شہزاد اکبر کا خوش گمانی کا چُورن


اتوار کا دن ڈھلتے وقت چہل قدمی کرتے ہوئے اچانک خیال آیا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب جناب شہزاد اکبر کافی دنوں سے میڈیا پر نظر نہیں آرہے۔ خدا خیر کرے۔ گھر لوٹا اور تھوڑا سستانے کے بعد تازہ ترین جاننے کے لئے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا تو شہزاد اکبر میرے دوست محمد مالک کے شو میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’بڑی عمر ہے تمہاری‘‘ والا مصرعہ یاد آ گیا۔

ریموٹ کو بستر پر رکھ کر ان کی باتیں غور سے سننے کو مجبور ہو گیا۔ کافی وقت گزر جانے کے بعد مشیر برائے احتساب اس شو کے ذریعے اعتراف کرنے کو مجبور ہو گئے کہ اسحاق ڈار کو برطانیہ سے پاکستان لا کر احتسابی عمل سے گزارنے میں چند رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ کے مختلف اداروں نے انہیں حکومتِ پاکستان کے حوالے کرنے پر نظر بظاہر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے۔ آخری فیصلہ مگر اس ملک کی وزارتِ خارجہ نے کرنا ہے۔

اسحاق ڈار کی فائل وہاں تک پہنچ چکی ہے۔ حتمی فیصلہ وہیں ہو گا۔ حتمی فیصلے میں تاخیر کا باعث Brexitسے جڑے معاملات بھی ہیں۔ برطانوی حکومت اور پارلیمان ابھی تک طے نہیں کر پائے ہیں کہ یورپی یونین سے جدائی کا طریقہ کار کیا ہو۔ برطانوی وزارتِ خارجہ کی ساری توجہ ان دنوں اس مخمصے کا حل ڈھونڈنے پر مبذول ہے۔

شہزاد اکبر ’’غالب‘‘ کے محبوب کی طرح سادگی و پرکاری کا بہترین امتزاج ہیں۔ برطانوی وزارتِ خارجہ کا ذکر محض حقیقت کا بیان نہیں تھا۔ اس بیان میں یہ پیغام بھی مضمر تھا کہ اگر برطانوی وزارتِ خارجہ اسحاق ڈار کی فائل کو اپنے ہاں بغیر کوئی فیصلہ کئے دبائے رکھے تو ممکنہ تاخیر اس ملک کے ’’مفاد‘‘ کی خاطر ہو گی۔ شاید ڈار صاحب نے اپنے زمانہ اقتدار میں ریاستِ برطانیہ کے چند مفادات کو Look After کیا ہوگا۔

ممکنہ ’’خدمت‘‘ کی وجہ سے برطانیہ انہیں اپنے ہاں رکھ کر Payback کرتی دِکھے گی۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ شہزاد اکبر نے یہ سب نہیں کہا۔ ’’کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے‘‘ والی ’’سادگی‘‘ برقرار رکھی۔ اس سادگی سے میرے تخریبی ذہن نے اپنی پسند کے نتائج اخذ کئے ہیں۔

ایک بات مگر شہزاد صاحب نے کھل کر کہی اور وہ یہ کہ اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے میں Dual Criminality والا اصول بھی مانع آرہا ہے۔ سادہ ترین لفظوں میں اس کی تشریح یہ ہے کہ برطانوی قوانین و روایات کے مطابق مالیاتی معاملات سے جڑے قضیے فوجداری مقدمات کی گنجائش نہیں نکالتے۔

ایسے قضیوں کو ’’دیوانی‘‘ تصور کیا جاتا ہے جس میں خطا وار ٹھہرائے شخص کو جیل نہیں بھیجا جاتا۔ جرمانے وغیرہ عائد کر کے حساب ’’سیدھا‘‘ کر لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں لیکن احتساب کا جو قانون ہے وہ خطا واروں کو طویل المدتی سزائیں دلوانے کی جانب لے جاتا ہے۔

استغاثہ کو خطاوار کا جرم ثابت کرنے کے لئے ٹھوس شواہد کی بھی خاص ضرورت نہیں ہوتی۔ اپنی بے گناہی ثابت کرنا فقط ملزم کی ذمہ داری ہوتی ہے اور احتساب قانون کا یہ اصول عالمی طور پر انصاف کے لئے ٹھہرائے معیار کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔

Dual Criminalit کے ذکر کے بعد ہمیں بآسانی یہ تصور کر لینا چاہیے کہ اگر برطانوی وزارتِ خارجہ اسحاق ڈار سے متعلق فائل پر ’’ہاں‘‘ لکھ کر اپنی حکومت کو لوٹا بھی دے تو سابق وزیر خزانہ اس ہاں کے چند ہی روز بعد پاکستان کے کسی ہوائی اڈے پر ہتھکڑیوں سمیت جہاز سے اترتے نظر نہیں آئیں گے۔

برطانوی وزارتِ خارجہ کے فیصلے کے خلاف ان کے پاس اپیل کا حق موجود رہے گا۔ وہ اس حق کو یقینا استعمال کرنا چاہیں گے۔ حتمی فیصلہ اس صورت برطانوی عدالت کرے گی۔ اس عمل میں وقت لگے گا اور Dual Criminalityوالا اصول ان کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔

برطانیہ تو دور کی بات ہے مجھے پاکستان کے قوانین کا بھی واجبی علم میسر نہیں۔ محض ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے چند لوگوں سے گفتگو اور انٹرنیٹ کی بدولت کی سرسری تحقیق کے بعد میں اس کالم میں بارہا تذکرہ کرتا رہا کہ خدارا عوام کو اس گماں میں مبتلا نہ رکھا جائے کہ اسحاق ڈار جیسے لوگوں کے خلاف پاکستان میں جو احتسابی عمل شروع ہوا ہے اس کے نتیجے میں خطاوار ٹھہرائے افراد حکومتِ پاکستان کے حوالے کر دئیے جائیں گے۔

ان کے غیر ملکی اکائونٹس میں جمع رقوم ہمارے خزانے میں منتقل ہو جائیں گی۔ برطانیہ وغیرہ میں ان کی خریدی جائیدادیں ’’قرق‘‘ ہوکر نیلام ہوں گی۔ نیلامی کی بدولت ملی رقوم بھی قومی خزانے میں آجائیں گی۔اپنے عوام کو خوش گمانی سے بچانے کے لئے میں نے جو نکات بیان کئے انہیں ’’لفافہ صحافت‘‘ ٹھہرادیا گیا۔

شہزاد اکبر صاحب کی بتائی باتوں پر تحریک انصاف کے ووٹروں ہی نے نہیں بلکہ غیر جانب دار افراد کی ایک بڑی تعداد نے بھی اعتبار کیا۔ کئی ماہ گزرجانے کے بعد اب Dual Criminality والے اصول کا تذکرہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ اصول مگر 2019 میں متعارف نہیں ہوا۔ برطانیہ میں اس کا اطلاق صدیوں سے ہو رہا ہے۔

شہزاد اکبر جیسے ذہین افراد کو یقینا اس کا علم تھا۔ ہمیں خوش رکھنے کو مگر وہ خوش گمانی کا چورن فروخت کرتے رہے۔ معاملہ بتدریج اب ’’مٹی پائو‘‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے سے کئی ماہ قبل مگر میں بدنصیب داد فریاد میں مصروف ہو گیا۔ اپنے لوگوں کو خوش گمانی سے بچانے کی پاداش میں کئی لوگوں کو ناراض کر دیا۔

برطانیہ جیسے ممالک میں ’’قانون کی بالادستی‘‘ کا عجز و حسد سے تذکرہ کرتے ہوئے ہم یہ بات نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ایسے ممالک سرمایہ دارانہ نظام کی بالادستی کی ٹھوس علامتیں بھی ہیں۔ وہاں کے قوانین بھی سرمایہ دارانہ نظام کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے سب کے لئے برابر نہیں۔

چوری تو فوجداری کرواتی ہے مگر ’’مالی‘‘ معاملات دیوانی ہو جاتے ہیں۔ خطا ثابت ہو بھی جائے تو جرمانے والا مک مکا تانکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔ بینکوں میں رقوم جمع ہوتی رہیں۔ جائیدادوں کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے انہیں خریدنے کا سلسلہ بھی جاری رہے۔

Tax Evasionیعنی ٹیکس کی چوری کے بجائے Tax Avoidanceیعنی ٹیکس کی ادائیگی میں ’’کوتاہی‘‘ کا ذکر ہو۔ یورپی یونین سے جدا ہونے کے بعد برطانیہ اپنی معیشت کو توانا رکھنے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مزید Incentivesدینے کو مجبور ہو گا۔ اس کی خاطر ٹھوس شواہد کی بدولت ہوئی ’’منی لانڈرنگ‘‘ کو بھی صرف اس وقت سنجیدگی سے لیا جائے گا اگر برطانیہ میں آئی دولت منشیات کی فروخت سے بنائی گئی ہو یا اسے ’’دہشت گردی‘‘ کے ذریعے جمع کیا گیا۔

دیگر ا مور کو ’’وسیع تر مفاد‘‘ میں نظرانداز کر دیا جائے گا۔ تقاریر البتہ ہوتی رہیں گی۔ جن کا مقصد غریب ممالک کو تسلی دینے کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).