محب وطن ٹھیکیداروں کو مہوش حیات کا تمغہ امتیاز ہضم نا ہونے کی چند وجوہات


محب وطن ٹھیکیدار وہ پاکستانی ہیں جنہوں نے اپنے نازک کندھوں پر اپنی زندگی کے علاوہ دوسروں کی زندگی کا بھی ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے، ان محب وطنوں کی جانب سے مہوش حیات کو گالیاں دینے کا مقصد ان ہزاروں ماؤں بہنوں کو گالیاں دینا ہے جو چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے مختلف انڈسٹریز میں روزگار کی خاطر اپنے کام انجام دے رہی ہیں۔ کیونکہ ہمارے وطن میں موجود کثیر تعداد ایسے محب وطنوں کی پائی جاتی ہے جن کے نزدیک انڈسٹری میں کام کرنے والی عورتیں ”دو نمبر“ کہلاتی ہیں اس لیے انہیں ننگی گالیوں سے نوازنا کوئی غلط عمل نہیں سمجھا جاتا۔

پاکستانی آرٹسٹ مہوش حیات کو 23 مارچ کو ایوان صدر میں منعقد تقریب میں اعلیٰ سول ایوارڈ تمغہ امتیاز سے نوازا گیا، اداکارہ مہوش حیات نے ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ آٹھ سال کی تھیں تو اپنی والدہ کے ساتھ پہلی بار پی ٹی وی اسٹوڈیو میں گئیں اور وہ ایک یادگار لمحہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ خواب دیکھتے ہیں لیکن میں نے جو خواب دیکھے وہ پورے ہوئے اور آخر میں حکومت پاکستان اور اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔

کاش مہوش حیات ایک ہدایت یافتہ عورت ہوتی اور چار دیواری کا تقدس پامال نا کرتے ہوئے سلائی کڑاہی یا کھانا پکانے کا کام سیکھ لیتی۔

نفرت کرنے والے مہوش حیات کو اس کے لباس کی بناہ پر ایک فحش عورت سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے تمغہ امتیاز ہضم کرنے میں شدید مشکلات درپیش ہورہی ہیں۔ یہ وہی محب وطن پاکستانی ہیں جن کی جانب سے ملالہ یوسفزئی نامی با پردہ بچی جس کے سر پر ہمیشہ دوپٹہ رہتا ہے، مگر ٹھیکیداروں کی جانب سے اس کو ملنے والا نوبل ایوارڈ بھی ہضم نہیں ہوا تھا اور اس کو بھی ننگی گالیوں سے پکارنا غلط عمل نہیں مانا جاتا تھا۔

انڈسٹری میں کام کرنے والوں کا گالیاں دینے والوں سے صرف ایک درخواست ہے کہ وہ ہمارے گھر کے ماہانہ اخراجات کا ذمہ اٹھالیں، پھر ہم بھی ان کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انڈسٹری میں کام کرنے والوں کو دل بھر کر گالیاں دیا کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).