پیٹوں جگر کو میں


روز کچھ نا کچھ ہوتا ہے۔ روز یہ دل روتا ہے۔ اس قوم کا نصیبا سوتا ہے اور سوتا چلا جاتا ہے۔ اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جب کچھ ہوتا ہے۔ سوچتی ہوں۔ اس پر لکھوں اس پر بولوں اس پر احتجاج کروں۔ پھر خیال آتا ہے اتنا کچھ تو لکھا جا رہا ہے۔ کالم چھپ رہے ہیں۔ عقل و دانش کی باتیں سکھائی جا رہی ہیں۔ تمیز تہذیب اور توازن کے درس دیے جا رہے ہیں۔ ۔ تو فرق کہاں۔ نظر آیا ہے۔ اخیر اثر کیوں نہیں ہو رہا۔

بہاولپور کے شریف ان نفس قابل صد احترام پروفسسر حمید کے قتل نا حق نے میرے دل و دماغ پر ہیبت اور حیرانی کے پہاڑ توڑ دیے ہیں۔ یہ کون سا ملک اور معاشرہ ہے جہاں رسم چلی ہے کہ چھٹانک بھر کے کند ذہن احمق اور تنگ نظر لونڈے اٹھیں اور جس کو چاہیں زندگی سے محروم کر دیں۔ ۔ قاتل کی شکل اور جسامت دیکھیں۔ دیوانگی صاف نمایاں ہے۔

اس کے نا توان کندھوں نے تو اسلام کی سر بلندی کا بوجھ اٹھایا ہوا تھا۔ سو اس نے جو کرنا تھا کر گزرا۔ میرے ذاتی خیال میں، ویسے میرے ذاتی خیال کی اہمیت بھی کیا ہے۔ اس ملک کی ہر خرابی کی ذمّے دار کثرتِ آبادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت اور جہالت ہے۔ ماں باپ آٹھ دس بچے جن کر گلیوں محلوں مدرسوں میں روانہ کر دیتے ہیں۔

کوئی گھروں میں کام کرتا ہے تو کوئی غلط کاروں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ کون اتنے بچوں کہ خیال رکھ سکتا ہے۔ سو ذہنی اور جسمانی طور پر وہ بھٹکتے رہتے ہیں۔ ۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو مذہبی جنونیوں کی تعلیمات سے برین واش ہو کر قاتل بن جاتے ہیں۔ یہ لڑکا بھی ایک خاص مسلک کہ پروکار تھا۔ ۔ جس نے اس کے دل و دماغ میں عدم قبولیت اور منفیت بھر دی۔ اس قاتل کے ساتھ ساتھ وہ انتہا پسند ملا بھی اس قتلِ ناحق کے ذمے دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔

افسوس کہ ہمارے ہاں مذہب کے نام پر قتل کو پسند کے جانے کی تاریخ موجود ہے۔ اگلے وقتوں میں علامہ اقبال نے بھی ایسے کسی اقدام کی مذمت نہیں کی بلکے اسے سراہا ہے۔ پھر مشال خان اور دیگر لوگ ایسی ہی وارداتوں کی وجہ سے کہانیاں بنتے چلے گئے اور بڑھ کر قاتل شیر اور ہم خوفزدہ ہوتے گئے۔ جس کی سوچ مجھ سے الگ ہو اسے مار ڈالو کا انت نا جانے کہاں ہو گا۔

ابھی تک کوئی لیڈر سیاست دان یا ملا حضرت سامنے نہیں آئے جنہوں نے پروفیسر حمید کے قاتل پر کچھ رنج ظاہر کیا ہو۔ سب کو خوف سے سانپ سونگھ گیا ہے۔ کیونکہ خنجر یا گولی کا دل نہیں صرف نشانہ ہوتا ہے۔ اور وہ یہ جانتے ہیں۔

ضرورت ہے کے اب تعلیمی اداروں میں وسعتِ قلبی۔ روشن خیالی اور فنونِ لطیفہ کی تعلیعام عام کی جائے۔

شدت پسند مذہبی جذبات کو مانیٹر کیا جائے۔ دوسرے اسلامی ملکوں اور معاشروں میں تو اسی طرح توازن برقرار رکھا جاتا ہے تو پھر آخر ہمارے ہاں ایسا کچھ کیوں نہیں ہو سکتا۔ ایسے عناصر کی کونسلنگ بھی بہت ضروری ہے۔ دنیا بھر کی درسگاہوں میں طالب علموں کی رہ نمائی کے لئے کونسلر ہوتے ہیں جو ان کی ذہن سازی اور رہنمائی کرتے ہیں۔ انھیں سوچ کی نئی راہیں سجھاتے ہیں۔ ذہن کی بند کھڑکیاں کھولنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

بیمار ذہنیت والے اس قابل کہاں ہوتے ہیں کے انھیں آزادی سے معاشرے میں گھومنے پھرنے پڑھنے لکھنے عوام سے رابطے رکھنے دیا جائے۔ یہ تو کسی بھی وقت بم بن کر کہیں بھی پھٹ سکتے ہیں۔ قہر بن کر نازل ہو سکتے ہیں۔ کسی کی زندگی کہ چراغ کبھی بھی گل کر سکتے ہیں۔

پروفسسر خالد حمید نے ابھی کتنے بچوں کو پڑھانا۔ کتنے گلوں میں خوشبو اور رنگ بھرنے تھے۔ کیا کیا کرنا تھا۔ اب تو واقعی دشمن بچوں کو ٹھیک ٹھیک پڑھانا ہو گا۔ انھیں کچھ مختلف بتانا سکھانا سمجھانا ہو گا۔ دشمن کہیں دور نہیں ہمارے اندر ہی چھپا بیٹھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).