اشاعت اسلام میں صوفیاء اکرام کا کردار


اِنسانیت کی معراج اُس خدائے بزرگ و برتر کی رسائی ہے جو اِس کائنات کا خالق اور اسے درجہ کمال تک پہنچانے والا ہے۔ کائنات کی ہر چیز خدا تعالیٰ کی کامل صفات کا مظہر ہے۔ انسانیت کو اپنی معرفت سے آشنا کروانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا جو خاتم النبیین صلعم پر ختم ہوا۔ پیغامِ الٰہی کو اگلے دور کے لوگوں میں منتقل کرنے کے لیے جماعتِ صحابہ، اولیاء اللہ، صدیقین اور صوفیاء اکرام کا مجاہدانہ کردار نمایاں ہے۔ جنہوں نے اسلام کے عادلانہ سیاسی اور معاشی نظام کو ظلم کے خلاف پوری دنیا میں روشناس کروایا۔

اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک کے دور میں حجاج بن یوسف نے اپنے داماد اور چچا زاد بھائی محمد بن قاسم کو ایک تعزیری مہم کی خاطر ہندوستان بھیجا۔ محمد بن قاسم 711 ء میں چھ ہزار سوار لے کر ہندوستان پہنچا اور اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے دو سال کے قلیل عرصہ میں سندھ اور ملتان کا علاقہ فتح کر لیا۔ محمد بن قاسم عراق میں گرفتار ہوا اور وہیں اسے مروایا گیا۔ اس کے بعد اشاعت اسلام کی رفتار کم ہو گئی۔ محمد بن قاسم کے تین سو سال بعد محمود غزنوی ہندوستان آیا مگر مستحکم نظام حکومت کے قیام کی طرف اُس نے کوئی خاطر خواہ توجہ نہ دی اور ہندوستان کا نظام مقامی ظالمانہ قوتوں کے ہاتھ میں رہا۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری 1166 ء میں ہندوستان تشریف لائے اور اجمیر کو اپنا مرکز رشد و ہدایت بنایا۔ ہندوؤں کے وہ نچلے اور اچھوت طبقات جنہیں معاشرے میں کوئی حیثیت حاصل نہ تھی آپ نے انہیں اسلام کے عادلانہ نظام سے متعارف کروایا۔ جس کی بدولت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو گئے۔ 1193 ء میں سلطان محمد غوری جب ہندوستان آیا تو اُس کا مقابلہ والئی ہند رائے پتھورا سے ہوا۔ رائے پتھورا زندہ گرفتار ہوا اور اس سے حکومت بھی چھن گئی۔ یہ امر اُس دعا کا منظر نامہ ہے جو حضرت معین الدین نے کی تھی کہ ”پتھورا کو ہم زندہ گرفتار کریں گے اور اسے سزا دیں گے“۔

ہندوستان کے مرکز دہلی میں خواجہ بختیار کاکی نے رشد و ہدایت کا سلسلہ عام کیا۔ سلطان التمش آپ کا بہت معتقد تھا۔ چشتیہ سلسلے کے مشہور بزرگ بابا فرید نے پاکپتن کو فیضان بخشا۔ بے حرصی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ سلطان ناصر الدین محمود نے اپنے نائب غیاث الدین بلبن کو بابا صاحب کی خدمت میں زرِ نقد اور چار دیہات کا جاگیر نامہ بھیجا مگر آپ نے وہ نقدی لوگوں میں تقسیم کر دی اور جاگیر نامہ یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ”اس کے دوسرے طالب بہت ہیں“۔ آپ کے زہد و تقویٰ اور انسان دوستی کے سبب مغربی پنجاب کے بڑے بڑے قبائل جن میں سیال، راجپوت، وٹو وغیرہ شامل ہیں آپ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔

بابا فرید کے مرید اور فوائد الفواد کے مصنف حضرت نظام الدین اولیاء نے دہلی میں بیٹھ کر اشاعتِ اسلام کا ایسا نظام قائم کیا جو گجرات، دکن اور بنگال تک پھیلا۔ فتوح السلاطین میں عصامی نے عہد محمد تغلق میں دہلی کی بربادی کے تین اسباب لکھے ہیں :ان میں سے ایک سبب حضرت نظام الدین کے سایہ عاطفت اور اُن کے فیض سے محروم ہونا ہے۔

صوفیا کی حقیقت پسندی اور انسان دوستی اس سے بھی سمجھ آتی ہے کہ ایک مرتبہ فیروز تغلق کا وزیر جان تلنگی نے حضرت چراغ دہلی سے عبادت و ریاضت کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ : تم وزیر مملکت ہو تمہاری عبادت یہی ہے کہ حاجت مندوں کی حاجت روائی میں انتہائی کوشش کرو اور اپنا کام اس طرح کرو کہ اسے ہی عبادت سمجھو۔

ملتان اور سندھ میں قرامطہ فرقے کے خلاف اشاعت اسلام کا بیڑہ جن خدا شناس اور انسان دوست لوگوں نے اٹھایا اٌن میں حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی اور اُن کے رفقائے کار سر فہرست ہیں۔ اشاعتِ اسلام کے ساتھ ساتھ حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی نے عامہ خلائق کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے زراعت اور تجارت کو ترقی دی، نہریں کھدوائیں اور جنگلات کی آباد کاری سے تہذیبِ اسلام کی جڑ مضبوط کی۔ آپ کا سیاسی ذوق بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔

ناصر الدین قباچہ (جو اُن دنوں ملتان کا صوبیدار تھا) کی بغاوت جس سے مسلمانوں کے خون بہنے کا ڈر تھا حضرت نے بادشاہ شمش الدین التمش کو قباچہ کے خوفناک منصوبے کی اطلاع دی۔ بادشاہ نے قباچہ کا تعاقب کیا اور قباچہ دریائے سندھ میں ڈوب کر مر گیا۔ 1257 ء میں منگول ملتان میں داخل ہوئے تو حضرت نے ایک لاکھ درہم ادا کر کے اہلِ شہر کو خون کی ہولی سے بچایا۔

سلطان محمد بن تغلق کے خلاف کشلو خان نے جب بغاوت کی تو سلطان نے حکم دیا کہ اہلِ ملتان کے خون سے نہریں بہادو تو شیخ رکن الدین ننگے پاؤں چل کر سلطان کے پاس گئے اور اہلِ شہر کی جانیں بچائیں۔

سہروردی سلسلے کے ایک بزرگ حضرت مخدوم جہانیاں نے سلطان فیروز شاہ تغلق اور سمہ خاندان کے درمیان مصالحت کروائی اور جنگ کے خطرے کو ختم کر دیا۔ حضرت مخدوم کے پاس جب فیروز شاہ حاضری دیتا تو آپ اسے عوام الناس کی حاجات کی فہرست تھما دیتے جس پر غور و خوض کرنے کے بعد فیروز شاہ لوگوں کی حاجات پوری کرتا۔

مسٹر سٹیپلٹن بنگال میں صوفیاء اکرام کے اشاعت اسلام کی بابت لکھتا ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے ان اولیائے مجاہد کا اسلام کی تاریخ میں وہی مرتبہ ہے جو صلیبی لڑائیوں کی تاریخ میں ٹمپلر مجاہدین کا تھا اگرچہ صوفیا کی اخلاقی حالت مسیحی بہادروں یعنی نائٹس سے کہیں بہتر تھی۔

ملتان کا گزٹئیر سر ایڈورڈ میکلیگن نے مرتب کیا جس میں بزرگانِ کبار کی بدولت اسلام کے جمہوری اور عادلانہ سیاسی اور اقتصادی نظام کے قیام پر روشنی پڑتی ہے۔ ہندوؤں کے وہ قبائل جنہیں اچھوت قرار دے کر اُن کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ صوفیاء اکرام نے انہیں دینِ اسلام کے عادلانہ نظام سے متعارف کروایا اور اُن کو ترقی کے برابر مواقع فراہم کیے۔ ہندوؤں کے اچھوت طبقوں کو جنہیں چوہڑے کہا جاتا تھا معاشرے کے گھٹیا امور اُن کے لئے مختص تھے اٌن کا کوئی سیاسی اور سماجی مقام نہ تھا۔ یہی لوگ جب مسلمان ہوئے تو مسلی کہلائے اور اب وہ شہروں میں جا کر دوسرے لوگوں کی طرح امورِ معاشیات میں حصہ لینے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام اپنے عادلانہ نظام کے سبب برعظیم پاک و ہند میں بڑی تیزی سے پھیلا۔

اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ برعظیم پاک و ہند اسلام تلوار کے زور پر نہیں بلکہ اپنے عادلانہ اصولوں کی بنیاد پر پھیلا۔ مسلمان اِس خطے میں ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم تھے۔ محض تلوار کے دم پر اکثریتی غیر مسلم آبادی کو آٹھ سو سال تک زیرِ نگیں نہیں رکھا جا سکتا۔

آج ہمیں صوفیاء کا تعارف کروایا جاتا ہے تو محض رسمی اور کراماتی انداز میں اولیاء اللہ کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی جدوجہد جس کے نتیجے میں اسلام کا عادلانہ نظام قائم ہوا ہمیں نہیں بتلایا جاتا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تاریخ کا مطالعہ تقلیدی اور انفرادی نقطہ نظر سے کرنے کے بجائے تخلیقی اور اجتماعیت کے اُن پہلوؤں سے کریں جن کے بغیر کسی بھی مہذب معاشرے کی تشکیل ناگزیر ہے۔

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).