نسل پرستی اور انتہا پسندی ایک مائنڈسیٹ


نظریہ نسل پرستی اور انتہا پسندی کی جڑیں ہزاروں سال پرانی اور مضبوط ہیں جس کو سمجھنے کے لئے تھوڑی سی تاریخ تو پڑھنی ہوگی۔

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم دور میں یونانی اور رومی خود کو ایرانی، مصری، لیکٹوں اور جرمن قوموں سے افضل سمجھتے تھے اور ان کی اس نسل پرستانہ سوچ کو پھیلانے کے لئے اُس وقت کے کچھ دانشور بھی ان کی مدد کیا کرتے تھے مثال کے طور پر ”کچھ لو گ فطرت کی جانب سے غلام پیدا کیے جاتے ہیں تاکہ وہ یونانیوں کی خدمت کرسکیں“ نظریہ ارسطو نے دیا جونسل پرستی کی معاونت کا عکاس ہے۔

یہودی مورخین نے بھی اپنی قومی تاریخ میں خود کو خدا کی پسندیدہ مخلوق ثابت کرنے کے لئے لکھا ہے کہ ”خدا، ابراہیم اور اس کی اولاد میں ایک ابدی معاہدہ ہوچکا ہے جس کے تحت برتری کے اُوصاف اور خصوصیات یہودیوں کی جانب سے ان کی اولادوں میں بطور وراثت منتقل ہوتے ہیں اور وہ مستقل طور پر اعلی و افضل رہتے ہیں۔ یہودیوں کی یہ خود فریبی آج بھی اس صورت ظاہرہے کہ یہودی کسی اور قوم میں شادیاں نہیں کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ مذکورہ دونوں رجحانات کو مغرب میں پائی جانے والی موجودہ نسل پرستی کی بنیاد سمجھاجاتا ہے۔

عیسائیوں کی تاریخ میں بھی رنگ دارکے تعصبات بہت قدیم پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے حصول کے لئے کالے رنگ کو شروع ہی سے گناہ اور برائی کی علامت کے طور پر پھیلایا جبکہ خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے سفید رنگ کو اچھائی کی علامت کے طور پر پھیلا کر سیاہ فام افراد پر صدیوں تک قیامت خیز مظالم ڈھا ئے۔

ساتویں صدی میں مذہب اسلام کا ظہور ہوا۔ اسلام میں انصاف، امن، انسان دوستی، روشن خیالی، اعتدال پسندی، مذہبی رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی وغیرہ پر بے حد زور دیا گیا ہے جس کا خوبصورت و نایاب عملی نمونہ حضرت محمدﷺ کی زندگی ہے لیکن آپﷺ کے وصال کے بعد خلافتِ راشدہ کو شدید مزاحمت کا سامناکرنا پڑا۔ بنو اُمیہ، بنو عباس کے ادوار میں مغرب میں مسلمانوں نے جنگوں کے ذریعے کافی فتوحات حاصل کیں جس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا پر ترکوں کا قبضہ ہوگیا ان لڑائیوں میں مسلمانوں کا ٹکراؤ براہ راست عیسائیوں سے ہوا اور وہاں کی ریاستوں میں اسلام کو فروغ حاصل ہوا جس کو عیسائیوں نے سخت ناپسند کیا۔ اس کے بعد سے نسل پرستی اور مذہب کے نام پرشدید مخاصمت کاآغاز ہوا جو اب تک کسی نہ کسی صورت جاری ہے۔

یورپی نو آبادیات کے پھیلنے سے سلطنتِ عثمانیہ کا زوال ہوا۔ پندرہویں صدی میں یورپی اقوام نے ہندوستانی، امریکی اور افریقی عوام کو زیر کرکے اپنے گروہی مفادات حاصل کرنے کے لئے نسل پرستی کو ہتھیار کے طور پر

استعمال کیا اور اس کے ساتھ طاقت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے امریکہ کے مقامی باشندوں کا قتلِ عام کیا۔ سفید فام یورپینز نے سترہویں صدی سے اُنیسویں صدی تک براعظم افریقہ کے سیاہ فام باشندوں کی زمینوں اورجائیدادوں پر قبضہ کر کے لاکھوں سیاہ فام افراد کو جبری غلام بنایا اورانہیں اپنے کھیتوں، کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور کیا۔ سترہویں صدی سے اُنیسویں صدی تک برطانوی حکومت نے ہندوستان کے وسائل کو بری طرح لوٹا، اپنے مفادات کے لئے ریلوے لائنوں، سڑکوں، انگریزی اسکولوں، اسپتالوں سمیت دیگر ترقیاتی منصوبوں کو فروغ دیا، ہندوستانیوں کے ہاتھوں ہی سے ہندوستانیوں کو قتل کرایا غرض سب کے ساتھ ظلم و بربریت کے وہ پہاڑ توڑے جو تاریخ کے سیاہ ابواب میں شمار کیے جاتے ہیں۔

1778 ء میں سفید فام انگریزوں نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر قبضہ کر کے مقامی آبادی کا قتل عام کیا۔ آج بھی امریکا اور آسٹریلیا کے اسکولوں میں تاریخ نہیں پڑھائی جاتی ہے۔

بیسویں صدی میں جرمنی کے انتہا پسندنسل پرست راہنما ہٹلر کے تعصبانہ عزائم اور نسل پرستی نے پوری جرمن قوم کو نفسیاتی طور نسل پرستی کی بیماری میں مبتلا کردیاجس کی وجہ سے یورپی اقوام کو دوسری جنگ عظیم سے گزرنا پڑا۔

15، مارچ، 2019 ء کو نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں پیش آنے والا سانحہ جس میں ایک آسٹریلوی نسل پرست، انتہا پسند، دہشت گرد، جنونی نے جس سفاکی سے مسلمانوں کو جمعے کی نماز کے دوران شہید کیاوہ اُس نفسیاتی عمل کا تسلسل ہے جوبالائی سطور میں بیان کیا گیا ہے اورجو دنیا بھر میں صدیوں سے خود کوافضل اور دوسروں کو کم تر سمجھ کر رنگ، نسل، لسان، مذہب، فرقے، علاقے وغیرہ کی بنیاد پر بلاتفریق انسانیت کو کچلتا چلا آرہا ہے جو اسلامی تعلیمات کی صریحاً نفی ہے۔

درحقیقت نسل پرستی، مذہبی، لسانی، فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصب پوری دنیا میں کسی نہ کسی انداز سے حاوی رہے جس کی وجہ سے یونان، روم، مصر، عراق، شام اور ترکی سمیت دیگر علاقوں کو جنگ و جدل سے گزرنا پڑا۔ نسلی، مذہبی، لسانی، فرقہ وارانہ یا علاقائی تعصب کا ایک مائنڈسیٹ صدیوں سے انسانی ذہن کو بڑا گندا کرتا رہا ہے جس کو طالع آزماؤں نے انفرادی یا اجتماعی مفادات کے لئے استعمال کیاجس کے روح فرسا مناظرآج ہم دنیا کے مختلف ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔

نسل پرستی، انتہا پسندی ودیگر مائنڈسیٹ کو تبدیل کرنے کے لئے معاشروں میں انصاف کی بالادستی، تعلیم، روزگار، صحت، مکالمہ، روشن خیالی اور جمہوریت کا فروغ ضروری ہے۔ تمام دنیا کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے اپنے معاشروں کی کمزوریوں کو خود دور کرنا ہوگاجب تک عوام کو بنیادی انسانی حقوق اور انصاف دستیاب نہیں ہوں گے تب تک معاشروں کی تطہیر نہیں ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).