یوم خواتین یا یومِ رسوائی


آٹھ مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ لیکن پاکستان میں خواتین کے نام پر منایا جانے والا دن یادگاربن گیا۔ یہ ہماری روایت ہے کہ ہم اپنے ہرخاص موقع کو تھوڑی سی محنت کر کے بہت زیادہ خاص بنا لیتے ہیں۔ معاملہ خانگی سطح کا ہو یا قومی سطح کا ہم اس دن کو ایسا یادگار بنا دیتے ہیں۔ کہ اگلا ایسا ایونٹ آنے تک اس کی یاد خود بھی آتی ہے اور دوسروں کو بھی۔ کہ رنگ میں بھنگ ڈالنا ہمارا انفرادی نہیں اجتماعی چلن ہے۔

یہ نئی بات نہیں، آج کی بات نہیں۔ یہ برسوں کی ریت ہے، روائیت ہے۔ بزرگوں سے چلی ہے اورانشاءاللہ نسل در نسل چلتی رہے گی۔ ہم کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں، بیرونِ ممالک ٹاپ کی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر ڈگریوں کے انبار اکٹھے کرلیں۔ لیکن اس ریت کو نہیں چھوڑیں گے۔ کیونکہ یہ ہماری جین میں شامل ہے، ہماری فطرت ہے اورفطرت کبھی نہیں بدلتی۔ آٹھ مارچ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین مارچ کا اہتمام کیاگیا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہ خواتین کے لئے منایا جانے والا یہ دن خواتین ہی کی وجہ سے متنازع بن گیا۔

یہ دن ایسا متنازع بنا کہ اگلا یومِ نسواں آنے تک اس کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی۔ وجہ خواتین کے اپنے حقوق کے لئے اٹھائے جانے والے پلے کارڈز اور بینرز تھے۔ جس کا الزام کبھی لبرلز پر لگتا ہے، کبھی خواتین کو بگاڑنے والی این جی اوز پر اور کبھی سیدھا سیدھا امریکہ پر۔ کہ جی یہ سراسر امریکی فتور ہے امریکہ ہماری خواتین کو ورغلا رہا ہے۔ اس قصور میں فتور یہ تھا کہ اس میں شامل خواتین نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ان پر لکھا تھا۔ اپنا کھانا خود گرم کرو، اپنا موزہ خود تلاش کرو، میرا جسم میری مرضی، مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے۔

”اپنا کھانا خود گرم کرو“ اس جملے میں کیا برا ہے جب عورت کھانا پکا کے دے سکتی۔ ہے تو کیا مرد بے وقت گھر آنے، بیوی کے تھکے ہونے کی صورت میں اس کو گرم نہیں کر سکتا۔ ”اپنا موزہ خود تلاش کرو“ اس میں کیا مسئلہ ہے۔ عورت پورا گھر سنبھالتی ہے۔ تو مرد کو الماری سے ایک موزے نکالنے میں عار کیوں؟ اگرصبح بچوں اور شوہر کوسکول، دفتر بھیجنے کی افراتفری میں ناشتہ بنانے میں بیوی مصروف ہے، تو ضروری ہے کہ شوہر، بچوں اور سسرال کی ذمہ داریوں میں گھن چکر بنی بیوی ہی موزے ڈھونڈ کردے۔

یہ کام شوہر خود بھی تو کرسکتا ہے۔ ”میرا جسم میری مرضی“ اس نعرے میں کیا فتور ہے، کیا برائی ہے۔ کہنے کو یہ ایک چھوٹا ساجملہ ہے لیکن اپنے اندر یہ بٍہت ہی گہرے اور گھمبیر مسائل کی طرف توجہ دلاتا ہے لیکن اگر توجہ کی جائے تو۔ اس میں صرف ایک پہلو نہیں ہے۔ جنسی ہراسگی سے لے کر جنسی آسودگی، بچوں کی تعداد اوردیگر مسائل کیطرف توجہ دلاتا ہے۔ وہ گہرے مسائل جن پر ہم شاید ہی کبھی توجہ کریں۔ بچوں کی تعداد کے معاملے میں عورت کی رائے شامل ہونی چاہیے۔

کہ۔ نو ماہ بچے کو اپنی کوکھ میں عورت رکھتی ہے۔ زچگی کے تکلیف دہ مراحل سے عورت گزرتی ہے مرد نہیں۔ اور یہ تکلیف دہ مراحل پڑھی لکھی، اور ان پڑھ کسی پوش یا پسماندہ علاقے میں رہنے والی ہر طبقے کی عورت کو برداشت کرنا ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق صرف لبرل یاصرف کنزیرٹیو طبقے سے نہیں۔ اسکاتعلق صرف عورت سے ہے۔ ”مبارک ہوبیٹی ہوئی ہے“ اس نعرے میں کیا برائی ہے۔ عورت کوبا اختیار بنانے سے مراد تنگ ذہن لوگوں نے یہ لے رکھی ہے کہ اس کوایسی آزادی دی جانے کی بات کی جاتی ہے جس میں وہ فحاشی، بے حیائی، آوارگی، بد چلنی کا مجسمہ بن کر سامنے آئے گی۔

اس کے علاوہ با اختیار ہونے کا کوئی مطلب نہیں لیا جاتا۔ جبکہ عورت ہویا مرد اختیار کا دائرہ کار دونوں کے لئے وسیع بھی ہے اور محدود بھی۔ کہ ہر مہذب معاشرے میں رہنے کی ایک تہذیب ہوتی ہے۔ جو ان دونوں صنفوں پر لاگو ہوتی ہے۔ خدارا عورت کو انسان سمجھیں اس کو اس کے بنیادی حقوق تک رسائی دیں۔ عورت کے بنیادی حقوق میں سب سے پہلے تو اسے انسان سمجھنا ہے۔ عورت صرف بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں۔ وہ کوئی بھیڑ بکری نہیں ہے وہ انسان ہے جس کے ساتھ سب سے پہلے اس کی صحت جیسے مسائل جڑے ہیں۔

تعلیم اس کا بنیادی حق ہے۔ جس سے اس کومحروم رکھا جاتا ہے۔ ہم بہت کرتے ہیں تو لے کے ایک قرآن پاک پڑھا دیتے ہیں کہ یہ تم پر احسان کر رہے ہیں۔ جبکہ۔ جس قرآن کو پڑھایا جاتا ہے اس کے حکم کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ لبرل جان لیں کہ عورت کو اسلام نے قید نہیں کیا ہے اور کنزرویٹو جان لیں کہ عورت کو مذہب آزادی دیتا ہے لبرل لوگ نہیں۔ لبرل لوگ بس عورت کواس کا جائز مقام، اور حق دینے کی بات کرتے ہیں ورغلاتے نہیں۔ ورغلانے کا کام خود کنزروٹو لوگ اچھے سے کر لیتے ہیں۔

مذہب نے عورت کوقید نہیں کیا۔ ہمارے معاشرے کے تنگ ذہن لوگوں نے عورت کوقید کیا ہے۔ اسلا م کی ورکنگ لیڈی تو حضرت خدیجۃالکبری تھیں۔ جنھیں آج کی زبان میں میں بزنس وومن کہا جاتاہے۔ جنگ کے میدان میں حضرت عائشہ موجود رہی ہیں۔ آج کی موجودہ اصطلاح جاسوسی کا ذکر ہو تو اس کے لئے حضرت عائشہ کی بہن حضرت اسما غارثور میں نبی پاک کو حالات بتانے جاتی رہی ہیں۔ اگر عورت کو مذہب قید کرتا تو ان امور کے لئے آنحضرت خود منع فرمادیتے کہ۔

یہ مردوں کے کرنے کے کام ہے۔ عورت آگے نہ آئے۔ ذہنی ہم آہنگی کے نہ ہونے کی بناپرحضور نے اپنی پھوپھی زاد زینب بنت حجش کواپنے منہ بولے بیٹے سے خود طلاق کا مشورہ دیا۔ اگر اس میں قباحت ہوتی تو نبی فرماجاتے کہ عورت گھٹ گھٹ کر مرتی رہے لیکن طلاق نہ لے۔ لیکن عورت بھی بذات خود جان لے کہ وہ ایک عورت ہے۔ اس کو اپنی عزت کروانی ہے نہ کہ اپنا ”کھانا گرم کرو، موزہ تلاش کرو“ جیسے فضول اور بے مقصد نعروں اور مطالبوں کے ذریعے اپنا مذاق نہیں بنوانا۔

یہ بھی نہ ہو کہ اگر شوہر کے ایف سی نہیں لے کے جا سکا، یا پھر برینڈڈ سوٹ دلوانے کی اس میں سکت نہیں تو طلاق لے لی جائے۔ افسوس ہے کہ خواتین کے لئے منائے جانے والے دن ”یومِ نسواں“ کو ”یومِ رسوا“ بنا کر رکھ دیا گیا۔ اور جن مسائل پربات ہونی چاہیے تھی اس کی بجائے کھانا اور بستر گرم کرنے پر بحث چھڑگئی۔ سچ پوچھیے تویہ دونوں کام رضامندی، نیم رضامندی یا زور زبردستی سے ہو ہی جانے ہیں۔ سو اس بیانیئے پہ مٹی ڈال کے عورت کے اصل مسائل پر توجہ دیں۔

اور ایک گذارش خواتین سے بھی کہ خدارا اپنی زندگی کو آسان ہی رہنے دیں۔ کھانا گرم کرنا، اور موزہ تلاش کرنا مسائل نہیں عورت کی ذمہ داری اور شوہر کے لئے محبت ہے۔ جس شخصی آزادی کے پیچھے آپ خوار ہونے کے لئے سڑکوں پر نکل رہی ہیں وہ آزادی نہیں ”کچھ اور“ ہے۔ خدارا اپنی نسوانیت کی عزت کروانا سیکھیں۔ نسواں کونسواں ہی رہنے دیں۔ نسواں کو مرد بنانے کی آرزو میں رسوا مت کریں۔ آٹھ مارچ میں لگائے فضول، احمقانہ، کھوکھلے نعروں سے باہر نکلیں۔ اور عورت کے اصل مسائل کو اجاگر کریں، ان پر کام کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).