ہمارے اساتذہ کیا کر رہے ہیں؟
بریک ختم ہوتے ہی میں اپنا اردو کا پیریڈ لینے ساتویں کلاس کی طرف بڑھ گیا۔ آج میرا ہلکی پھلکی گپ شپ کے ساتھ ساتھ طالب علموں سے کچھ سننے سنانے کا موڈ بنا ہوا تھا جو میں اکثر کیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے لڑکے بہت خوش رہتے تھے اور مجھے اپنے بہت قریب سمجھتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ مجھے اپنا دوست سمجھ کر مجھ سے کوئی بھی بات بلاجھجک کہہ دیتے تھے۔
چہرے پر مسکراہٹ سجائے میں کلاس میں داخل ہوا تو سبھی طلباء احتراما ًاٹھ کھڑے ہوئے۔ کرسی پر بیٹھنے سے قبل میں نے ایک طائرانہ نگاہ دوڑا کر تمام لڑکوں کے چہروں کی تلاشی لی کہ کہاں کیا چل رہا ہے؟ میں ابھی پوری طرح سے ان کے چہروں کو پڑھ نہیں پایا تھا کہ اچانک کلاس کا سب سے دراز قد لڑکا ہاشم اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا:
”سر۔ ! آج کینٹین پر بہت رش تھا۔ عدیل نے مجھے پیچھے سے دھکا دیتے ہوئے کہا ہٹو آگے سے شیعہ کافر۔ “
یہ سننا تھا کہ میرے پیروں تلے سے زمین نکلتی چلی گئی اور چہرے کی مسکان یک لخت گاڑھی سنجیدگی میں بدل گئی۔ ہاشم کے یہ الفاظ تھے کہ کھولتا ہوا سیسہ جس نے میرے سماعتوں کو زخمی کرکے رکھ دیا۔ میں نے عدیل کی طرف دیکھا تو اس کا ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ وہ سخت گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ سبھی لڑکے بھی اسی کی طرف ہی دیکھنے لگے تھے مگر میرے دل دماغ پر سوچوں کے نشتر اترے جا رہے تھے کہ یہ غلاظت سکولوں تک کیسے پہنچ گئی؟ میرے چہرے پر بکھری بلا کی سنجیدگی دیکھ کر عدیل اور بھی ڈر گیا تھا۔
میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کروں؟ ایک لمحے کے لئے خیال آیا کہ اسے سب کے سامنے سخت ترین سزا دوں، تاکہ پھر کوئی لڑکا ایسی جرات نہ کر سکے۔
نہیں نہیں۔ اگراسے سزا دی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں ذہنی طور پر ایک بانجھ استاد ہوں اور ایسے لڑکوں کا علاج کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوں۔
تو کیا اس کے والدین کو بلوا کے ان سے شکایت کروں؟ ناں ناں۔ یہ بھی مناسب نہیں ہو گا، اگر ان کے والدین نے کہہ دیا کہ اگر یہ چیزیں بھی ہم نے ٹھیک کرنی ہیں تو پھر اپنے بچے کو سکول بھیجنے کا کیا فائدہ ہوا؟
تو پھر کیا کیا جائے۔ ۔ ۔ ؟ مختلف سوچیں مجھ سے چمٹی ہوئی تھیں اور میرا دماغ طوفان کی زد میں تھا کہ آخر میرے شاگرد نے ایسی بات کس طرح کہہ دی تھی؟ میں نے خدا سے دعا مانگی کہ یا اللہ مجھے توفیق دے کہ میں اپنے ملک کے مستقبل سے چمٹی ایسی غلاظتیں صاف کر سکوں۔ اچانک مجھے ایک ترکیب سوجھی۔
میں نے ہاشم اور عدیل دونوں کو انتہائی پیار محبت سے اپنے پاس بلا لیا۔ عدیل انتہائی ڈرا سہما میرے ساتھ ہی کھڑا تھا کہ اگر میں ذرا سا بھی غصہ کرتا تو وہ رونے لگ جاتا۔ مگر میں ایسا کچھ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے ڈرانے دھمکانے کی بجائے اس کا علاج کرنا تھا۔
”عدیل میرے بچے۔ ! مجھے آج سب کے سامنے تمہارا شکریہ ادا کرنا ہے۔ “ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میری بات سن کر عدیل چونک پڑا۔ میرے اس غیر متوقع رویئے نے ہاشم کو بھی حیران کر دیا تھا اور کلاس کے باقی لڑکے بھی حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے تھے۔
”دیکھو بھئی۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں، میں سچ کہہ رہا ہوں۔ مجھے واقعی عدیل کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ آج میں نے اس سے ایک نئی بات سیکھی ہے۔ ایک ایسی بات جس کا مجھے بھی علم نہیں تھا۔ عدیل تمہارا بہت شکریہ۔ “ میں نے حد درجہ ملائمت سے کہا اور عدیل ہونقوں کی طرح مجھے یوں دیکھنے لگا جیسے میرے دماغ میں کوئی خلل پیدا ہو گیا ہو۔
”مگر میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تمہیں کیسے پتہ چلا یہ شیعہ کافر ہوتے ہیں؟ “ میں نے انتہائی نرم لہجے میں پوچھا
میرے بار بار کے پوچھنے کے باوجود پہلے تو وہ کافی دیر تک کچھ نہ بولا مگر میں نے جب اس کا ڈر ختم کرتے ہوئے اس کا اعتماد بحال کیا تو وہ بڑی مشکل سے گویا ہوا:
”سر۔ ! میرا بڑا بھائی گھر میں کیسٹیں لگاتا رہتا ہے تو میں نے وہاں سے سنا ہے۔ ”عدیل نے سہمے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ اس کی اسی بات سے مجھے پورے معاملے کی سمجھ آ گئی تھی۔
”اچھا عدیل۔ ! یہ بتاؤ کہ مسلمان کسے کہتے ہیں؟ “ میں نے عدیل سے سوال کیا مگر وہ سر جھکا ئے خاموش کھڑا رہا اور کوئی جواب نہ دیا۔ کلاس میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی اور سبھی لڑکے چپ چاپ یہ سب دیکھ رہے تھے۔
”چلو یہ بتاؤ کہ تم نے مسجد جا کر قاری صاحب سے قرآنِ پاک پڑھا ہے؟ “ میں نے پوچھا
”یس سر۔ میں نے قرآن مجید ختم کیا ہوا ہے۔ “ عدیل نے مختصر سا جواب دیا۔
”ویری گڈ۔ پھر تو تم نے قاری صاحب سے ایمانیات بھی پڑھی ہوں گی یعنی ایمانِ مفصل اور ایمانِ مجمل؟ “ میں نے پھر سوال کیا
”جی سر یہ تو میں نے پڑھے ہوئے ہیں۔ “ عدیل نے کہا۔ اب وہ کافی اعتماد سے جواب دے رہا تھا۔ ہاشم بھی اس کے ساتھ کھڑا بغلوں میں بازو دبائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”اچھا تو پھر تم ایمانِ مفصل سناؤ۔ “ میں نے کہا
”آمنتُ با اللہِ و ملائکتہِ و کتبہِ و رُسُلہِ۔ “ اس نے فر فر سنا دی
” اب اس کا ترجمہ بھی سنا دو۔ “
” میں ایمان لایا اللہ پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر۔ “ عدیل نے پورا ترجمہ سنا دیا۔
”شاباش عدیل۔ ! اس کا یہ مطلب ہوا کہ ان تمام باتوں پر ایمان لانے والا مسلمان کہلاتا ہے۔ “ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے یس سر میں جواب دیا۔
”ہاشم۔ ! اب تم بتاؤ کہ تم نے یہ ایمانیات پڑھی ہوئی ہیں؟ “ میں نے ہاشم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
” یس سر۔ سناؤں؟ “ ہاشم نے جوشیلے لہجے میں کہا
”ہاں ترجمے کے ساتھ سناؤ۔ “
”آمنتُ با اللہِ و ملائکتہِ و کتبہِ و رُسُلہِ۔ میں ایمان لایا اللہ پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر۔ “ ہاشم نے ترجمے کے ساتھ پوری ایمانِ مفصل سنا دی۔
”بہت اچھے۔ بہت خوب۔ شاباش“ میں نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا
”عدیل۔ دیکھا تم نے کہ جن باتوں پر تم ایمان لا کر خود کو مسلمان کہہ رہے ہو، ان سب باتوں پر ہاشم بھی ایمان لے آیا ہے اور تم اس کے گواہ بھی بن گئے۔ ہو ناں اس کے گواہ؟ “ عدیل نے اثبات میں سر ہلایا۔
” جب تم خود اس کے مسلمان ہونے کی گواہی دے رہے ہو تو پھر وہ کافر کس بات پر ہوا؟ “ میں نے عدیل سے پوچھا مگر وہ تو چپ کے اتنے گہرے کنویں میں جا گرا تھا کہ اس کے لئے رہائی مشکل ہو گئی۔
”سوری سر۔ مجھ سے غلطی ہو گئی اور میں معافی مانگتا ہوں۔ “ عدیل نے انتہائی شرمندگی سے بجھی بجھی آواز میں کہا
”ناں ناں میرے بچے۔ تم میرے بچے ہو، میرے بیٹے ہو، تمہیں ایسی باتیں میں نہیں سمجھاؤں گا تو کیا کوئی باہر سے آئے گا؟ اور معافی تم مجھ سے نہیں ہاشم سے مانگو کہ اس کا دل دکھایا ہے تم نے۔ “ میرے کہنے کی دیر تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے اور کلاس تالیوں سے گونج اٹھی جبکہ میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیر رہے تھے۔
یہ واقعہ میرے ساتھ 2003 میں پیش آیا جب میں شہر کے ایک مشہور و معروف سکول میں بطور مدرس تعینات تھا اورصرف ایک سال تک درس و تدریس سے منسلک رہا۔ مگر اس ایک سال کے عرصہ کے دوران میں نے اپنے طالب علموں کو بجائے پڑھانے کے چھوٹی چھوٹی باتیں اور زندگی کے معاملات سمجھانے کی طرف زیادہ توجہ دی کیونکہ میرا یہ نقطہِ نظر رہا ہے کہ کلاس میں کھڑے ہو کر کتاب پڑھا دینا نا تو بہت آسان ہے اور یہ کام ایک سینئر کلاس کا طالب علم بھی جونیئر کلاس میں جا کر سر انجام دے سکتا ہے تو پھر استاد کس لئے ہوتا ہے؟ اس کا کیا کام ہوتا ہے؟ اس کا اصل منصب کیا ہوتا ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔
جب سے سانحہِ بہاولپور ہوا ہے، تب سے نیک دل پروفیسر خالد حمید (شہیدِ علم) کے بہیمانہ قتل پر میری روح نوحہ کناں ہے اور دل سے خون ٹپک رہا ہے۔ مجھے کسی طور یقین نہیں آ رہا کہ ہماری جامعات میں طالب علم انسان بننے کی بجائے قاتل بن کر سامنے آ رہے ہیں اور وہ بھی اپنے پروفیسرز کا قتل۔ ستم یہ کہ ایسی درندگی دکھانے کے بعد انہیں اپنے کیے پر نہ کوئی افسوس، نہ پچھتاوا اور نہ ہی ان کے اندر کسی قسم کی شرمندگی کے احساس نے جنم لیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی جامعات میں ایسی جانکاہ صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے؟ حصولِ علم کی خاطر خطیب حسین طالب علم بن کر جب گھر سے نکلا تھا تو اس کے ہاتھ میں کتابیں تھیں، پھر اس کے ہاتھ میں خنجر تھما کر اسے قاتل کس نے بنایا؟ برسوں سے وہ کالج میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرتا رہا، آخر تعلیمی سلسلہ اس کے اندر انقلاب کا پودا کیوں نہ لگا سکا؟ لمحہِ فکریہ تو یہ ہے کہ تعلیم و تعلم کی دن رات برستی بارش میں وہ کیسے اندر سے بنجر رہ گیا؟
آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک کالج میں پینتیس چالیس کے قریب اساتذہ و پروفیسرز حضرات موجود ہوں اور وہ اپنے طالب علموں کے تاریک سینوں میں علم و نور کے چشمے دریافت کرنے پر مامور ہوں جبکہ ان ہی کی موجودگی میں کوئی تخریب کار باہر سے آ کر ان کے ایک طالب علم، ان کے بچے، ان کے بیٹے اور اِس ملک کے مستقبل یعنی خطیب حسین کے اندر شدت پسندی کا بیج بوتا رہے اور کالج کے کسی معلم کو اس کی خبر تک نہ ہو سکے؟ میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں۔ میری فہم و فراست جواب دے گئی کہ کیسے ایک لڑکا ان کے سامنے ہی شدت کی راہوں پر چل نکلا ہو اور انہیں علم تک نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام پروفیسرز صاحبان موٹی موٹی کتابوں میں سر دیے یہ دیکھے بغیر صرف پڑھانے پر لگے رہے کہ کب کسی طالب علم نے کتاب رکھ کر ہاتھ میں خنجر پکڑ لیا۔
سانحہِ بہاولپور اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایسا ایک واقعہ گذشتہ برس جنوری میں بھی چارسدہ خیبر پختونخوا کے کسی ایک کالج میں پیش آیا تھا کہ ایک طالب علم مذہبی دھرنوں میں شرکت کے لئے کئی دن تک کالج سے غیر حاضر رہنے کے بعد جب کالج میں آیا تو پرنسپل نے غیر حاضری پر سرزنش کی۔ جس پر طیش میں آ کر اس طالب علم نے پرنسپل پر توھینِ رسالت کا الزام لگا کر اسے قتل کر دیا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ سکول کالجز میں اساتذہ صاحبان اور انتظامیہ کی موجودگی میں سرخ پنیری لگائی جا رہی ہے اور کوئی منع کرنے والا بھی نہیں۔ آخر کوئی تو ہوش کے ناخن لے کہ ملک کی جن جامعات کو ہم سکول، کالج اور یونیورسٹی کے نام سے موسوم کرتے ہیں حقیقت میں وہ ملک کا مستقبل تیار کرنے کی فیکٹریاں ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان فیکٹریوں میں اب کوئی مینوفیکچرنگ فالٹ پیدا ہو گیا ہے جس کہ وجہ سے اب وہ قاتل پیدا کر رہی ہیں جن کے لئے اپنے استادوں کا قتل محض ایک ٹرائل کیس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے اور اگر ایسے شدت پسند طالبعلموں کے گروہ پورے سماج میں پھیل گئے تو پھر یقین کر لیجیے کہ ملک کا مستقبل شدید خطرے میں گھرا ہوا ہے۔
مجھے زیادہ علم نہیں کہ ہماری جامعات کے اندر کے کیا حالات ہیں؟ ایک جامعہ کو کامیابی سے چلانے کے لئے کس طرح کی پالیسی مرتب کی جاتی ہے؟ اساتذہ صاحبان و پروفیسرز حضرات کے آپس کے معاملات کس نوعیت کے ہوتے ہیں؟ ان کا طالب علموں کے ساتھ رویہ کس طرح کا ہوتا ہے؟ وہاں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے یوتھ ونگ آخر کس طرح بن جاتے ہیں، کون اس کی اجازت دیتا ہے؟ جب لڑکے ان یوتھ ونگز کا حصہ بننے لگتے ہیں تو انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی کیوں نہیں ہوتا؟ مذہبی امور کے لئے تعینات کیے جانے والے اساتذہ صاحبان کی موجودگی میں کوئی طالب علم مذہب کے بارے میں اپنی مرضی کے مطلب کیسے نکال لیتا ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو اپنے بطن میں مزید سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ یعنی جامعات میں ادب کے یوتھ ونگز کیوں ترتیب نہیں دیے جاتے؟ وہاں ادبی محافل کا انعقاد کر کے مشہور ادیبوں کو بلوا کر ان کے ساتھ طلباء کا مکالمہ کیوں نہیں کروایا جاتا؟ ادیبوں کے ساتھ بٹھا کر ان سے کہانیاں و شاعری انہیں کیوں نہیں سنوائی جاتی؟ لائبریریوں کو ادبی کتابوں سے بھر کر ہر طالب علم کے ہاتھ میں کتاب کیوں نہیں تھمائی جاتی؟ خدمت گاری کے یوتھ ونگز کا اجراء کر کے ایدھی جیسے لوگوں کو کالج میں بلوا کر ان کے ساتھ دن کیوں نہیں منایا جاتا؟ ان کے ہاتھ میں رنگ اور برش تھما کر مصوری کے یوتھ ونگز کیوں نہیں بنائے جاتے؟ موسیقی کو پروموٹ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اداکاروں اور فنکاروں کو مدعو کر کے ان سے مکالمہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ فنونِ لطیفہ کے ساتھ ساتھ سائنس، کمپیوٹر، صحافت، کھیل و دیگر شعبوں سے متعلق طالب علموں کی تنظمیں یا گروپ کیوں تشکیل نہیں دیے جاتے؟
یہ وہ بنیادیں ہیں جن کا ملک کے اچھے مستقبل کے لئے مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ہماری جامعات میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا اور اساتذہ یا پروفیسر صاحبان صرف اپنی نوکری کرنے آتے ہیں اور انہیں صرف اپنی پروموشن یا تنخواہوں کے علاوہ کسی اور جذبے سے کوئی علاقہ نہیں ہے تو پھر یقین کر لیجیے کہ خطیب حسین جیسے طالبعلموں کے ہاتھوں میں خنجر تھمانے والے ہاتھ کوئی بھی نہیں کاٹ سکتا اور یہ جامعات اسی طرح اس ملک کو اعلیٰ پائے کے قاتل دیتی رہیں گی۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).