بچوں کی بچپن سے تربیت کریں!


زندگی بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپا۔ بچپن زندگی کے اس حصے کا نام ہے جس میں موج مستی، لاڈ پیار، کھیل کود ہی زندگی کا مرکز و محور ہوتا ہے اور اس دور میں کسی چیز کی کوئی ٹینشن نہیں ہوتی۔ کبھی اپنی شرارتوں سے تو کبھی ضد کر کے اپنی بات منوا لینا عام سی بات ہے۔ ہر انسان کا بچپن کچھ حسین اور کچھ تلخ یادوں پر مبنی ہوتا ہے لیکن انسان چاہ کر بھی اپنا گزرا ہوا بچپن واپس نہیں لا سکتا۔ لیکن وہ اپنا بچپن آنے والی دو نسلوں کے ساتھ دوبارہ انجوائے ضرور کر سکتا ہے۔ ماں بن کر اپنی اولاد کے ساتھ اور پھر اگر عمر وفا کرے تو دادای اور نانی بن کر اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ۔

یہ حقیقت ہے جب ہم خود کسی مرحلے سے گزر رہے ہوتے ہیں تو اس سے اتنا لطف اندوز نہیں ہو رہے ہوتے اور اس کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے ہوتے۔ جب وہ دور گزر جاتا ہے تو اس کی اہمیت ہمارے دلوں میں بڑھ جاتی ہے اور جب ہم کسی اور کو اس مرحلے سے گزرتا دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنا زمانہ ’اپنا گزرا ہوا وقت یاد آتا ہے۔ اس مرحلے میں کی گئی غلطیاں کوتاہیاں یاد آتی ہیں اور ہمیں اپنے وہ حسین پل یاد آتے ہیں جو گزر چکے ہوتے ہیں۔ لیکن کسی اور کو اس سے گزرتے دیکھ کر ہم اپنے آپ کو اسی دور میں اور انہی لمحوں میں محسوس کر کے دوبارہ لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے کہ آج ہم کسی کی اولاد ہیں تو مستقبل میں ہم کسی کے والدین ہوں گئے۔ ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہوتے ہیں۔ ہم اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لئے بہت مشقت اور محنت کرتے ہیں۔ دن رات محنت کر کے گھر، کاروبار، اور بینک بیلنس جمع کرتے ہیں۔ ان عارضی چیزوں کو اپنا مستقبل سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ جو ہمارا اصل مستقبل ہوتا ہے ہم ان کی شخصیت سازی اور ان کے کردار پر خاص توجہ نہیں دیتے۔ بس اچھے سکولوں، کالجوں سے تعلیم دلوانا، اچھا کھلانا، اور اچھا پہنانا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

ہماری اولاد ہمارا سب سے قمیتی سرمایہ ہوتی ہے۔ معاشی سرمایہ کاری میں اگر ہمیں نقصان ہو جائے تو ہم دوبارہ محنت کر سکتے ہیں۔ لیکن خدانخواستہ کسی کو اگر اس کے اولاد کے بارے میں کوئی نقصان ہو جائے تو ہم ٹوٹ جاتے ہیں اور دوبارہ سنبھلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہماری اولاد ہی وہ واحد سرمایہ ہے جیس کا فائدہ ہمیں دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی ہے۔ نیک اولاد آپ کو قبر میں بھی راحت پہنچاتی ہے جبکہ اس کے برعکس نا فرمان اولاد دنیا میں بھی آپ کے لئے امتحان بن جاتی ہے اور آخرت میں بھی باعث شرمندگی بنتی ہے۔

بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا دماغ سفید پیپر کی طرح ہوتا ہے۔ سفید پیپر پر جو تحریر لکھ دی جائے چاہیے وہ صحیح ہو یا غلط ’اب وہ اس پر لکھی رہے گی۔ مٹانے پر بھی وہ اپنے نقش ضرور چھوڑ جائے گی۔ ایسے ہی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا دماغ بھی وائٹ پیپر کی طرح صاف ستھرا ہوتا ہے۔ اب اگراس پر شروع سے ہی صحیح لکھا جائے گا تو وہ صحیح چلتا رہے گا اور اگر آپ سوچیں کہ ابھی تو بچہ ہے‘ بڑے ہو کر صحیح ہو جائے گا تو یہ آپ کا خام خیال ہے اس لیے کہ لکھا ہوا مٹ بھی جائے تو اس کے نقش پھر بھی باقی رہتے ہیں۔ لہٰذا بچے کو شروع سے ہی اچھی باتوں اور کاموں پر لگائیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ نمازی ہو، دوسروں کا خیال رکھنے والا ہو، آپ کی عزت کرے، آپ کے کاموں میں آپ کی مدد کرے تو آپ اس کو بچپن سے ہی نماز پر لگائیں، چھوٹے چھوٹے کام کرنے کو دیں، دوسروں کی مدد کرنا سیکھائیں۔

کچھ چیزیں ہم بچوں کو سیکھا رہے ہوتے ہیں تو کچھ چیزیں بچے اپنے مشاہدے سے اور اپنے والدین کے دوسروں کے ساتھ رویوں سے سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا کردار ہمارے بچوں کے لئے رول ماڈل ہوتا ہے۔ ہمارے عمل اور سیکھانے میں اگر تضاد ہو گا تو بچہ وہی سیکھے گا جو اسے بہتر لگے گا۔ ہم خود تو نماز پڑھ نہیں رہے اور بچوں کو نماز پڑھنے کا کہے جا رہے ہیں تو اس پر ہماری بات کا اثر نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ بچہ جو دیکھتا ہے وہی کرتا ہے۔ یاد رکھیں کہ گھربچے کا پہلا سکول ہوتا ہے اور والدین اس کے اولین اساتذہ۔

محترم قارئین! بچے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہیں اور اس نعمت پر اللہ عزوجل کا شکر بجا لانے کے ساتھ ساتھ اس نعمت کے بارے میں جواب طلبی کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ ایک حدیث پاک کا مہفوم ہے کہ حاکم سے اس کی رعایا کے بارے میں اور ایک مرد سے اس کے اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آج ہمارے پاس وقت ہے ’مواقع ہیں چنانچہ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو سیدھے راستے کی طرف لائیں۔ بچپن سے ہی اسے اچھے کاموں کی طرف لگائیں۔

اچھے اخلاق سکھائیں۔ اپنے سے کم تروں سے خود بھی اخلاق سے پیش آئیں اور ان کی مدد میں پیش پیش رہیں اورپھر بچوں میں بھی یہی عادات پروان چڑھائیں۔ اپنے والدین اور گھر والوں کے لیے خصوصا اپنے لائف پارٹنر کے لیے ایک اچھا انسان بنے کہ کل آپ کے بچے بھی آپ جیسے ہوں گے۔ خدارا بچوں کی تربیت کے حوالے سے سستی کا مظاہرہ نہ کریں تاکہ آپ کی دنیا بھی جنت بنے اور آخرت کی کامیابی کے لیے یہ اولاد آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنے۔ ابھی آپ کے پاس موقع ہے کہ یہ سب کرگزریں ورنہ اگر سانس کی لڑی ٹوٹ گئی تو سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).