گھر میں ”ابو“ لاکھ کا اور جیل میں سوا لاکھ کا


میاں نواز شریف کی جز وقتی ضمانت کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور کارکن ایک بار پھر ”حالت جشن“ میں ہیں۔ میاں نواز شریف کے وکلاء بھی اپنے ”مؤکل“ اور دیگر رہنماؤں سے داد و تحسین وصول کررہے ہیں کہ انہوں نے ”انہونی“ کو ”ہونی“ کرکے دکھایا ہے اور نیب قوانین میں مجرم اور ملزم کے لئے ضمانت کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود ضمانت کا راستہ نکال کر دکھا دیا۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا ستارہ ایسا ہے کہ انہیں جیل بھی راس رہتی ہے اور انہیں جلا وطنی میں بھی اقتدار کی آس رہتی ہے لیکن اس مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور کارکنوں کا المیہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وقت اور عدالت کے فیصلوں کو ہمیشہ بروقت سمجھنے کی بجائے بعد از نقصان لکیر پیٹتے ہوئے دیکھے گئے۔

گزشتہ برس الیکشن میں شکست کے باوجود میاں نواز شریف سے محبت کرنیوالوں میں فی الحال کمی نہیں ہوئی اور ان کے پرستار ان کی لندن واپسی کے بعد جیل یاترا کو بہت جرآت مندی سے تعبیر کررہے تھے۔ میاں نواز شریف بیمار تھے یا نہیں لیکن جیل میں چلے جانے کے بعد ان کے کارکنوں کے حوصلے بلند ہوتے دیکھے گئے۔ محترمہ مریم نواز نے جیل سے باہر رہتے ہوئے میاں نواز شریف کی جیل اور بیماری کو بہت خوبصورتی سے سیاسی رنگ دے کر کارکنوں کو گرما رکھا تھا۔

میاں نواز شریف کی بیماری پر روزانہ کی بنیاد پر الیکٹرانک میڈیا پر گھنٹوں مذاکرے ہورہے تھے اور اس بحث کے نتیجے میں محترمہ مریم نواز کسی حد تک عوام کی نظر میں ”مظلومیت“ کی تصویر بن چکی تھیں لیکن عدالت عظمیٰ سے ”ڈیڑھ ماہی“ ریلیف حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب ان کے پاس علاج کے نام پر روزانہ تین ٹائم سیاسی قوالی کا جواز ختم ہوگیا ہے۔ فاضل عدالت نے میاں نواز شریف کو مختصر مدت کے لئے عدالت سے گھر بھجوا کر پوری مسلم لیگ (ن) کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔

اگر میاں نواز شریف اس ضمانتی ریلیف کے بعد گھر پر سیاسی بیٹھک سجائیں گے تو پھر ان کے مخالفین خصوصاً شیخ رشید احمد جیسے موقع شناس لیڈر یہ پروپیگنڈہ کریں گے کہ میاں نواز شریف کو بیماری نہیں ہے بلکہ یہ محض ٹوپی ڈرامہ ہے اور یقینی طور پر فاضل عدالت بھی یہ سوال پوچھ سکتی ہے کہ علاج کے لئے ضمانت کروانے والے میاں نواز شریف سیاسی سرگرمیاں کس منہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں؟ لہذا میاں نواز شریف کو عدالتی اور سیاسی دباؤ کے باعث گھر میں خاموشی سے لیٹ کر چھت کو دیکھنے کے سوا کوئی چا رہ کار نہیں ہوگا۔

میاں نواز شریف کے اس ضمانتی ریلیف سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مل کر شروع ہونیوالی احتجاجی تحریک کو بھی نقصان پہنچا ہے کیونکہ میاں نواز شریف اپنے کارکنوں کو انتہائی راز داری سے بلاول کے کاررواں میں شرکت کی دعوت دیں گے تو لوگ نہیں جائیں گے البتہ اگر وہ کھل کر خود بھی تحریک کا حصہ بن جائیں تو دونوں پارٹیوں کی دھمال ”کمال“ دکھا سکتی ہے لیکن اس صورت میں میاں نواز شریف کی بیماری کا عذر ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ حکومت پہلے ہی کہہ رہی ہیں کہ اپوزیشن ”ابو“ بچاؤ تحریک شروع کرنے جا رہی ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو مریم نواز نے ابو کو گھر لے جا کر اچھا نہیں کیا کیونکہ ”ابو“ گھر میں لاکھ کا اور جیل میں سوا لاکھ کا تھا۔

دوسری طرف بلاول بھٹو پر بھی الزام ہے کہ وہ اپنے ”ابو“ کے لئے ٹرین مارچ شروع کر چکے ہیں لیکن ان کے ”ابو“ کی منزل بھی جیل ہی نظر آرہی ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بلاول کو اپنے مقصد کے لئے مسلم لیگ (ن) کی سپورٹ نہیں مل سکے گی بہرحال جیل بھگتنا بہت دل گردے کا کام ہے اور میاں نواز شریف کے ساتھ ہر بار یہ معاملہ ہوجاتا ہے کہ جیل جاتے ہی ان کا دل اور گردے اس طرح کام نہیں کرتے جس طرح وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ہوتے ہوئے کام کرتے ہیں۔

آج نہیں تو کل محترمہ مریم نواز ابو کو گھر لے جانے کے فیصلے پر پچھتائیں گی کیونکہ جیل میں بیٹھا ابو ووٹ بینک میں اضافہ کررہا تھا اور اب یہ سلسلہ رک جائے گا جبکہ بلاول بھٹو کے ابو اگر جیل چلے گئے تو پیپلز پارٹی اس کا بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔ میاں نواز شریف کو اس وقت ملکی سیاست میں کئی چیلنجز درپیش ہیں ان میں سے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ میاں شہباز شریف نے اپنی ضمانت کے ساتھ ساتھ بیرون ملک روانگی کی اجازت بھی لے لی ہے شریف خاندان کے لئے اندرونی محاذ پر بھی کئی سیاسی جنگیں لڑی جارہی ہیں۔ ڈیڑھ ماہی ریلیف سے یہ جنگیں جیتنا فی الحال مشکل ہے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat