پاکستانی ٹی وی ڈراما اور عورت!


جب سے پاکستان میں ٹیلی وژن کی نشریات کا آغاز ہوا ہے تب سے۔ ٹی وی ڈراما بھی ان کا لازمی حصہ رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ ٹی وی سے پہلے ریڈیوکا عہد تھا۔ سامعین کی بہت بڑی تعداد ریڈیو سنا کرتی تھی اور ریڈیو کے مختلف النوع پروگراموں میں ریڈیو ڈراما بھی شامل تھا۔ ریڈیو کا ڈراما زیادہ تر ایسے ادیب لکھ رہے تھے جو تجارتی بنیادوں پر لکھنے کی شہرت سے نہیں پہچانے جاتے تھے۔ چناچہ ٹیلی وژن کے قیام کے وقت اسی سوچ کا غلبہ ٹی وی ڈراما لکھنے والوں کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آیا۔

ایسے ادیبوں نے ٹی وی ڈراما بڑی تعداد میں لکھا جو اس شعبے کے توسط سے سماج کے کسی نہ کسی پہلو کی نشاندہی کرنے کو ہی ٹی وی ڈراما سمجھتے اور مانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ گئے وقتوں میں جب تک ٹی وی اور ڈراما دونوں بے تحاشا کمرشلایئز نہیں ہوئے تھے۔ تب تک ٹی وی ڈراما سماج کا عکاس اور زندگی کا ترجمان کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ ٹی وی ڈرامے کے بارے میں ٹی وی کے ناظرین اس درجے حساس اور منسلک ہوا کرتے تھے کہ کسی چھوٹی سی غلطی کو بھی نہ صرف درگزر نہیں کرتے تھے بلکہ ایسی کسی بھی غلطی کے مرتکب افراد کی نشاندہی ہوجانے پر پیشی بھی ہوجایا کرتی تھی۔

اس پیشی میں ایسی کسی بھی معمولی غلطی کے ہوجانے پر سرزنش کی جاتی اور بعد ازاں ایسی کوئی بھی غلطی دہرائی نہ جاسکے اس پرکڑی نظر رکھی جاتی تھی (لیکن آج کا ڈراما؟ غلطی لفظ بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے آج بڑے بڑے ”بھنڈ“ بھی اس قدر معمول کی بات ہے کہ نہ تو کسی بھنڈ پر کسی کی پیشی ہوتی ہے۔ نہ ہی کوئی محتسب فورم ہی کہیں موجود ہے جو ایسے بھنڈ کی کم سے کم نشاندہی کرسکے۔ (گئے وقت میں اگر ٹی والے کہیں بھی چوک جاتے تھے تو کئی ایسے مستعد اور چوکس کریٹکس بھی موجود تھے جو وقت کے وقت ہی نہ صرف نشان دہی کیا کرتے تھے بلکہ اچھی خاصی کھنچائی بھی اپنے مضمون میں ڈرامے سے وابستہ افراد کی کردیا کرتے تھے۔

لہٰذا کسی بھی سہوَ کی گنجائش سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ زبان وبیان کی صحت کے لیے بھی باقاعدہ ایسے افراد پی ٹی وی میں مقرر کیے گئے تھے جنھیں اسکرپٹ ایڈیٹر کہا جاتا تھا۔ جو ماہرین لسانیات و ادبیات کہے جاسکتے ہیں۔ یہ افراد اسکرپٹ میں زبان وبیان کی درستگی کے ذمہ دار تھے۔ ( آج جو ایڈیٹرز چینلز کے اسکرپٹ ڈپارٹمنٹس میں تعینات ہیں ان میں شاید کوئی ایک دو ہی ایسے ہوں گے جنھیں اردو زبان پر پوری طرح سے عبور حاصل ہو۔

زبان وبیان تو کجا آج کے ڈرامے میں املا اور تلفظ کی غلطیاں بھی جابجا سنائی دیتی ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے اور اب زبان کی صحت اور درستگی کے معنی بدلتے جارہے ہیں۔ چناچہ ٹی وی ڈرامے کے اسکرپٹ کے ناک کان درست کرنے والوں کو اردو آئے نہ آئے انگریزی اچھی طرح آنی چاہیے۔ ڈرامے کا زیادہ تر ادارہ جاتی کام بھی انگریزی میں ہی کیا جاتا ہے۔ تاہم اب تک ڈراما لکھنے والے بیشتر افراد اردو رسم الخط میں ہی ڈراما تحریرکرتے ہیں۔

ہم چاہیں تو اسے حوصلہ افزا مان سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی زبان کے ساتھ یہ امر لائق افسوس ہے کہ اس کی تخلیقات کو جانچنے والے افراد اسی زبان سے نابلد ہوں۔ اب آتے ہیں ہم اپنے موضوع کی طرف جس طرح پی ٹی وی کے عہد میں ( یہ عہد اس وقت تک مانا اور سمجھا جاتا ہے جب تک تجارتی بنیادوں پر کام کرنے والے نجی چینلز بڑی تعداد میں قائم نہیں ہوئے تھے ) ڈراما کسی خاص موضوع تک محدود نہیں تھا ہر قسم کے موضوعات ڈرامے کا موضوع بنائے جاتے تھے۔

کردار عورت کے ہوں یا مرد وں کے صرف اس بات کا دھیان رکھا جاتا تھا کہ کردار اپنی ہیت میں حقیقت سے کتنے قریب ہیں۔ ایسی کوئی پابندی رائج تھی نا کسی بھی جانب سے ایسا کوئی دباؤ ہی نظر آتا تھا کہ عورت کو اس حد تک مظلوم دکھایا جائے کہ اس کی اٹھتے بیٹھے تذلیل کی جائے۔ اسے زد وکوب کیا جائے اور جس قدر بھی ہو اسے ایسی پستیوں میں گرا کے پیش کیا جائے کہ دیکھنے والوں کی چیخیں نکل نکل جائیں۔ اس کے باوجود آج یہ عورت کی مظلومیت کی تجارتی تشہیر ہی کہی جاتی ہے۔

جس کا مقصد عورت کے دکھوں، اس کے خلاف ہونے والے مظالم سے نجات دلانا نہیں بلکہ ایسے مناظر اور کرداروں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ریٹنگ حاصل کرنا مقصود ہے۔ شاید کچھ لوگ ایسا مانتے اور سمجھتے ہوں کہ اس قسم کے ڈراموں سے سماج میں ایسی رائے عامہ ہموار کرنا ممکن ہے جس کی بیداری سے عورت پر ہونے والے مظالم کو کم کیا جاسکتا ہے یا انھیں ختم کرنے کی کسی سوشل تحریک کی بنیاد رکھی جاسکتی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ڈراموں میں جس قدر عورت کو ذلیل کیا جاتا ہے۔

تشدد اور مار کٹائی کی جاتی ہے اتنی ہی زیادہ ریٹنگ ڈراما پیش کرنے والے چینل کو حاصل ہوتی ہے۔ یہ صرف کہا ہی نہیں جاتا بلکہ حقیقت میں کئی بار اس امر کا تجزیہ اور مشاہدہ کیا جاچکا ہے کہ زیادہ ریٹنگ حاصل کرنے والے ڈرامے وہی رہے ہیں جن میں عورت کو ذلت کی پستیوں میں دھکیل کر دکھایا گیا ہو۔ یہاں میں بدلتے عہد کی ایک تصویر دکھانا چاہتا ہوں۔ ستر ( 70 ) کی دھائی تک پاکستان کی فلموں میں اول تو خواتین کی آبرو ریزی کے واقعات کا ہونا لازمی نہیں ہوتا تھا اور اگر کسی فلم میں ایسا کوئی دل خراش منظر دیکھنے میں آبھی جاتا تھا تو ناظرین کی بڑی تعداد دم سادھے ایسی مظلوم عورت کی عزت کے بچ جانے کی دعا ئیں مانگنے لگتی تھی اور موقع پر پہنچ کر عزت بچانے والے ہیرو کی ستائش میں تالیاں بجائی جاتیں، نعرے لگائے جاتے۔

یہ ماحول تھا ستر کی دھائی تک۔ پھر وقت بدلا اور انھی سینما ہالوں میں ایسے آبرو ریزی کے مناظر پر ناظرین نہ صرف خوشی سے سیٹیاں بجانے لگے بلکہ ایسی آوازیں بھی سننے کو ملنے لگیں جو مظلوم فلمی اداکارہ سے زیادہ آبروریزی کرنے والے ولن کے حق میں بلند ہوتی سنائی دیں۔ ناظرین میں سے کچھ لوگ عزت لوٹنے والے ولن کو زور شور سے یہ بتانے لگے کہ اسے یہ عظیم کام کیسے انجام دینا ہے۔ عورت سے ہمدردی ختم ہوکر اس کی آبرو ریزی کے مناظر اس درجے تفریح اورموج مستی کو بڑھاوا دینے کا سبب بننے لگے کہ پھر قریب ہر فلم میں ایسے مناظر کا شامل کیا جانا ازبس ضروری سمجھا گیا۔

ایسا ہی ا ن دنوں ٹی وی ڈرامے میں ہورہاہے ”خواتین اور کمسن بچیوں کاریپ“ ٹی وی ڈرامے کا حالیہ مرغوب ترین موضوع ہے۔ جسے ڈرامے کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا ہے۔ بدقسمت عورت سے ہمدردی یا اس کی داد رسی کے لیے تو کہیں سے کوئی آواز اٹھتی سنائی اور دکھائی نہیں دیتی لیکن ایسے موضوعات والے ڈراموں کی کامیابی کے فلائر پوری شان و شوکت سے آویزاں کیے جاتے ہیں۔ عورت کی مظلومیت کا مقصد اس کے دکھوں، اس کی پستیوں کو منصہ شہود پر لانا اس کے دکھوں کا مداوا کرنا صرف کہنے کی حد تک ہی نظر آتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4