم رشید کی اہلیہ کی ویڈیو تو سب ہی نے دیکھی کس قدر صبراورہونٹوں پہ پُرسکون مسکراہٹ جمائے یہ عورت کس طرح اپنے اندر اُٹھتے جوالا مکھی کو سنبھالے ہوئے بردباردکھائی دیتی ہے۔

نعیم رشید وہ انسان ہے جس نے اووروں کو بچاتے ہوئے اپنی جان دی بلکہ اس عظیم شخص کے جوان بیٹے نے بھی باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ میری نعیم رشید کی بڑی بھابی جو ان کی کزن بھی ہیں سے بات ہوئی تو بتانے لگیں کہ نعیم بچپن ہی سے اپنے نام کے ساتھ گریٹ لکھا کرتا تھا۔ ہم ہنستے تھے اور کبھی کبھار تو مذاق اُڑا یا کرتے تھے لیکن اب سمجھ میں آیا وہ کیوں گریٹ کا لفظ اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتاتھا۔

ان کی فیملی سے مزید پتا چلا کہ نعیم رشید کے سینے میں ایک گداز دل تھا جواوروں کے لیے کچھ کرنے کو بے قرار رہتا تھا۔ ہمیشہ ان کے گھر سے غربا کے لیے راشن اور دیگر اشیاء بٹتی رہتی تھیں۔ نعیم رشید اپنی ماں کا بہت خدمت گزار اور فرمابردار بیٹا تھا۔ ماں کے پاؤں دباتے ہوئے کہتا رہتا ”یہ میری جنت ہے“۔ طلحہ رشیدنعیم رشید کا نوجوان 22 سالہ بیٹا بھی ہر وقت دوسروں کی مدد کرنے کو تیار رہتا تھا۔ اس سے اس کا چھوٹا بھائی پوچھتا تھا ”بھائی زندگی میں آپ کا کیا مقصد ہے؟

تو طلحہ جھٹ سے کہتا تھا :I want to die as a believer ”۔ واہ طلحہ نعیم واہ! جواب ہوتو ایسا ہم سے کوئی پوچھے تو ہم سوچتے ہی رہ جائیں گے۔ طلحہ اس دن گھر پہ یہ کہہ کر گیا تھا آج وہ مسجد سے جلد واپس آجائے گالیکن اسے معلوم نہ تھا کہ اس کی نیک دل ماں کی آنکھیں پتھرا جائیں گی مگر آفرین ہے اس ماں پر جو پہاڑ جیسے حوصلے کے ساتھ کہہ رہی ہیں“ مَیں اس دہشت گرد کے لیے ترس کھاتی ہوں کہ اس کا دل محبت سے خالی اور نفرت سے بھر ا ہوا تھا ”۔

طلحہ نے مسجد میں جب گولیوں کی بوچھاڑ سُنی تو اس کے پہلو میں ایک 5 سالہ بچہ تھا جس کے اوپر وہ لیٹ گیا۔ اس بچے سے کہا آواز مت نکالنا اور فقط 22 سال کے اس نوجوان نے ساری گولیاں خود پہ کھالیں اور اس معصوم کی جان بچا لی۔ عنبرین رشید کہتی ہیں کہ ہمارا بیٹا بچپن ہی سے دوسروں کا خیال کرنے والا تھا۔ ہم باقی بچوں سے بھی کہتے تھے طلحہ جیسا بننا۔ سوچیں! کتنی ماؤں کے جگر گوشے خون میں لت پت ہوگئے۔ وہ سب لوگ جو اُس روز کرائسٹ چرچ کی مسجد النور میں مارے گئے ان میں سے کچھ تو وہیں آسودۂ خاک ہوگئے اور کچھ مٹی کے ڈھیر اپنے وطن کی مٹی میں آکر سماگئے۔

کتنے لوگ دکھ، ہجر اور بے جا ظلم کے ہاتھوں تقسیم ہوئے۔ تارکینِ وطن کے لیے یہ کتنا مشکل وقت تھا۔ روزمرہ کے کاموں میں مشغول اس دن کے کچھ کام تو انہوں نے نپٹائے ہوں گے کچھ باقی کام واپس جاکر مکمل کرنے ہوں گے لیکن زندگی وہیں رُک گئی اور موت بن بلائے مہمان کی طرح انہیں اپنی آغوش میں لے کر اجنبی دیس کی پُر نور وادیوں میں لے گئی۔ اس دہشت گرد نے یہ سوچا نہ ہوگا کہ اس کا یہ وحشیانہ عمل لوگوں کو جوڑ دے گا۔

دنیا میں ہر مذہب کی عبادت گاہیں امن کی جگہ کہلاتی ہیں۔ حیرت ہے کہ مغربی دنیا کے لوگ نہ تو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی انتہا پسندی کالیکن دہشت گرد نے ثابت کیا کہ اس کا کوئی مذہب نہیں۔ نائن الیون کے عالمی بساط پر دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ کل کا جہاد آج کی دہشت گردی قرار پایا اور پوری دنیا میں جہادی مراکز پہ اتحادی افواج حملہ آور ہوگئیں۔ مسلح عسکری تنظیموں کا ردِ عمل شدید تھا لہذا پُرامن خطے دہشت گردی کی کارروائی کی لپیٹ میں آگئے۔

بات کرتے ہیں حالیہ نیوزی لینڈ کے حادثے بلکہ کھلم کھلا دہشت گردی کے حملے کی جس میں بنگلہ دیش کی محترم خاتون حُسن آرا جو مسجد سے باہر تھیں اور ان کے معذور شوہر وہیل چیئر پر مسجد کے اندر تھے، گولیوں کی خوفناک آوازیں سُن کر وہ اپنے شوہر کو بچانے اندر گئیں اور خاوند کے سامنے ڈھال بن کر سب گولیاں اپنے سینے پر کھائیں۔ کیا عظیم عورت ہوگی؟ اسی طرح ایک شامی نوجوان 18 سالہ بچہ زید مصطفی جس نے اپنے باپ اور 15 سالہ چھوٹے بھائی کو دفنایا اور خو د بھی بُری طرح زخمی ہوگیا۔

نجانے اس کو حوصلہ کیسے ملے گا کہ یہ خاندان فقط پچھلے سال ہی شام میں جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد نیوزی لینڈ میں پناہ لینے کو آئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ طاقتور قوتیں پہلے مسلمانوں کو جنگ و جدل کی بھینٹ چڑھا کر اپنے ملکوں میں پناہ دیتی ہیں اور پھر غلاموں جیسا سلوک کرتی ہیں۔ آج دنیا بھر میں چاہے مشرق ہو یا مغرب مذہبی عصبیت سرچڑ ہ کر بول رہی ہے۔ مغرب کودیکھیں تو صلیبی جنگیں دکھائی دیتی ہیں جس میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو آزاد کروا کے عیسائیوں کو ہزیمت پہنچائی۔

فلسطین کو دیکھیں تو اسرائیلی اور عرب غزہ کی پٹی پہ کئی دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔ فلسطین کے مسئلے میں بھی یہودیوں اور ان کی سازشوں کا نشانہ بے چارے مسلمان ہیں۔ اُدھر کشمیر میں مسلمان کشمیریوں کے جذبۂ حریت کو متواتر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دنیا میں یوں بھی اسلامو فوبیہ کی ناصرف اصطلاح بلکہ بڑھتے ہوئے رُحجان نے اہلِ مغرب کے دلوں کا سکون برباد کردیا ہے کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ : ”بلاشبہ دلوں کو سکون اللہ کے ذکر سے ملتا ہے“۔

عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں کیا پڑی ہے کہ کسی مذہب کو غلط ثابت کریں اس لیے کہ جواباً وہ آپ کے مذہب کو بُرا کہیں گے۔ قتل و غارت اور جنگ ابتدا ہی سے چلی آرہی ہے۔ تاریخ دیکھیں تو قابیل نے ہابیل کو قتل کیا۔ منگولوں نے جو ظلم ڈھائے وہ پہلے دیکھنے میں نہ آئے۔ وہ زہر میں بجھے ہوئے تیروں سے گاؤں کے گاؤں بھسم کر کے رکھ دیتے تھے۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والی اس white superamacyکی دہشت گردی نے واضح کردیا کہ مرنے والے انسان خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ان کے قتل پرپوری دنیا خاص طور پر نیوزی لینڈرز اور جسینڈا آرڈرن جیسی رحم دل شہزادی بھی افسردہ ہے۔

جیسنڈا آرڈرن نے اسے تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا اور کہا کہ یہ ملک اتناہی سب کا ہے جتنا ہمارا۔ دہشت گردی کا یہ سانحہ مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی اور شوقِ شہادت کے پس منظر میں نئے ستاروں کے ظہور کا پرتَو ہوگا۔ دھان پان سی جیسنڈا آرڈرن نے فی الحال تو سب کی چھٹی کروادی اور برملا اس دہشت گرد کو دہشت گرد کہا۔ جیسنڈا کو ایک نوجوان کہتا ہے مَیں پچھلے تین دن سے دعا کر رہا ہوں کہ آپ مسلمان ہوجائیں کہ یہ امن پھیلانے کا دین ہے۔

وہ مسکراکر کہتی ہیں مَیں تین دن سے وہی کررہی ہوں۔ جمعے کی اذان براہِ راست نشر ہوئی، جیسنڈا نے درود پڑھا، نیوزی لینڈ خواتین نے سکارف سے احتراماًاپنے سروں کو ڈھانپا ہوا تھا۔ فضا میں عجب محبت کی فضا تھی لیکن پھر بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں تک اُداسی نے ڈیرے جمالیے ہیں۔ یہاں سے ہلنے کا نام نہیں لے رہی۔ دل ریزہ ریزہ ہے کہ پیچھے رہ جانے والے 50 گھرانوں کی زندگی لمحہ لمحہ اذیت کے دوراہے سے بہرحال گزرتی رہے گی کہ چھوٹی چھوٹی قیامتیں کب آنا بند ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).