یوم جمہوریہ سے یوم پاکستان


آج سے تریسٹھ سال قبل 23 مارچ کو ملکی تاریخ میں پہلی بار یوم جمہوریہ کے طور پر منانے کا اہتمام کیا گیا 1956 میں یوم جمہوریہ منانے کی روایت صرف دوسال ہی قائم رہی اور دوسال بعد ہی اسے یوم جمہوریہ سے یوم پاکستان میں تبدیل کر دیا گیا پاکستان ہمارا پیارا ملک ہے اور اس دھرتی پر ہمارے لیے خدا کی خاص نعمت یا رحمت بھی ہے کہ ہم ایک خود مختار اور آزاد ملک میں اپنے اپنے مذہب عقیدے اور مرضی کے مطابق آزاد زندگی گزار رہے ہیں ۔آج اس ملک میں ہر ایک بات پر مباحثے ہوتے ہیں اور بہت سے قوانین بھی بنائے جاتے ہیں لیکن اگر کچھ نہیں کیا جاتا تو ان لوگوں کے لیے کہ جن کی ووٹوں سے ہماری اسمبلیاں منتخب ہوتی ہیں کیونکہ وہ سب تو جمہور ہیں اور جمہور کی نفی تو 1958 میں یوم جمہوریہ کے نام کو ختم کر کے کر دی گئی ہے مجھے یوم پاکستان کے عنوان سے کوئی ذاتی مخالفت ہرگز نہیں ہے کیونکہ پاکستان میرا ملک ہے اور مجھے اتنا ہی پیارا ہے جتنا کہ کسی بھی محب وطن کو وطن پیارا ہوتا ہے لیکن مجھے اعتراض ان قوتوں سے ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی جمہور اور جمہوریت کو کمزور تر اور محکوم تر بنانے کی تراکیب پر عمل شروع کر دیا تھا۔

23 مارچ کی تاریخ چونکہ قرارداد پاکستان کی منظوری کے حوالے سے تاریخی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس روز برصغیر میں بسنے والے جمہوریت پسندوں نے اکثریت رائے سے پاکستان بنانے کی قرارداد منظور کی تھی اور اسی مناسبت سے 1956 میں اس تاریخ کو یوم جمہوریہ کا عنوان دیا گیا تھا تاکہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کو یہ احساس ہو سکے کہ جیسے پاکستان بنانے کے لیے انکی رائے کو مقدم رکھا گیا اسی طرح آئندہ ملک کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے بھی عوام کی رائے کا احترام کیا جائے گا اور 23 مارچ 1940 کی طرح جمہور کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا لیکن طالع آزماوں اور غلام ذہنیت کے پیروکاروں نے اس ملک سے یوم جمہوریہ اور جمہوریت دونوں کو سلب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

جب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان معرض وجود میں آیا تب سے اب تک اس ملک میں رہنے والے جاگیرداروں سرمایہ داروں اور غلام ذہنیت رکھنے والے طالع آزماوں نے اس ملک کے معصوم اور سیدھے سادھے لوگوں کو اپنے زیر تسلط رکھنے کے تمام حربے استعمال کیے ہیں ۔

آج ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا جس کے لیے سرسید احمد خان نے دوقومی نظریہ پیش کیا جس کے حصول کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر کے جمہوریت پسندوں نے سر دھڑ کی بازیاں تک لگا دیں۔ انیسویں صدی امید کی صدی تھی اس صدی میں ایسی منازل طے کی گئیں جن کا ماضی میں تصور بھی شائد ممکن نہیں تھا

کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستان بھی قائم ہو سکے گا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کا قیام اس دنیا میں طالع آذماوں کی زد میں رہنے والوں کے لیے انقلاب کا پیغام لے کر آیا تو غلط نہ ہو گا پاکستان کے قیام کے بعد دنیا کے دیگر ممالک میں بسنے والی اقلیتوں نے اپنے حقوق اور آزادی کے حصول کی جدوجہد کو تیز کیا اور غلامی و محکومی کی زندگیوں سے نجات حاصل کی بیسویں صدی میں انقلاب روس کے نقارے گونجے یورپ ایشیاء افریقہ اور لاطینی امریکہ میں آمریت کا خاتمہ ہوا اور جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی بات کہیں اور نکل گئی خیر یوم پاکستان کو اگر ہم 14 اگست سے منسوب کریں تو زیادہ بہتر ہو گا کیونکہ یوم جمہوریہ اگر 23 مارچ کو منعقد نہ ہوتا تو یوم پاکستان کیسے ممکن تھا صیح معنوں میں یوم پاکستان کا عنوان 14 اگست کو ہی دیا جانا چاہے کیونکہ اس روز ہم ہندو بنیے و انگریز سامراج سے آزاد ہوئے اور پاکستان میں پائے جانے والے طالع آزماوں اور لوگوں کو غلام رکھنے والے غلام ذہنیتوں کے آگے یرغمال ہو گئے۔ آج بھی ہمارے ہاری زمیندار مزارعے جاگیردار مزدور مل مالکان اور عام شہری سرمایہ دار کی مرضی کے مطابق زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں ۔

آج یہاں طاقتور کمزور کو دبانے میں مصروف ہے آج سرمایہ دار اس ملک کے مزدوروں کے حقوق سلب کرنے میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں کرتا آج اساتذہ دانشور کسان طالبعلم ادیب شاعر اور عام انسان چند طاقتوروں کے سامنے بے بس ہیں اگر واقعی میں اس ملک اور اس میں رہنے والے کڑوڑوں افراد کی خوشحالی تحفظ اور بہتری کے لیے کچھ کرنا ہے تو پھر 23 مارچ 1940 کی قرارداد کے متن پر عمل کو یقینی بنانا ہو گا جسکے مطابق زور آوروں کو کمزوروں کی پگڑیاں عزت و احترام کے ساتھ انکے سروں پر سجانی ہونگی جہاں جنونیت کا خاتمہ برداشت و رواداری سے کرنا ہو گا۔

پاکستان کو پراپرٹی ڈیلروں سے بچا کر عوام کو ان بستیوں کی خوشخبری سنانا ہو گی جن کی بات علامہ اقبال نے کی کر رکھی ہے ملک میں معاشرتی استحکام کے لیے جذباتی و دبنگ تقاریر اور کرارے جوابوں کی بجائے مدلل مکالموں کا رواج ڈالنا ہو گا وطن کی محبت ہر ایک دل و جان میں موجزن کرنا ہو گی سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنوں کو ملک و ملت کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی صحافیوں اور میڈیا ہاوسزز کو مرچ مصالحہ کی بجائے سچ لکھنا اور سچ دکھانا ہو گا۔ عدلیہ عام انسان کے لیے انصاف کا حصول آسان بنانے میں اپنا بہترین کردار ادا کرسکتی ہے غرض یہ کہ پاکستان کے ہر ادارے ہر پاکستانی کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر وہ کچھ بھی صحیح کرینگے تو پاکستان کی نیک نامی اور خوشحالی میں انکا حصہ ہو گا اور اگر کچھ غلط کرینگے تو پاکستان کے بگاڑ میں انکا کلیدی کردار ہو گا اور اس لیے جمہور و جمہوریت کی بقاء و سلامتی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے ۔

راجہ محمد علی منہاس
Latest posts by راجہ محمد علی منہاس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).