دھوکے کا گھر


ہماری مسجد کے امام ہوا کرتے تھے۔ انتہائی نیک شریف اور بزرگ۔ دن کا بیشتر وقت مسجد میں تنہا قرآن پاک کی تلاوت میں گزارتے۔ غربت کے باوجود ایمانداری سے زندگی بسر کی۔ شہر سے باہر دور ایک گاؤں میں ان کی رہائش تھی۔ پرانا سا ایک اسکوٹر آنے جانے کا واحد ذریعہ، اسی پر مسجد آتے اور واپس جاتے۔ سالہا سال سے جب سے ہوش سنبھالا یہی معمول دیکھا۔ مشقت بھری اس زندگی کے باوجود کبھی ملال یا تفکر کی پرچھائی ان کے چہرے پر نہ تھی۔

ہنس مکھ بہت، خوش و خرم زندگی بسر کی۔ آخر وقت تک اولاد تک کے محتاج نہ ہوئے۔ پرسوں کہیں سے بائک پر آ رہے، اچانک عقب سے ایک نو عمر بائک سوار لڑکے نے تیز رفتاری سے ٹکر مار دی۔ ٹکر مارنے والا لڑکا اور مولوی صاحب دونوں اس تصادم میں گرے۔ اس خوفناک تصادم میں مولوی صاحب کی ٹانگ کی ہڈی کھال اور گوشت چیرتی ہوئی باہر آ گئی اور ان کے کان سے خون بہنے لگا۔ لڑکا بھی شدید زخمی ہوا۔ ہسپتال پہنچے، لیکن پسماندہ علاقوں کے سرکاری ہسپتالوں کے حال سے دنیا واقف۔ تھوڑی بہت ٹریٹمنٹ کے بعد فورا کسی دوسرے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا گیا۔ ابھی لے جایا رہا تھا کہ راستے میں قضا کا فرشتہ آیا اور ان کی روح نکال لے گیا۔

درویش نے زندگی میں انگنت حادثے دیکھے۔ بہت کٹی پھٹی، حتی کہ نا مکمل لاشیں بھی دیکھیں۔ خود کو بھی گولی لگی، یعنی موت کو قریبی دیکھا۔ اس کے باوجود کبھی ذہن پریشان نہ ہوا۔ دوست یار اس صفت کی وجہ سے مذاقا پتھر دل، بے رحم اور نجانے کن القابات سے نوازا کرتے تھے۔ نجانے کیوں مولوی صاحب کے جنازے میں ان کے چہرے کا آخری دیدار کرنے کے بعد ہاتھ پیر اب تک ٹھنڈے پڑے ہیں۔ ذہن میں عجیب خیالات امڈ رہے، سوچیں منتشر، چہرہ کرب اور فکر و غم کی تصویر بنا ہوا ہے۔

بائک پر بیٹھنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ گاڑی چلاتے اس کے اسٹیئرنگ پر گرفت ڈگمگا رہی ہے۔ سوچ رہا ہوں، نجانے کس حال میں آخری وقت آئے گا۔ خال ایسے لوگ ہوں گے جن کی تیاری موت سے قبل مکمل ہوتی ہے۔ مٹھی بھر ہیں، جو دو جمع دو چار کرنے کی سوچ کے بجائے اللہ کو راضی کرنے کی فکر میں پریشاں ہیں۔ اکثریت مجھ ایسوں کی۔ جو سارا دن بھاگم بھاگ، دنیاوی مشاغل کی بھرمار۔ قدرت کا عطا کیا بہت، پھر بھی ہل من مزید کے لیے۔ یہ پلاٹ میرا کیوں نہیں۔

ایسی گاڑی میں بھی لوں؟ کاروبار اک خاص سیزن تک محدود، بقیہ دنوں فارغ بیٹھ کر طبیعت پر جمود طاری کرنے کے بجائے کسی اور میداں میں ہاتھ پیر مار کر دیکھتے ہیں۔ سال میں ایک دو بار شمالی علاقوں کا سفر، قدرت کے حسین نظاروں کا دیدار۔ لائف میں کچھ ڈفرنٹ لانے کے بہانے۔ لیکن وہاں سے یہ سوچ لے آئے یار اس بار اپنے علاقے میں پلاٹ لینے کے بجائے بالائی علاقوں میں کہیں کسی پہاڑ کے دامن میں قدرتی نظاروں سے بھرپور جگہ دیکھ کر اپنا گھر کیوں نہ بنا لیں؟ ایبٹ آباد کے مضامات یا گلیات آئیڈیل ہو سکتے ہیں۔

جانتے ہیں ثبات صرف تغیر کو ہے زمانے میں۔ چہرے یہاں روز بدلتے ہیں۔ کون یہاں آب حیات پی کر بیٹھا ہے؟ روز کتنے جنازے دیکھتے ہیں۔ سکندر جیسا فاتح بھی گیا دونوں ہاتھ خالی لے کر گیا۔ ہمارے باپ دادا گئے وہ کیا ساتھ قبر میں لے کر گئے۔ سب کچھ یہیں رہ جائے گا، ساتھ جائیں گے تو نیک اعمال۔ نیکی بھی مگر حسن اخلاق اور حقوق العباد کے سوا کس کام کی؟ ماتھے پر جس کے برسوں پرانے سجدے کا نشاں وہ اتنا ہی کرخت اور بے ایماں۔

عمرہ یا حج جو کر آیا، آتے ہی ملاوٹ اور ٹھگی شروع کر دی۔ مسجدوں مدرسوں اور فلاحی اداروں کو چندہ دینے والوں کے ذرائع آمدن کی ہی ذرا تحقیق کریں۔ کوئی عزیز و اقارب یتمیوں اور بیواؤں کا مال ڈکار کر بیٹھا ہو گا۔ تو کوئی بہنوں کی وراثت پر سانپ بنا بیٹھا۔ الا چند ایک کے سوا۔ فلاں حضرت والا کے ہاتھ بیعت، فلاں کی جوتی سیدھی کا شرف۔ فلاں گدی نشیں سے مصافحہ۔ اپنے ملازمین سے مگر سلوک کتے سے بڑھ کر۔ مجال جو کبھی ماتھے پر شکن لائے بغیر ماتحت سے بات کی ہو۔ اپنے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کے لیے فاسٹ فوڈز پر بے دریغ لٹانے والے ہاتھ سے مجال جو کبھی نوکر کے بچے کی بیماری پر چند سو بطور قرض ہی نکلے ہوں۔

نظیر اکبر آبادی کی سنیں کیا خوب فرما گئے۔

ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا

کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گو میں پلا سر بھارا

کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

گر تو ہے لکھی بنجارا اور کھیپ بھی تیری بھاری ہے

اے غافل تجھ سے بھی چڑھتا اک اور بڑا بیوپاری ہے

کیا شکر مصری قند گری کیا سانبھر میٹھا کھاری ہے

کیا داکھ منقی ٰ سونٹھ مرچ کیا کیسر لونگ سپاری ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا

یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا

قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا

دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہر منزل میں اب ساتھ ترے یہ جتنا ڈیرا ڈانڈا ہے

زر دام درم کا بھانڈا ہے بندوق سپر اور کھانڈا ہے

جب نایک تن کا نکل گیا جو ملکوں ملکوں ہانڈا ہے

پھر ہانڈا ہے نہ بھانڈا ہے نہ حلوا ہے نہ مانڈا ہے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری رہ جاوے گی

اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی

یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی

دھی پوت جنوائی بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

یہ کھیپ بھرے جو جاتا ہے یہ کھیپ میاں مت گن اپنی

اب کوئی گھڑی پل ساعت میں یہ کھیپ بدن کی ہے کفنی

کیا تھال کٹوری چاندی کی کیا پیتل کی ڈبیا ڈھکنی

کیا برتن سونے چاندی کے کیا مٹی کی ہنڈیا چینی

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

یہ دھوم دھڑکا ساتھ لیے کیوں پھرتا ہے جنگل جنگل

اک تنکا ساتھ نہ جاوے گا موقوف ہوا جب ان اور جل

گھر بار اٹاری چوپاری کیا خاصا نین سکھ اور ململ

چلون پردے فرش نئے کیا لال پلنگ اور رنگ محل

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کچھ کام نہ آوے گا تیرے یہ لعل و زمرد سیم و زر

جب پونجی باٹ میں بکھرے گی ہر آن بنے گی جان اوپر

نوبت نقارے بان نشان دولت حشمت فوجیں لشکر

کیا مسند تکیہ ملک مکاں کیا چوکی کرسی تخت چھتر

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کیوں جی پر بوجھ اٹھاتا ہے ان گونوں بھاری بھاری کے

جب موت کا ڈیرا آن پڑا پھر دونے ہیں بیوپاری کے

کیا ساز جڑاؤ زر زیور کیا گوٹے تھان کناری کے

کیا گھوڑے زین سنہری کے کیا ہاتھی لال عماری کے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

مفرور نہ ہو تلواروں پر مت پھول بھروسے ڈھالوں کے

سب پٹا توڑ کے بھاگیں گے منہ دیکھ اجل کے بھالوں کے

کیا ڈبے موتی ہیروں کے کیا ڈھیر خزانے مالوں کے

کیا بغچے تاش مشجر کے کیا تختے شال دوشالوں کے

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

کیا سخت مکاں بنواتا ہے خم تیرے تن کا ہے پولا

تو اونچے کوٹ اٹھاتا ہے واں گور گڑھے نے منہ کھولا

کیا رینی خندق رند بڑے کیا برج کنگورا انمولا

گڑھ کوٹ رہکلہ توپ قلعہ کیا شیشہ دارو اور گولا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

ہر آن نفع اور ٹوٹے میں کیوں مرتا پھرتا ہے بن بن

ٹک غافل دل میں سوچ ذرا ہے ساتھ لگا تیرے دشمن

کیا لونڈی باندی دائی دوا کیا بندا چیلا نیک چلن

کیا مندر مسجد تال کنواں کیا کھیتی باڑی پھول چمن

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

جب مرگ پھرا کر چابک کو یہ بیل بدن کا ہانکے گا

کوئی ناج سمیٹے گا تیرا کوئی گون سئے اور ٹانکے گا

ہو ڈھیر اکیلا جنگل میں تو خاک لحد کی پھانکے گا

اس جنگل میں پھر آہ نظیرؔ اک تنکا آن نہ جھانکے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).